زمینوں کو گلے لگانے والے لوگ


ہم پاکستانی بھی بڑے عجیب و غریب لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں انسان سے زیادہ اہمیت زمین کو دی جاتی ہے۔ کچہری میں رل کر اپنی زندگی تباہ کر لیں گے مگر زمین کا وہ ٹوٹا نہیں چھوڑے گے جو ان کے ابا جان مرتے وقت کہہ گئے تھے کہ جو مرضی ہو جائے اس ٹوٹے کو کچھ نہیں ہونے دینا یا پھر ان کے دادا کے دادا جان کہہ گئے تھے کہ یہ جگہ ہر صورت بچا کر رکھنی ہے۔ اکثر برادریوں کو دیکھا ہے کہ دن رات محنت کر کے پیسا کماتے ہیں اور ہر سوموار کی سوموار کو وہ سارے پیسے وکیل صاحب کی تلی پر رکھ دیتے ہیں۔

وکیل صاحب آگے کمیٹی ڈال لیتے ہیں۔ جب تک ان کی پندرہ لاکھ والی جگہ کا فیصلہ ہوتا ہے تب تک وکیل صاحب بیس لاکھ روپے کا پلاٹ لے چکے ہوتے ہیں۔ اوپر سے جو کھجل ہوتے ہیں وہ الگ۔ یہ نہیں کریں گے کہ دونوں پارٹیاں آمنے سامنے بیٹھ کر اس متنازعہ جگہ کی کوئی درمیانی صورت نکال لیں۔ نہ جی نہ ہمیں اگلے بندے کو کچہری کھجل کرنے کا شوق جو ہوتا ہے۔ جب تک اگلے کو کھجل نہ کر لیں دل کو سکون کہاں آنے والا ہے۔ لیکن ساتھ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کچہری میں کسی کو کھجل کرنے کے لیے خود دوہرا کھجل ہونا پڑتا ہے۔ یہ لوگ خود تقدیر سے کہہ کر اپنی قسمت میں کھجل ہونا لکھواتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ متنازعہ جگہ کا درمیان میں کوئی وڈیرا ڈال کر معاملے کو وہی رفع دفع کر دینا چاہیے۔ اگر پھر بھی کوئی راہ نہیں نکلتی اور جگہ بھی کروڑوں کی ہو تو بھئی پھر کچہریوں کا رخ کیا جا سکتا ہے۔ لاکھوں لگا کر کروڑوں بچانا سمجھ میں آتا ہے۔ دو ٹکے کی جگہ کے لیے دربدر کھجل ہونے سے بہتر ہے کہ بندہ دوسری پارٹی کو کہہ دیں کہ تسی جگہ رکھو کول، اسی تے ایں چلے آں۔

پھر دیکھا ہے ان پرانے لوگوں کو جنہوں نے وہ زمینیں سنبھال کر رکھی ہے جو کسی کام کی نہیں ہوتیں۔ نہ ہی ان زمینوں کا کوئی رستہ ہوتا ہے اور نہ مستقبل میں یہاں پر کچھ بنانے کا پلان۔ مگر وہی جگہ کسی دوسری کے کام آ سکتی ہے جو کچھ بنانا چاہتا ہے اور اس کے پاس زمین کا رستہ بھی ہوتا ہے۔ اگر وہ لینے کو تیار ہو جاتا ہے تو بھئی دیر کس بات کی، بیچ کر عیاشی کرو۔ مگر وہ کیوں بیچیں گے بھئی؟ انھیں تو بس یہ زندگی مشکل سے مشکل تر کر کے جو گزارنی ہے۔ خود اچار سے روٹی کھا لیں گے مگر فالتو زمینیں نہیں بیچیں گے۔ پوچھنے پر بتایا جائے گا کہ باپ دادا کی جائیداد کو کوئی بیچتا ہے بھلا۔ بھئی جب انسان ہی نہیں رہنا تو ان زمینوں کا اچار ڈالنا ہے۔

اگر انسان کوئی پراپرٹی ڈیلر شیلر ہے تو زمین کو سنبھال کر رکھنا سمجھ میں آتا ہے کہ وہ ان پر بزنس کرے گا۔ مگر ایک عام انسان کے لئے اس کی رہائش گاہ کے علاوہ بس اس کی دکان اپنی ہونی چاہیے اگر تو وہ کوئی دکانداری کا کام کرتا ہے یا پھر ہر مہینے اس سے دکان سے کرایہ آتا ہے۔ مگر بغیر کسی وجہ کے اتنی زمینیں ہولڈ کر کے رکھنا اور خاص طور پر وہ زمینیں جو ان فیوچر کام بھی نہیں آنے والی تو وہ رکھ کر کیا کرو گے بھئی۔ ہم مفلسی میں مر جاتے ہیں مگر زمینوں کو ساری عمر گلے لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔

پھر گاؤں میں لوگ زمین اس وجہ سے نہیں بیچتے کہ گاؤں والے کہیں گے کہ ”ہاں بھئی انھوں نے اپنی باپ دادا کی زمین بیچ دی یا پھر کہ کیا مجبوری آن پڑی کہ اپنی زمین بیچنی پڑی؟“ ۔ اگر کوئی ضرورت پڑنے پر فالتو زمین بیچ بھی دیتا ہے تو اگلے ہی دن لوگ آ کر کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ”زمینیں روز روز نہیں بنتیں بھائی“ ۔ اگر کوئی اپنے حالات کو بہتر کرنے کے لیے زمین کا وہ ٹوٹا بیچ دیتا ہے جو ان فیوچر کسی کام نہیں آنے والا تھا تو بھئی تمھیں تکلیف کیونکر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان پیسوں سے انھوں نے زندگی کو کتنا انجوائے کیا ہو، ان کی حالات پلٹ گئے ہو۔

لوگ ساری عمر زمینوں کو اس غرض سے گلے لگائے رکھتے ہیں کہ کل کو ان کی بڑی ویلیو ہوگی مگر اپنی ڈھلتی عمر کو بھول جاتے ہیں۔ اگر ان زمینوں کی ویلیو ہے تو بھئی آپ کی زندگی کی بھی ویلیو ہے۔ جہاں کل کو آپ زمین کو کیش کرنے کا سوچ رہے ہو تو زندگی کو بھی کیش کرنا سیکھو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments