جبری تبدیلی مذہب کے روک تھام بل کو اسلام مخالف نہ بنایا جائے


پاکستان میں اقلیتیں آ زاد ہیں، برابر کی شہری ہیں، محفوظ ہیں وگرنہ جو حشر اقلیتوں کا ہمارے ہمسائے ملک میں ہے یہاں کی اقلیتیں تصور بھی نہیں کر سکتی۔ ہم اقلیتیں جب بھی اپنے مسائل کی بات کریں یہ تین چار نظریے عام آ دمی سے لے کر طاقت کے اعلیٰ ایوانوں تک ہر شخص کے منہ سے سننے کو ملتے ہیں۔ وفاقی وزیر صاحب فرماتے ہیں کہ اقلیتوں کے حقوق کی قانون سازی کرنا وزارت مذہبی امور کا کام ہے، بجا فرمایا مگر کیا مذہبی امور میں کبھی غیر مسلموں کو نمائندگی بھی دی گئی؟

کمال دیکھیے موصوف نے حالیہ جبری تبدیلی مذہب کے روک تھام بل 2021 کے ڈرافٹ کی تیاری کے مراحل میں ساری کارروائی میں حصہ لیا اور مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کا بھی حصہ تھے۔ اور جب مسودہ تیار ہو کر اسمبلی فلور پر آ نے لگا تو ایک پل میں بل کے سب سے بڑے مخالف ہو گئے۔ اپنے آپ کو سچا مسلمان ثابت کرنے کے لئے بل پر رائے لینے کے اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام ایک نشست کا اہتمام کیا اور نشست میں مہمان خصوصی بھی بلایا تو کس کو؟ میاں میٹھا صاحب کو۔ پریس کانفرنس میں موصوف فرماتے ہیں کہ ہم پر الزامات لگانے والوں کو ہم معاف کرتے ہیں مگر اللہ معاف کرتا ہے کہ نہیں یہ نہیں معلوم؟ وزیر صاحب اور ایک بات عیاں ہے کہ اللہ شاید الزامات لگانے والوں کو معاف کر دے پر منافق کو اللہ ہر گز معاف نہ کرے گا۔

حالانکہ جبر تبدیلی مذہب کی روک تھام بل 2021 کا مسودہ سارا کا سارا مسلمانوں نے تیار کیا ہے اور آج اس بل کو اسلام مخالف قرار دیا جا رہا ہے تو سوال یہ ہے کیا جنہوں نے بل بنایا وہ لوگ بھی اسلام مخالف ہیں؟ کیا جن کے تحفظ کے لیے بنا یا گیا وہ بھی اسلام مخالف ہیں؟ اور ریاست پاکستان کے جو باشندے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے آئینی حقوق کا تقاضا حکومتی نمائندوں سے کریں یا علمائے دین سے؟

تبدیلی مذہب کی روک تھام کا بل اس بات کی تو تصدیق کرتا ہے کہ ریاست پاکستان میں اقلیتوں کی بچیوں کے ساتھ یہ مسئلہ پایا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی حکومتی نمائندے اپنے موقف پر بضد ہیں کہ سوائے سندھ کے ایک دو اضلاع کے پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کا وجود ہی نہیں ہے۔ اس ضمن میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق نے سینٹر عثمان کاکڑ کی سربراہی میں اور ان کی شہادت کے دکھ کے باوجود بڑی محنت سے بل کا مسودہ تیا ر کیا اور مسودہ وفاقی انسانی حقوق کی وزارت کو بھیج دیا گیا، تاکہ اس بل کو اسمبلی میں پیش کیا جا سکے مگر مسودہ بننے کی دیر تھی مسودے کی مخالفت شروع کر دی گئی اور معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے اب یہ بل بھی مسترد ہوتا نظر آ رہا ہے۔

محترم وزیر اعظم صاحب فرماتے ہیں کہ اسلام مخالف قانون سازی کی اجازت نہیں دی جائے گی، جناب آپ صاحب اختیار ہیں جو مرضی کر سکتے ہیں مگر جناب یاد رکھیں کہ آپ اختیار کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں اور آپ محترم صرف علماء کے وزیر اعظم نہیں ہیں بلکہ ریاست کے تمام شہریوں کے وزیر اعظم ہیں اور کم ازکم اتنا تردد کر لیں کہ پتہ کر لیں کہ اس بل میں اسلام مخالف کیا ہے۔ اقلیتوں کی بچیوں کے تحفظ سے زیادہ شاید کم سن بچیوں سے شادیاں اور مذہب تبدیلی کی حفاظتی باڑ زیادہ اسلام مخالف ہو مگر حقائق جاننے کا تردد کرے کون۔

اقلیتوں کے بچیوں خصوصاً کم سن بچیوں سے شادیاں اور ان کی مذہب تبدیلی کو روکنا، شادی کی عمر کم ازکم 18 سال کرنا اگر حکومت کے نزدیک اسلام مخالف قانون سازی ہے تو پھر حکومتی بیانیے پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر اقلیتوں کے تحفظ کے اس بل کو اسلام مخالف ثابت کر کے کر کھٹائی میں ڈال رہی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے میاں میٹھا صاحب سے سفارشات لے کر وزارت مذہبی امور کے حوالے کر دی ہیں۔

جبکہ وزارت مذہبی امور نے پہلے پہل اس بل کو مسترد کر دیا۔ اب کہہ رہے ہیں کہ کچھ شقوں پر اعتراض ہے۔ ویسے تو موجودہ ایوان زیریں اور ایوان بالا پہلے ہی اقلیتوں کے حقوق اور جبری تبدیلی مذہب کے تین بل مسترد کر چکا ہے اور اب اس بل کو جو کہ خالصتاً انسانی حقوق کی بنا پر مرتب کیا گیا ہے کو مذہب مخالف بنا کر متنازعہ کیا جا رہا ہے تاکہ اس بل کو روکا جا سکے۔ جناب وزیر اعظم صاحب آپ دنیا کو مشورے دیتے ہیں کہ اسلاموفوبیا پر دنیا مکالمے کو فروغ دے تو کیا مکالمہ اپنے ملک کے لوگوں کے مسائل پر نہیں کیا جا سکتا۔ جب ساری دنیا میں کم عمری کی شادیوں اور مذہب تبدیلی پر ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے تو کیوں آپ ایسے مجرموں کو ریاستی تحفظ فراہم کر کے ریاستی جبر کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ خدارا ہم اور ہمارے مسائل بھی آپ کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو نظرانداز مت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments