کشمیر میں مبینہ در اندازی، بھارت کی فوج کے پاکستان پر امن عامہ خراب کرنے کے الزامات


بھارت کی فوج کے حکام نے پاکستان کی فورسز پر الزام لگایا ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندوں کو متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو عبور کرکے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں داخل ہونے میں مدد دے رہی ہیں۔

انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ 10 روز کےدوران بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے اوڑی سیکٹر میں ایل او سی پر در اندازی کی دو بڑی کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے پانچ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے اور ایک کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ اُن سب کا تعلق پاکستان کے پنجاب صوبے سے تھا اور وہ کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ کے اراکین تھے۔

ایک اعلیٰ بھارتی فوجی افسر میجر جنرل وریندر وٹس نے اوڑی میں صحافیوں کو بتایا کہ ایل او سی کے اوڑی سیکٹر میں جس 19 سالہ پاکستانی عسکریت پسند کو گرفتار کیا گیا ہے اُس کا نام علی بابر پاترا ہے اور اُس کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں تحصیل دیپالپور سے ہے۔ جب کہ اُس کا ساتھی33 سالہ عتیق الرحمٰن عرف قاری انس، جو جھڑپ کے دوران ہلاک ہو گیا تھا، ضلع اٹک کا باشندہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہ دونوں افراد دراندازوں کے ایک بڑے گروپ میں شامل تھے جس نے 18 ستمبر کی رات کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی لیکن گروپ کے باقی اراکین کو بھارت کی فوج نے واپس پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر لوٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔

فوجی افسر نے دعویٰ کیا کہ علی بابر نے تفتیش کے دوران بتایا ہے کہ اُس نے 2019 میں خیبر پختونخوا کے گڑھی حبیب اللہ علاقے میں قائم ایک تربیتی کیمپ میں تین ہفتے کی تربیت لی تھی جس کے بعد اُسے گھر جانے کی اجازت ملی۔ البتہ رواں برس اُسے ریفریشر کورس میں شامل کیا گیا اور اس کی تکمیل کے فوراََ بعد اسے گروپ میں شامل کیا گیا اور پھر کشمیر کی طرف روانہ کر دیا گیا۔

سرینگر میں بھارت کی فوج کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ علی بابر نے 24 ستمبر کو اوڑی کے سلام آباد نالے کے مقام پر بھارت کی فوج کے ساتھ جھڑپ میں ہتھیار ڈال دیے تھے جب کہ اُس کا ساتھی مارا گیا تھا۔

میجر جنرل وٹس کے مطابق اس نوجوان نے ہتھیار ڈال دیے تھے تو اُس پر گولی چلانے کے بجائے اُسے حراست میں لیا گیا۔ بھارت کی فوج نہتے لوگوں پر وار نہیں کرتی۔

بھارت کی فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ گرفتار نوجوان کو اُس کی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گمراہ کیا گیا اور پھر ان کے بقول لشکرِ طیبہ میں شامل ہونے پر آمادہ کیا گیا۔ اُس کی کم عمری میں اُس کے والد کے انتقال کے بعد وہ، اُس کی بیوہ ماں اور گود لی گئی بہن کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ غربت کی وجہ سے نجات پانے کے لیے اس نے ساتویں جماعت ہی میں دیپالپور کے ایک سرکاری اسکول کو خیر باد کہہ دیا اور پھر بیان کے مطابق لشکرِ طیبہ میں شامل ہو گیا۔

بیان میں دعوٰی گیا ہے کہ عتیق الرحمٰن نے علی بابر کو ماں کے علاج کے لیے 20 ہزار روپے دیے تھے اور یہ وعدہ کیا تھا کہ ضلع بارہمولہ کے پٹن علاقے میں اسلحے کی ایک کھیپ پہنچانے کے بعد پاکستان لوٹنے پر اُسے مزید 30 ہزار روپے دیے جائیں گے۔

بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ علی بابر نے تفتیش کے دوران انکشاف کیا ہے کہ گڑھی حبیب اللہ کے جس کیمپ میں اُسے تربیت دی گئی تھی وہاں بیان کے بقول اسلحے کے استعمال کا طریقہ سکھانے والے اکثر انسٹرکٹر پاکستان کی فوج کے اہلکار ہیں۔

فوج کے بیان میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھیجنے کا مقصد علاقے میں امن و امان کو خراب اور پُر تشدد کارروائیاں کرانا ہے۔

دوسری جانب پاکستان نے بھارت کی فوج کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کہنا کہ ایل او سی پر ایک پاکستانی عسکریت پسند کو گرفتار کیا گیا ہے اور ایک ہلاک ہوا ہے اصل میں بھارت کا پاکستان کو ملوث کرنے اور نئی دہلی کے زیرِ قبضہ جموں و کشمیر میں اس کی طرف سے کی جا رہی سفاکانہ کارروائیوں سے دنیا کی توجہ ہٹانے کا حربہ ہے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حقیقت یہ ہے بھارت کی جیلوں میں ہزاروں کشمیر نوجوان جھوٹے الزامات کے تحت قید ہیں۔ دفتر خارجہ کے بقول جب بھی بھارت بین الاقوامی سطح پر دباؤ کا سامنا کرتا ہے ان ہی نوجوانوں کو وقتاََ فوقتاََ مبینہ عسکریت پسندوں کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔

سرینگر میں بھارت کی فوج کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل دیوندر پرتاپ پانڈے نے ایل او سی پر پیش آنے والے حالیہ واقعات کو شرارت قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ایل او سی پر ہونے والی اس تھوڑی سی شرارت پر فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔ بھارت کی فوج ایل او سی پر اور جموں و کشمیر کے اندر کسی بھی طرح کی صورتِ حال سے نمٹنےکے لیے تیار ہے۔

حالیہ کشیدگی کے حوالے سے تجزیہ کار اور یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہء سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ ایل او سی پر تازہ کشیدگی ایک افسوسناک امر ہے اور اگر اس پر توجہ نہیں دی جاتی تو ان کے خیال میں یہ ایک سنگین صورتِ حال کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رواں برس فروری میں فائر بندی کے سمجھوتے کی تجدید کے بعد دونوں ملکوں نے خوش گوار ماحول کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments