خوارک کی کمی یا قبل از وقت پیدائش؛ تھر میں بچوں کی اتنی اموات کیوں ہوتی ہیں؟


ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ تم میں خون کی شدید کمی ہے۔ اچھی غذا نہ ہونے کے سبب تم جسمانی طور پر انتہائی کمزور ہو تو مزید بچے پیدا مت کرنا۔ اس لیے اب میں بچے پیدا نہیں کر سکتی۔ یہ کہنا ہے کیراں کا جو تھر پارکر کی رہنے والی ہے۔

سینگھارو گاؤں کی رہائشی 22 سالہ کیراں چار بچوں کی ماں ہے۔ اس کی شادی 12 برس کی عمر میں محمد حسن سے ہوئی تھی۔ 10 برس میں چار بچوں کی پیدائش نے جہاں کیراں کی صحت کو شدید متاثر کیا۔ وہیں غربت میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آخری بچے کی پیدائش نے کیراں اور اس کے بچے کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا تھا جس کے بعد ڈاکٹروں نے میاں بیوی کو سمجھایا کہ اب وہ مزید اولاد پیدا نہ کریں۔

کیراں کے شوہر حسن محنت مزدوری کرتے ہیں اور اپنے جھونپڑے کے ساتھ ایک ٹھیلا بھی لگاتے ہیں وہ اتنا بھی نہیں کما پاتے کہ دو وقت پیٹ بھر کر کھا سکیں۔

حسن کا کہنا تھا کہ جب ان کی پہلی اولاد ہونے والی تھی تو ڈاکٹر نے جو بھی کھانے پینے کو کہا میں نے اپنی بیوی کو کھلایا۔ پھل، دودھ، دوائیں سب دیا۔ البتہ اس کے بعد جیسے جیسے بچے پیدا ہوتے گئے غربت بھی بڑھتی گئی۔ کون سا باپ ہوگا جو نہیں چاہے گا کہ اس کے بچے اسکول پڑھنے نہ جائیں۔ ان کو اچھی خوراک یا لباس نہ ملے۔ البتہ وہ یہ سب پورا نہیں کر پاتے۔

اس لیے اب وہ نہیں چاہتے کہ مزید اولاد پیدا ہو جس کی تجویز ان کو ڈاکٹر نے بھی دی ہے۔

یہ کہانی کیراں اور حسن کی نہیں تھر پارکر کے تقریباََ ہر گھر کی ہے۔ جہاں ہر کنبے میں ہر سال بچو ں میں اضافہ ہوتا ہے۔ مائیں کمزور صحت کے ساتھ جب حاملہ ہوں تو دنیا میں آنے والی اولاد ماں کی مشکلات اور کمزوریوں کے ساتھ آتی ہے۔

نوزائیدہ بچوں کی اموات کی خبریں سب سے زیادہ تھر سے میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ اس ضلعے میں بچوں کی اموات سب سے زیادہ ہیں؟ مٹھی کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اسپتال میں صبح کے نو بجے ہی زچہ و بچہ وارڈ میں ان حاملہ خواتین کا رش ہوتا ہے جن کی ڈیلیوری کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ یہاں ایسی خواتین بھی ہوتی ہیں جو دور دراز سے یہاں پہنچتی ہیں۔

اسی اسپتال کی ماہر امراضِ خواتین ڈاکٹر آبھا چندانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مٹھی اسپتال میں پہلے سے بک اور ریفرل کیسز کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ بچوں کی ولادت کا وقت ماؤں کے لیے اس لیے مشکل ہے کیوں کہ بچوں کی پیدائش میں وقفہ نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ غربت کے سبب، خوراک اور خون کی کمی ماؤں کی صحت کو اتنا کمزور بنا چکی ہوتی ہیں کہ بچہ مقررہ وقت سے پہلے ہی پیدا ہوتا ہے جس کے بعد بچے کی زندگی بھی خطرے سے دوچار ہوتی ہے۔ جب کہ ماں بھی انیمیا کا شکار ہو اور اسے ہر سال بچہ پیدا کرنا پڑے تو اس کی صحت کہاں سے اچھی ہوگی۔

ڈاکٹر آبھا چندانی کے مطابق تھر پارکر میں خاندانی منصوبہ بندی کا خیال واضح نہیں ہے۔ یہاں تعلیم کی کمی بھی ہے اور مسلمان ہوں یا ہندو خاندان، ان میں خاندانی منصوبہ بندی کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ وہ اس سے متعلق کئی غلط فہمیوں کا شکار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اولاد خدا کی دین ہے۔ اسے دنیا میں آنے سے روکنا درست اقدام نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جو ماں اسے دنیا میں لانے کا سبب ہے۔ اگر وہ ٹھیک نہیں ہوگی تو بچہ کہاں سے تندرست پیدا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر ڈیلوری کے وقت ماں اور بچہ زندگی اور موت سے لڑتے ہیں اور کئی بچے پیدائش کے بعد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ قبل از وقت پیدائش پر بچے اور ماں کو گھر نہیں خصوصی وارڈ میں بھیجا جاتا ہے جہاں کئی دن اور ماہ انھیں رکھا جاتا ہے۔

مٹھی اسپتال کے ہائی ڈیپینڈینسی یونٹ میں کئی نوزائیدہ بچے مختلف نالیوں اور آکسیجن کی فراہمی کے ساتھ سوتے یا پھر روتے ہوئےدکھائی دیتے ہیں۔

یہ بچے پیدا ہونے والے دیگر بچوں جیسے نہیں ہیں۔ کیوں کہ ان کا وزن عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اوسطاََ ڈھائی کلو کے بجائے ایک کلو یا سے ڈیڑھ کلو تک ہوتا ہے۔ ایک نارمل ڈیلوری کے لیے 40 ہفتوں کا وقت مقرر ہے اور اگر پری ٹرم ڈیلوری کی بات کی جائے تو وہ 37 ہفتوں سے قبل ہو جاتی ہے۔ جب کہ ان بچوں کی پیدائش 30 سے 32 ہفتوں کے دوران ہوتی ہے۔ اس لیے یہ شدید کمزور ہوتے ہیں۔

ان بچوں کی سانسوں کو بحال رکھنے کے لیے عملہ مسلسل ان کی نگرانی کرتا ہے۔ جب کوئی بچہ بہتر صحت کے ساتھ اس وارڈ سے نکل کر ماں کی گود میں دے دیا جاتا ہے تو وہ لمحہ اسپتال کے ڈاکٹر اور خاندان کے لیے خوشی کا ہوتا ہے البتہ پیچھے کئی اور بچے یہاں آنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے بچوں کے بہبود کے ادارے یونیسیف کے مطابق ایک ہزار بچوں کی پیدائش کے بعد 67 بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل انتقال کر جاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان بھر میں ایک ہزار بچوں کی پیدائش میں سے نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح 41 اور شیر خوار بچوں کی اموات کی تعداد 56 ہے۔

پاکستان ڈیموگریفک اینڈ ہیلتھ سروے(پی ڈی ایچ ایس) کے 2017 اور 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق تھر پارکر کی آبادی کا تناسب آخری مردم شماری کے مطاب 16 لاکھ 49 ہزار 661 نفوس پر ہے۔ اگر آبادی کے اس تناسب کو سامنے رکھا جائے تو ہر سال تھر میں 47 ہزار سے زائد بچوں کی پیدائش متوقع ہے جس میں اگر اموات کا جائزہ لیا جائے تو وہ کچھ اس طرح سے ہے۔ 2018 میں نوزائیدہ بچوں کی اموات 418، شیر خوار بچوں کی اموات 550 اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات 642 تھیں۔

پی ڈی ایچ ایس کے مطابق 2019 میں نوزائیدہ بچوں کی اموات 539، شیر خوار بچوں کی اموات 735 اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات 832 رہیں۔ جب کہ 2020 میں نوزائیدہ بچوں کی اموات 533 شیر خوار بچوں کی اموات 654 اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات 777 ریکارڈ کی گئیں۔ اور رواں برس اگست سےاب تک 267 نوزائیدہ، 348 شیر خوار اور پانچ برس سے کم عمر 385 بچے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

اموات کا یہ ریکارڈ تھر پارکر کے بڑے اسپتالوں کے ہیں۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق اندازاََ اموات کی اتنی ہی تعداد کمیونٹی میں بھی ہو سکتی ہیں۔ اگر صرف اسپتال کے مہیا کردہ ریکارڈ کو سامنے رکھیں تو اس لحاظ سے ملک بھر میں تھر پارکر میں بچوں کی اموات کی یہ شرح 11 فی صد بنتی ہے۔

مٹھی اسپتال کے ماہرِ اطفال صاحب ڈنو جنجہی کے مطابق تھر میں بچوں کی اموات غذائی قلت کے سبب نہیں ہیں۔ یہاں سب سے زیادہ ہونے والی اموات نوزائیدہ بچوں کی ضرور ہیں جس کی وجہ ماں کا اولاد میں وقفہ نہ رکھنا، بچے کی وقت سے پہلے پیدائش، قوتِ مدافعت کی کمی کے سبب دیگر بیماریوں میں مبتلا ہونا اہم وجوہات ہیں۔

اسپتال کی نرسری کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت نرسری میں موجود 20 بچوں کا وزن ڈیڑھ کلو سے بھی کم ہے۔ غذائی قلت کا شکار وہ بچے جو ایک برس سے زائد عمر کے ہیں۔ البتہ ابھی تک صرف ماں کے دودھ پر گزارہ کر رہے ہیں اور کسی بیماری جیسے انیمینا، نمونیا، ڈائیریا کا شکار ہو چکے ہیں انھیں مٹھی کے اسپتال میں قائم نیوٹریشن اسٹیبلائزیشن سینٹر میں لایا جاتا ہے۔ یہاں ان بچوں کی ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف کے مقرر کردہ گائیڈ لائنز پر عمل کرتے ہوئےلازمی خوراک اور دواؤں کی مدد سے صحت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر صاحب ڈنو کے مطابق اس وارڈ میں بچوں کی ہلاکت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ہر بچے کو چھ ماہ کے بعد ماں کے دودھ کے ساتھ دیگر خوراک کی ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن یہاں بہت سے ایسے بچے ہیں جو اس خوراک سے محروم ہیں جس کے سبب ان کی قوت مدافعت کمزور ہے اور وہ جلد ہی بہت سی بیماریوں کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ یہ بیماریاں بھی پھر ان بچوں کی اموات کا ایک سبب بن جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک ایسا بچہ جو ایک برس کا ہو گیا ہے اس کو زیادہ نہیں صرف روزانہ 50 گرام چاول اور 25 گرام دال بھی دی جائے تو وہ کافی ہے۔ اگر ایک پیالی چاول بچ جائے تو اس میں سے ایسے تین بچے کھانا کھا سکتے ہیں۔

سمن بھی اس وارڈ میں اپنے ایک سالہ بچے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔ بچے کا وزن اب خوراک اور ادویات کے سبب کچھ بہتر ہوا ہے۔ لیکن انیمیا کا شکار یہ بچہ اس وقت تک گھر نہیں جاسکتا جب تک اس کی صحت اور بھوک بحال نہ ہو جائے اور ماں کی تربیت بھی مکمل نہ ہو جائے کہ اس نے مستقبل میں اپنے بچے کی صحت اور خوراک کا کس طرح خیال رکھنا ہے۔

سمن کی طرح یہاں بیٹھی بہت سی مائیں ان بچوں کی زندگی کی دعائیں مانگ رہی ہیں۔ لیکن ان میں سے بیشتر مائیں ایک نئی زندگی کو کچھ ماہ بعد دنیا میں لانے والی ہیں۔ جو یقیناََ ان بچوں کی طرح ٹوٹی بکھرتی سانسوں کے ساتھ دنیا میں آنے کو تیار ہیں۔

سمن کے مطابق عورتیں جب ساتھ بیٹھتی ہیں تو یہ باتیں کرتی ہیں کہ اتنے بچے پیدا کرتے ہیں اگر یہ کم ہوں تو ہماری اور بچوں کی صحت بھی بہتر رہے۔ لیکن یہاں عورتوں کو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ یہاں مردوں نے کرنا ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments