پشتون آئیڈیالوجی، طالبان اور عمران خان


اقوام متحدہ کے حالیہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں عمران خان نے اپنے ورچول خطاب میں دنیا کو یہ سمجھانے کی سعی کی ہے کہ گویا طالبان کو پشتون آئیڈیولوجی یا من حیث القوم پشتونوں کی حمایت حاصل ہے۔ بعض اوقات انسان اپنی دانست میں جو کچھ کہتا ہے یا اپنی سوچ کے مطابق جب ایک ایسے بندے یا بندوں کو کسی خاص موضوع پر سمجھا رہا ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں وہ اس موضوع سے ناواقف ہیں یا پھر اس موضوع کے حوالے سے وہ پہلی بار ان کے سامنے لب کشائی کر رہا ہوتا ہے تو وہ اصل میں بہت بڑے غلط فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کیونکہ درحقیقت وہ سامع یا سامعین اس موضوع کے حوالے سے ان سے زیادہ جان کاری رکھتے ہیں وہ ان سے کئی درجے زیادہ اس موضوع کو جانچتے ہیں اور بجائے ان کو سمجھانے کے یا ان پر اپنی علمیت جھاڑنے کے ان کے سامنے اپنی کم مائیگی کو ان پر آشکار کر رہا ہوتا ہے لیکن ان کو پتہ نہیں ہوتا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کی اب ہمارے محترم وزیر اعظم صاحب دنیا کو جو سمجھا رہے ہیں کیا وہ دنیا کو نہیں معلوم کہ اصل صورت حال کیا ہے؟ پشتون کون ہیں؟ طالبان کون ہے؟ پشتون کتنے طالبان کے حامی ہیں اور طالبان کتنے پشتونوں کے خیرخواہ ہیں؟ دور جانے کی بات ہی نہیں اگر بات ادھر سے ہی شروع کی جائے جب طالبان کے لئے امریکہ اور عالمی طاقتوں نے قطر میں دفتر کھولا، اور بظاہر مذاکرات اور درپردہ افغان حکومت کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا اور بالآخر افغان حکومت سے اکیلے میں ان سے مذاکرات کیے اور بین الافغان مذاکرات کو کبھی ایک اور کبھی دوسرے بہانے یا طریقے سے روکتے رہے اور بالخصوص افغان حکومت اور افغان عوام کی لاکھوں کوششوں اور حد درجہ خواہش کے باوجود تصفیہ ہونے نہیں دیا اور خود طالبان کہتے تھے کہ ہم افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے سرے سے تیار ہی نہیں تو امریکہ بشمول نیٹو، افغان عوام یا افغانی نمائندوں اور طالبان میں فرق کو نہیں سمجھ رہے تھے وہ اس خطے کی تاریخ سے اتنے نابلد اور نا آشنا تھے کہ اب وہ ہمارے سمجھانے کے لئے رہ گئے ہیں اور ہماری رائے پر امنا و صدقنا کہیں گے پشتونوں کی زیادہ تر تاریخ تو لکھی انگریزوں نے ہیں سر اولف کیرو کی کتاب دی پٹھان کو صرف پڑھنے سے پشتون آئیڈیولوجی سمجھ میں آجاتی ہے خوشحال خان خٹک کی شاعری اور پشتو ٹپہ کو انگریزوں نے ترجمہ ہی اس لئے کیے تھے کہ ان کو پشتون آئیڈیالوجی سمجھ آ جائے۔

اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو دنیا کا کسی ایک قوم کے ماننے اور جاننے کے لئے ان کے شعار سے تعلق ہوتا ہے اور وہی قوم ان شعار سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ کیا طالبان نے اب تک کسی پشتون شعار کو بطور قوم اپنایا ہے؟ انھوں نے خود کو پشتون مانا ہے؟ ان کے نزدیک قومی شعار دینی شعار کے معاملے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ امارت اور شریعت ان کے نزد قوم سے مقدم ہے جبکہ دنیا کی سیاست کے دلدادہ و دلنواز اور دنیا کے دانشور اور مفکرین تو یہ جانتے اور مانتے ہیں کہ بظاہر تو سعودی عرب بھی ایک با شرعا سلطنت ہے ان کا شعار یعنی جھنڈا بھی اسلامی ہے لیکن عرب نیشنلزم کو پس پشت نہیں ڈالتے بلکہ اپنی پشت یا بیک کے لئے عرب نیشنلزم ہی کو انھوں نے اب تک بروئے کار لایا ہے۔

ایران میں بھی ایک اسلامی اہل تشیع حکومت کئی برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ لیکن ایران، ایرانی شعار اور قومیت کو لے کر دنیا کے ساتھ چل رہا ہوتا ہے بلکہ فارسی کے علاوہ دوسری زبان میں بات تک نہیں کرتے، ایرانی سپیکر کا ہماری پارلیمنٹ کو فارسی میں خطاب ریکارڈ پر ہیں جس کے سننے کے لئے محدود چند قومی اسمبلی کے ممبران جس میں اس وقت کے اجمل خٹک بھی شامل تھے کے علاوہ نے مائیک استعمال نہیں کیے بقیہ سب نے مائیک کا بھرپور استعمال کیا۔

ترکی نے دنیا کی نصف حصے سے زیادہ پر کئی سو سال تک خلافت چلائی لیکن ترک شناخت، شعار اور قومیت پر آنچ آنے نہیں دیا۔ مصر میں اخوان المسلمین آئے لیکن مصر کے بنیادی شعار، شناخت اور قومیت کو انٹیکٹ رکھا۔ دنیا میں جتنے اسلامی ممالک اس وقت اقوام متحدہ کے ممبر ہیں سب اپنی اپنی شعار، شناخت اور قومی حمیت کے ساتھ موجود ہیں۔ میرے محدود معلومات یا ہاتھ تنگ مطالعے کے مطابق پشتو واحد زبان ہے جو صرف بولی نہیں جاتی بلکہ کی بھی جاتی ہے یعنی عملی بھی ایپلیکیبل ہے۔

پشتو صرف زبان ہی نہیں بلکہ پشتون ولی ایک کوڈ آف لائف ہے۔ پشتو بولنے سے پورا نہیں ہوتا بلکہ کرنے سے عملی ہوتا ہے۔ بہت معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب اکثر فلم سٹار میرا کی طرح کچھ ایسا بول لیتے ہیں کہ پھر کئی دنوں تک خبروں میں ان رہتے ہیں مثلاً ایک بار بولا جرمنی اور جاپان کی سرحدیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں، پھر یہ سرحدیں میڈیا میں کئی دنوں تک ویسے کہ ویسے جڑی رہی۔ پھر ایک بار بولا حقانی پشتون قبیلہ ہے اور گوری صحافی کو یہ باور کرا رہے تھے کہ آپ نہیں جانتی ہیں یہ میرا انکشاف، بلکہ تاریخی ترمیم ہے جو اپنی تہیں بغیر کسی ٹیبل کرنے، بحث مباحثے کے پاس کیے جا رہا ہوں۔ اور اب یہ کہہ گئے کہ طالبان کو پشتونوں کی آئیڈیالوجی یا ان کو پشتون قومی پشت پناہی حاصل ہے اور میڈیا میں آئے دن موضوع بحث رہتے ہیں۔

میرے خیال میں ایک دن ایسا آئے گا کہ لوگ عمران خان کے بیانات کو سنجیدہ ہی نہیں لیں گے اور اس پر تبصرہ کرنے سے از خود سنسرشپ کے متقاضی ہو جائیں گے، جیسا کہ ایک گاؤں میں ایک خاتون آئے دن کسی پر الزام لگاتی رہتی تھی اور اس کے تصفیے کے لئے پنچایت بیٹھ جایا کرتی تھی لیکن خاتون کے الزامات در الزامات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے تھے روز کسی بندے پر نیا الزام لگا کر پنچایت بٹھا دیتی تھی لیکن ایک دن ایسا بھی آیا کہ اس خاتون کے ایک الزام کے تصفیے کے دوران پنچایت نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ آج کے بعد بلو کا ہتک یا الزام ہتک یا الزام نہیں گردانا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments