ہندوستان میں برطانوی راج: مہاراجے اور حکمران جنھیں انگریزوں نے ’زوال پذیر‘ شخصیات کے طور پر دیکھا


فتح سنگھ
Juggernaut
ادھے پور کے فتح سنگھ نے اپنے جاہ و جلال کو بڑی حکمت عملی کے ساتھ استعمال کیا
آزادی سے قبل ہندوستان کے مہاراجوں یا شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کے بارے میں ہاتھیوں، رقص کرتی لڑکیوں اور عظیم الشان محلات جیسے تصورات عام رہے ہیں لیکن تاریخ دان منو پلئی نے ان مہاراجوں یا حکمرانوں کی میراث پر نظرثانی کی ہے۔

اگر آپ ان کے زیورات، محلوں اور عالیشان درباروں سے ہٹ کر دیکھیں تو آپ ایک بات ضرور نوٹ کریں گے کہ ان کو بڑے پیمانے پر طعنے دیے گئے، ان کا مذاق اڑایا گیا یا پھر ان میں عیب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی۔

انگریز اپنے دور میں ہندوستان کے ’مقامی‘ شہزادوں کو زوال پذیر شخصیات کے طور پر دیکھتے تھے جو حکومت کی بجائے سیکس اور زرق برق ملبوسات میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔

مثال کے طور پر ایک سفید فام آفیسر نے مہاراجوں کو ’ہیبت ناک، گھناؤنا اور ظاہری شکل و صورت میں قابل نفرت‘ قرار دیا، جو کسی رقاصہ کی طرح ’بالیاں اور ہاروں سے آراستہ‘ ہوتے تھے۔

سفید فام آفیسر نے یہ بھی کہا کہ ’سفید فام مردوں کے برعکس یہ مہاراجے مردانہ وجاہت نہیں بلکہ زنانہ صفات کے مالک احمق لوگ ہیں۔‘

مہاراجوں کو بدنام کرنے کی سوچی سمجھی کوشش

مہاراجوں کے بارے میں یہ دقیانوسی خیالات دہائیوں تک قائم رہے۔ سنہ 1947 میں لائف میگزین نے بھی کچھ اعداد و شمار پیش کیے جن کے مطابق ایک مہاراجہ کے پاس اوسطاً ’11 خطاب، تین یونیفارم، 5.8 بیویاں، 12.6 بچے، پانچ محل، 9.2 ہاتھی اور کم از کم تین رولز روئس گاڑیاں ہوتی تھیں۔‘

چمرجندر وڈیار

Juggernaut
میسور کے چمرجندر وڈیار نے صنعتی منصوبوں پر کام کیا

گمراہ کن ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اعدا و شمار مضحکہ خیز بھی تھے کیونکہ یہ کل 562 ریاستوں پر مشتمل تھے جن میں زیادہ تر چھوٹی ریاستیں شامل تھیں اور ان کی سیاسی اہمیت بہت ہی کم تھی۔

لاکھوں لوگوں پر حکمرانی کرنے والے تقریباً 100 مہاراجوں کو بہت چھوٹی ملکیت والے زمیداروں کے برابر کھڑا کر دینا ٹھیک نہیں تھا۔ اس سے ان کی نہ صرف حیثیت کمزور ہوئی بلکہ عوام کے سامنے وہ کارٹونوں جیسے کردار بن کر رہ گئے۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ شاہی علاقے برصغیر پاک و ہند کے چالیس فیصد حصے پر پھیلے ہوئے تھے اور براہ راست نوآبادیاتی کنٹرول میں نہیں آتے تھے بلکہ مختلف معاہدوں کے ذریعے برطانوی راج سے منسلک تھے، لیکن سبھی راجہ ویسے نہیں تھے جیسی ایک عام تصویر پیش کی جا رہی تھی۔

لائف میگزین نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا ذکر بھی کیا تھا کہ اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ ریاست کوچن کے مہاراجہ کے کسی لونڈی کی گود میں ہونے کی بجائے سنسکرت کی کسی کتاب سے لطف اندوز ہو رہے تھے جبکہ ریاست گوندل کے حکمران ایک تربیت یافتہ ڈاکٹر تھے۔

بڑی ریاستوں پر ’خود کو عظیم سمجھنے والے‘ آمروں کی حکومت نہیں تھی جو شراب اور سیکس کے نشے میں ڈوبے رہتے تھے بلکہ یہاں سنجیدہ سیاسی شخصیات کی حکومت تھی جو اپنی ریاستوں کو جائز سیاسی جگہوں کے طور پر دیکھتے تھے۔

ہاں البتہ مہاراجوں کی غیر سنجیدگی کے الزام میں کچھ سچائی ہے، جیسے ایک بار ایک مہاراجہ نے ایک سکاٹش ریجمنٹ کو دیکھا اور فوراً اپنے سپاہیوں کو سکرٹس پہنا دیں جبکہ ایک اور مہاراجہ کا دعویٰ تھا کہ وہ فرانس کے حکمران لوئس چودھویں ہیں جن کا پنجابیوں میں دوبارہ جنم ہوا ہے۔

لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس غیر معمولی انداز پر صرف ہندوستان کے شہزادوں نے اجارہ داری قائم کی۔ برطانوی بادشاہوں کے ماضی بھی ویسے ہی رنگین تھے جیسے منتخب سیاستدانوں کے۔ یہاں تک کہ لارڈ کرزن جیسے شخص، جنھیں وائسرائے بنا کر انڈیا بھیجا گیا تھا، نے ایک بار بالکل برہنہ ہو کر ٹینس کھیلی۔

یہ بھی پڑھیے

انگریزوں نے ہندوستان کو کل کتنا مالی نقصان پہنچایا؟

برطانوی راج کے خلاف ’پگڑی سنبھال جٹا‘ تحریک کے سرخیل اجیت سنگھ کون تھے؟

جب انگریزوں نے اورنگ زیب عالمگیر کو للکارا

سیاجی راؤ

Juggernaut
بڑودا کے سیاجی راؤ برطانوی سامراج کے تیز ترین شاہی نقاد کے طور پر ابھرے

ویسے اس طرح کی احمقانہ کہانیا برطانوی حکمرانوں سے بھی جوڑی جاتی رہی ہیں۔ جیسے ہندوستان کے وائس رائے رہنے والے لارڈ کرزن کو ایک مرتبہ برہنہ ہو کر ٹینس کھیلتے پایا گیا تھا۔

کئی حکمرانوں کا کام بہت شاندار تھا

اپنی نئی کتاب کے لیے تحقیق کرتے ہوئے میں نے پایا کہ مہاراجوں کی خود پسند احمقوں والی شبیہ کے سبب بہت سی دلچسپ کہانیاں پیچھے چھوٹ گئیں اور بہت سی ایسی اہم کہانیوں کو جان بوجھ کر چھپا دیا گیا۔

جیسے جنوبی ہندوستان میں میسور کے شہزادے کے پاس ہاتھی تو تھے لیکن ان کے دور حکومت میں صنعتیں بھی قائم ہوئیں۔

ایک صحافی کو تحقیق سے پتا چلا کہ مغربی ریاست بڑودا میں ایک مہاراجہ نے تعلیم کے شعبے میں اپنی رعایا کے ہر 55 لوگوں پر پانچ ڈالر کے برابر رقم خرچ کی جبکہ دوسری جانب برطانوی حکمرانوں نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں اتنا ہی خرچ ہر ایک ہزار افراد پر کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

انگریزوں نے ہندوستان کو کل کتنا مالی نقصان پہنچایا؟

مہاراجہ پر کیا دباؤ تھا؟ کشمیر کے انڈیا سے الحاق کے آخری دنوں کی کہانی

جب انگریزوں نے اورنگ زیب عالمگیر کو للکارا

برطانوی راج کے خلاف ’پگڑی سنبھال جٹا‘ تحریک کے سرخیل اجیت سنگھ کون تھے؟

اس کے ساتھ ساتھ ٹراونکور میں جو آج کیرالہ ہے کو ’ماڈل ریاست‘ کہا جاتا تھا کیونکہ وہاں تعلیم اور انفراسٹرکچر کے لیے سرمایہ کاری کی گئی تھی۔

درحقیقت یہ شاہی علاقے ہی تھے جہاں ہندوستان میں آئین سازی کے بارے میں ابتدائی بحث و مباحثے شروع ہوئے۔

تو پھر ایسا کیوں ہے کہ جب بھی ہم ہندوستان کے شہزادوں اور مہاراجوں کی بات کرتے ہیں تو صرف ان کے حرم، گاڑیوں اور سیکس سکینڈلز کے بارے میں ہی کیوں باتیں کی جاتی ہیں؟

پہلی بات تو یہ کہ برطانوی راج کے حق میں یہ بات جاتی تھی کہ وہ خود کو ایسے سنجیدہ استادوں کے طور پر پیش کریں جو غیر سنجیدہ بچوں سدھارنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔

لیکن اس بات کو تسلیم کرنا کہ گندمی رنگت والے مرد نہ صرف حکومت کرنے کے اہل تھے بلکہ کئی معاملات میں انگریزوں کو شکست بھی دے سکتے تھے، دراصل برطانوی راج کے ’تہذیب‘ سکھانے کے نام نہاد مشن کو بے نقاب کر سکتا تھا۔

برطانوی راج سے ان کے تعلقات مشکل تھے

اصل میں یہ کہانی واضح کرت ہے کہ حکمرانی کے لیے ’نزاکت اور پاگل پن‘ کی کیا اہمیت ہے۔

مہاراجہ بھلے ہی باضابطہ طور پر ’اپنی سلطنت کے ستون‘ تھے لیکن عملی طور پر وہ ہمیشہ اپنے برطانوی حکمرانوں کو آزمائش میں ڈالتے رہتے تھے۔

مثال کے طور پر ریاست بڑودا برطانیہ مخالف انقلابی لٹریچر کا ذریعہ تھی، جسے ’سبزیوں کی ادویات‘ کے معصوم عنوان کے تحت شائع کیا جاتا تھا۔

ریاست میسور مقامی پریس میں اپنے شاہی خاندان کے خلاف کوئی بھی خبر برداشت نہیں کرتی تھی تاہم ایڈیٹرز کو اجازت تھی کہ وہ دوستانہ انداز میں برطانوی راج پر تنقید کر سکتے تھے۔

جے پور کے حکمرانوں نے اپنے کھاتوں (اکاؤنٹس) کی مبہم اور نامکمل تفصیلات فراہم کیں اور سرکاری خزانے میں موصول ہونے والی لاکھوں روپے کی آمدن کو چھپایا تاکہ بڑا نذرانہ پیش کرنے سے بچا جا سکے۔

کرشن راجہ وڈیار

Juggernaut
میسور کے کرشن راجہ وڈیار کو ’حکومتی نااہلی‘ کے الزام میں اقتدار سے محروم کیا گیا تاہم برطانوی گورنر جنرل نے بعد میں خود ہی یہ محسوس کیا کہ یہ غیر منصفانہ تھا

اس کے علاوہ بہت سے حکمرانوں نے آزادی کی جنگ میں قوم پرست کانگریس پارٹی کی مالی مدد بھی کی۔ درحقیقت سنہ 1920 میں لارڈ کرزن اس بارے میں قائل تھے کہ انڈین مہاراجوں میں کئی ’فلپ گیلیٹس‘ موجود تھے (ایک شہزادے جنھوں نے فرانس کے انقلاب کی حمایت کی تھی)، جو قوم پرستی کے لیے ’بھرپور ہمدردی‘ رکھتے ہیں۔

شاید آپ کو یہ بات بہت عجیب لگے کہ آزادی کی جدوجہد میں شہزادوں کو اصل ہیرو سمجھا جاتا تھا۔

بڑی ریاستوں کی کامیابیاں قوم پرستوں کے لیے باعث فخر تھیں اور 1930 اور 1940 میں چیزیں تبدیل ہونے لگیں۔ بہت سے علاقوں میں، تعلیم تک رسائی کو وسیع کرنے میں اپنی کامیابی کی وجہ سے، جمہوری نمائندگی کے مطالبات سامنے آنے لگے تاہم ہندوستان سے انگریزوں کے انخلا کے بعد بہت سے مہاراجوں کے پرتشدد اور جابرانہ انداز نے ان کی وسیع وراثت کو داغدار کیا۔

اگر تاریخ کوئی سبق دیتی ہے تو وہ یہ کہ ہر چیز جو بظاہر نظر آتی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

یہ سچ ہے کہ رقص کرتی لڑکیوں اور ہاتھیوں جیسی دقیانوسی کہانیوں میں عرصہ دراز سے گم ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ مہاراجوں میں سے چند جدیدیت کے حامی اور زیرک سیاستدان بھی تھے۔

منو پلئی ایک تاریخ دان ہیں اور کتاب False Allies: India’s Maharajahs in the Age of Ravi Varma کے مصنف بھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments