پیسا ٹاور


روم سے پیسا تک ساڑھے تین سو کلو میٹر کا سفر ہم نے ٹرین پر تقریباً تین گھنٹوں میں طے کیا۔ یہاں کا ریلوے کا نظام اتنا اچھا ہے کہ رشک آتا ہے۔ تیز رفتار اور سہولیات سے مزین آرام دہ گاڑیاں ہر وقت عوام کو تیار ملتی ہیں۔ پیسا کے لئے تقریباً ہر آدھے گھنٹے بعد روم سے گاڑی روانہ ہوتی ہے۔ ریل کا سفر تو ویسے ہی آرام دہ اور خوشگوار ہوتا ہے جب کہ راستے کے مناظر نے سفر کو دلکش بنا دیا۔ سفر کا کچھ حصہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں سے گزرتا تھا اور ہماری بائیں جانب سمندر کا نیلا پانی مناظر کی چوکھٹ میں ایک خوبصورت اضافہ تھا۔ نہ تو سفر میں تکان محسوس ہوئی اور نہ ہی وقت گزرنے کا احساس کہ ہم منزل پر پہنچ گئے۔

پیسا ایک پر سکون چھوٹا سا شہر ہے جس کے درمیان دریائے آرنو بہتا ہے۔ اس شہر کی وجہ شہرت یہاں کا ٹاور ہے جو اگر نہ ہوتا تو یقیناً پیسا کو لوگ نہ جانتے۔

میں نے اس کے بارہ میں پہلی دفعہ تب جانا جب بچپن میں اخبار کے بچوں کے صفحہ پر پیسا ٹاور پر ایک مختصر سا مضمون پڑھا۔ اگر چہ اس بارہ میں بعد میں مزید معلومات بھی حاصل ہوئیں مگر ٹاور دیکھنے کی خواہش بچپن سے ہی تھی۔

شہر کی سڑکیں تو اتنی بارونق نہ تھیں مگر ٹاور کی حدود میں پہنچتے ہی کافی تعداد میں لوگ نظر آئے۔ سڑک سے ٹاور تک کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ سو میٹر ہو گا جو ٹریک کی شکل میں ٹاور تک جاتا ہے۔ ابتدائی راستہ کی دائیں جانب عارضی قسم کے سٹالز پر مقامی تیار کردہ سووینئرز برائے فروخت نظر آئے اور بائیں جانب کیتھیڈرل سکوائر جو کہ وسیع لان ہے جس کے انتہائی بائیں اندر کی طرف کیتھیڈرل اور بیپٹسٹری دور سے نظر آتے ہیں۔ ٹاور کا جھکاؤ اتنا ہے کہ دور سے ہی واضح دکھتا ہے۔

ٹاور کے نزدیک کافی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ میرے ذہن میں ٹاور کا جو تصور تھا دیکھنے پر اس سے مختلف لگا۔ پیسا ٹاور کی تعمیر بارہویں صدی میں شروع ہوئی اور چودھویں صدی میں مکمل ہوئی۔ ایک سو تراسی فٹ اونچائی کے سلنڈر نما ٹاور کی سات منزلیں ہیں۔ نیچے کی منزل کے علاوہ سب پر خوبصورت محرابیں بنی ہوئی ہیں۔ تعمیر میں سنگ مرمر استعمال کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کیتھیڈرل کا گھنٹیوں والا ٹاور ( بیل ٹاور) ہے۔

کسی چیز کی بناوٹ میں کجی رہ جائے تو وہ دل سے اتر جاتی ہے اور مسترد کر دی جاتی ہے لیکن پیسا ٹاور میں جو نقص پیدا ہوا وہ نہ صرف اس کی مقبولیت کا سبب بنا بلکہ اسے شہرت دوام دے گیا۔ ٹاور کی تعمیر کے دوران ہی ایک طرف جھکاؤ پیدا ہو گیا تھا اور تعمیر مکمل ہونے کے بعد انتہائی سست رفتاری کے ساتھ جھکاؤ بڑھتا گیا۔ بیسویں صدی کے آخر میں جھکاؤ اتنا بڑھ گیا کہ ماہرین نے خطرناک قرار دے دیا اور اس کے جھکاؤ کو روکنے کی تدابیر کی جانے لگیں۔

جب ہم وہاں گئے تو اس وقت ٹاور کے جھکاؤ کے سدھار کے لئے کام شروع ہو چکا تھا۔ سب سے پہلے تو عوام کے اوپر جانے پر پابندی لگا دی گئی تھی اس لئے تمام سیاح ٹاور کے نزدیک کھڑے باہر سے ہی دیکھ رہے تھے۔ ہم بھی وہیں کھڑے رہے اور ٹاور پر ہونے والے کام کا بھی جائزہ لیا۔ اس پروجیکٹ پر تین زاویوں سے کام ہو رہا تھا۔ اولا جھکاؤ کی مخالف سمت میں زمین پر سیسے کی بہت وزنی پلیٹس رکھ دی گئیں، دوئم ٹاور کے تیسرے لیول کے گرد کیبلز باندھ کر کافی دور لے جا کر اینکر کر دیا گیا اور سوئم یہ کہ جھکاؤ کی مخالف سمت بنیاد کے نیچے سے مٹی ہٹا کر کھوکھلا کر کے چھوڑ دیا گیا۔ اس کے علاوہ ٹاور کے اوپر بیل چیمبر میں سے تمام گھنٹیاں اتار لی گئیں جن کا وزن کئی ٹن تھا۔ اس سارے عمل کے علاوہ ٹاور عوام کے لئے بند کر دیا گیا۔

ہم نے ٹاور کے بیس پر رکھی گئی سیسہ کی پلیٹس اور ٹاور کو مخالف سمت سے کھینچتے ہوئے کیبلز کو دیکھا تو حیرت ہوئی کہ اس سے کیا ہونے والا ہے۔ مگر دس برس کی لگا تار محنت کے بعد ماہرین نے خوش خبری دی کہ ٹاور کا جھکاؤ 1.8 ڈگری کم ہو گیا ہے یعنی 5.5 سے کم ہو کر 3.97 ڈگری رہ گیا اور یہ کہ ٹاور اگلے دو سو برس کے لئے محفوظ ہے۔ دس برس بند رہنے کے بعد 2001 میں ٹاور عوام کے لئے دوبارہ کھول دیا گیا۔

ٹاور کے ساتھ خوبصورت کیتھیڈرل بنا ہوا ہے جس کے اندر ایک نمائش کا اہتمام تھا۔ کیتھیڈرل اندر سے بہت خوبصورت تھا۔ دیواروں پر خوبصورت پینٹنگز بنائی گئی تھیں۔ سنگ مرمر کے ستون اور خوبصورت چھت عمارت کی لمبائی کے رخ ایک دلکش منظر پیش کر رہے تھے۔

ہم یہاں سے نکلے تو سورج کی الوداعی کرنیں معدوم ہوتی جا رہی تھیں۔ سیدھا ریلوے سٹیشن پہنچے اور اگلے سفر پر روانہ ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments