ہم لکھاری دنیا کو کیا دے رہے ہیں؟


پنجم (ففتھ) کے سالانہ امتحان سے فراغت کے بعد ، گھر میں رکھی ایک پرانی کتاب پڑھی،
جس کا عنوان تھا ”قیامت کب آئے گی؟“ اور سب ٹائٹل تھا ”قیامت کی ہولناکیاں“ ”
پڑھ کر دل و دماغ بڑے عجیب خوف سے بھر گیا۔

قیامت آئے گی۔ سب مر جائیں گے۔ اچھے بھی۔ برے بھی۔ لیکن ان کے درمیان انفرادیت بھی تو ہوگی کوئی؟ نہیں؟ سب مریں گے۔ ٹھیک ہو گیا۔ لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ ایک شخص نے اتنی ثقیل قسم کی کتاب محض لوگوں کے دلوں میں خوف بھرنے کو لکھی تھی؟ ان ہولناکیوں کو بتانے کا کیا مقصد ہو سکتا تھا؟ اصلاح؟ یا ایمانیات؟ لیکن اس میں تو جزا کا ذکر ہی نہیں تھا۔

میں مصنف کو نہیں جانتی۔

بڑے دنوں تک میں اس شاک سے نہیں نکل سکی تھی۔ کیا بھئی۔ یہ تو غلط بات ہے۔ ایک بندہ خود پہ جبر کر کے اچھائی کرے اور وہ اسی سلوک کا مستحق قرار پائے جو برے کے ساتھ کیا جائے گا۔

اگر مقصد ایمانیات تھا۔ تو میرا خیال تھا کہ خدا نے ان موضوعات کو بہت عمدگی سے بیان کر چھوڑا ہے۔

کتاب پڑھ کر میرے دماغ پر یہی تاثر پھیلا کہ دنیا اچھی جگہ نہیں ہے۔ خدا اچھا نہیں ہے۔ یا اگر ہے تو مصنف نے اسے اچھا بتانے میں کہیں ڈنڈی ماری ہے۔ (اب اگر کوئی کہے کہ خدا نے بھی تو ایسی ہی ہولناکیوں کا ذکر قرآن میں کیا ہے۔ تو میں اسے ضرور کہوں گی کہ ایک بار وہ خدائی حسن کلام سے دوبارہ مستفید ہولے۔

اس کی چھوٹی سی مثال لیجیے۔ کہ قرآن میں ایک جگہ نزع کی تکلیف کا ذکر ہے اور اس ذکر کے اختتام پر ایک سطر (آیت) کچھ اس طرح سے ہے۔

”یہ تو میرے رب سے ملاقات کا وقت ہے“ یہ امید ہے، آس ہے۔ اس تکلیف دہ عمل کو مقصد دیتی ہے۔
لیکن میرا موضوع قرآن نہیں، کتاب ہے۔ لکھنے کا انداز ہے۔ سوچ ہے۔ )

اس سب کا حاصل کیا ہو گا؟ کیا اس طرح کا مائنڈ سیٹ ہمارے اندر اس چھوٹے سے خطہ زمین پر مزید عدم تحفظ پیدا نہیں کرے گا؟

انہی دنوں ایک اور کتاب نظر سے گزری۔ معذرت کے ساتھ وہ ایک غیر مسلم کی کتاب تھی، کوئی افسانوی یا سٹوری ٹائپ بک نہیں تھی۔ ایک عام سی، چھوٹے چھوٹے عنوانات پر مشتمل کتاب تھی۔

جس کا عنوان تھا
”7 Habits Of Highly Effective Teens“
اسی طرح ایک اور کتاب
”Uplifting Service“

ایک عملی زندگی پر، بری عادتوں کو اچھی عادتوں میں بدلنے کی بات تھی۔ ان کتابوں میں ان چیزوں کو موضوع بنایا گیا تھا جو روزمرہ زندگی میں کسی کو درپیش ہوتی ہیں۔

میں کتاب کے مصنف کو نہیں جانتی۔
لیکن ان کتابوں نے میرے دل و دماغ کو امید کی روشنیوں سے بھر دیا۔

ایک شخص جلدی نہیں اٹھ سکتا تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ ایک شخص اپنی ناکامی کو سر پر اٹھائے پھر رہا ہے اسے اس ناکامی سے کس طرح نمٹنا چاہیے۔ ایک شخص جو خود کو بے مصرف شے سمجھتا ہے۔ اس پر ناکامی کا خوف اور کسمپرسی اور بدحالی مسلط ہے وہ اس دنیا میں اپنے لئے مقاصد چننا اور انہیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسے اس سب کے لئے اسے کیا کرنا چاہیے؟ میرے خیال سے ہماری دنیا کے آج کے موضوعات یہ ہیں۔ اگر ہمارا آج اچھا نہیں ہے تو ہم کس طرح اپنے کل کی برائی سے نمٹ سکتے ہیں؟

اگر یہ بات کہ ”ہم جو سوچتے ہیں وہی بنتے ہیں“ سچ ہے تو سوچیں جب ہم خوف و دہشت ہی کو سوچیں گے تو کیا بنیں گے؟

کیا قیامت کے بپا ہونے یا نہ ہونے پر ہمارا اختیار ہے؟ کیا ہم موت کے وقت میں رد و بدل پر قادر ہیں؟ نہیں ناں؟

لیکن ہمارے اچھا یا برا ہونے پر ہمارا اختیار ضرور ہے۔ ہماری زندگی کے بامقصد و بے مقصد ہونے میں ہمارا اپنا کردار و اختیار ضرور ہے۔ مجھے لگتا ہے ہمیں انھی چیزوں کو موضوع بنانا چاہیے۔ جو ہمارے کام کی ہیں۔ اور جو ہمارا آج بدل سکتی ہیں۔

ہماری زندگی کا مقصد مرنا نہیں ہے، جینا ہے۔ کبھی کبھار جب ایسے موضوعات پر بڑی سیر حاصل گفتگو ہو رہی ہو تو مجھے کسی کی کہی بات یاد آتی ہے۔

”اگر تمہیں لگتا ہے؟ کہ مرجانے میں زیادہ بھلائی ہے؟ یا مرنے کے بعد کی دنیا اب کی دنیا سے زیادہ اچھی ہے۔ تو میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ تم ابھی مر جاؤ۔ اور مجھے جینے دو“

اب حال یہ ہے کہ ان کتابوں اور خدائی اسلوب کو دیکھ کر مجھے اپنی ہی کچھ تحریریں معیوب لگنے لگی ہیں۔ کچھ تحریروں کو پڑھ کر سوچتی ہوں۔ کہ ہم لکھاری دنیا کو کیا دے رہے ہیں؟

خوف؟ مایوسی؟ دہشت؟
نوٹ:حافظ صفوان صاحب سے کی گئی ایک گفتگو کا خلاصہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments