چائے پئیں گے؟ جی ضرور! (حصہ دوئم)


ایک انفرادیت کے حامل معاشرے کا ایک اجتماعیت کے حامل معاشرے سے مختلف ہونے میں سب سے اہم کردار فرد کی تربیت کا ہے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ بچپن میں جب کبھی میں بھاگتا دوڑتا فرش پہ گر کے رونے لگتا تو امی یہ کہہ کے میری توجہ دوسری طرف مبذول کرواتیں کہ وہ دیکھو بیچاری چیونٹی اپنے بچوں کے لیے آٹا لے جا رہی تھی، اس کا آٹا گر گیا ہے۔ اور میں اپنی تکلیف بھول کر چیونٹی کے غم میں غلطاں ہونے لگتا تھا۔ ایک اجتماعی معاشرے میں تربیت کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ آپ دوسروں کے ساتھ جڑے رہیں۔

اس جڑنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں، آپ نظریاتی طور پہ کسی جماعت سے جڑ سکتے ہیں یا پھر ان کے لیے خوراک کا بندوبست کر کے۔ یعنی آپ کی ذات پہ زیادہ زور نہیں ڈالا جاتا بلکہ ہر بات یہ کہہ کر سمجھائی جاتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ یا پھر یہ دیکھو کہ تمہارے اس فعل سے خاندان کی عزت پہ داغ لگ جائے گا۔ ماں باپ اپنے بچوں کو پڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے بار بار یہ کہتے ہیں کہ ”لوگ تمہاری عزت کریں گے“ ۔

اس طرح کی تربیت سے ایک ایسی ذات تشکیل پاتی ہے جو دراصل مختلف سماجی اور معاشرتی کرداروں اور ذمہ داریوں کا مرقع ہوتی ہے۔ جبکہ اس کے بالکل برعکس ایک انفرادیت کا حامل معاشرہ فرد کو یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنی منفرد اور مختلف ذات کو قائم رکھے اور اسے معاشرے کی اجتماعیت کے لیے پامال نہ کرے۔

ایک اجتماعی معاشرے میں منافقت کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ انسانی ذات مختلف کرداروں اور رشتہ داریوں کے لیے مختلف طرز پہ ڈھالی جاتی ہے۔ لہٰذا ایک اجتماعی معاشرے میں آپ لوگوں کے رویوں کو مختلف حالات میں بدلتے دیکھیں گے۔ کیونکہ انہیں صورتحال کے موافق بنانا نہایت ضروری ہوتا ہے۔

ایک اجتماعی معاشرے میں انسان کی پہچان اس بات سے ہوتی ہے کہ اس کا دوسروں کے ساتھ رویہ کیسا ہے؟ وہ معاشرے کے قائم کردہ اصولوں کی کس حد تک پاسداری کرتا ہے؟ اس طرح فرد مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ سبھی کے ساتھ اچھے تعلقات استوار رکھے اور معاشرتی روایات کی بھی پیروی کرے چاہے وہ روایات کتنی ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہوں، اس کے برعکس ایک انفرادیت کے حامل معاشرے میں ایک فرد کی پہچان اس کے خیالات، اس کے احساسات اور اس کی ذاتی خصوصیات سے ہوتی ہے۔ وہ کسی قسم کے سماجی دباؤ کا شکار نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے فکر ہوتی ہے کہ ”لوگ کیا کہیں گے؟“

ایک اجتماعی معاشرے میں یہ نہایت ضروری ہے کہ آپ لوگوں کے دماغ پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں کیونکہ ہر شخص شائستگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرے گا جبکہ اس کا اصل کچھ اور ہو گا۔ لوگ چھپے لفظوں میں باتیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ آپ کو بار بار کہا جائے گا کہ کھانا کھا کر جائیں اور آپ بار بار انکار کریں گے کہ آپ کو بالکل بھی بھوک نہیں ہے حالانکہ دعوت دینے والا آپ کو دعوت دینا نہیں چاہ رہا ہوتا (اور یہ آپ بھی جانتے ہیں ) اور آپ کا بے تحاشا دل کر رہا ہوتا ہے کھانا کھانے کا لیکن آپ پیٹ بھرے ہونے کا بہانا کر رہے ہوتے ہیں چاہے دوپہر سے بھوکے ہوں۔

تین سال یورپ میں رہنے کے بعد کافی بدلاؤ آ چکا ہے۔ پہلے سال کی بات ہے کہ ہم لوگ ایک کیمپ میں تین دن گزارنے گئے۔ یہ شہر سے کچھ ہٹ کر تھا اور کھانے پینے کا انتظام یونیورسٹی نے ہی کر رکھا تھا۔ دوپہر کے کھانے میں میں اپنی ایک انگریز دوست کے ساتھ تھا۔ کیمپ کے دوران ہم پارٹنر بھی تھے۔ مجھے کھانا بالکل پسند نہ آیا اور میں نے ایک نوالہ بھی نہ لیا۔ میرے گمان میں تھا کہ شاید شام کے وقت مناسب کھانا دستیاب ہو گا اور میں سیر ہو جاؤں گا لیکن شام کے کھانے میں پورک ہونے کی وجہ سے میں پھر کچھ نہ کھا سکا۔

چونکہ ہم نے سارا دن ساتھ ہی گزارا تھا تو وہ جانتی تھی کہ میں نے آج ”انگریزی ناشتے“ کے علاوہ کچھ نہیں کھایا۔ رات اپنے کمرے میں جانے سے پہلے اس نے مجھے کہا کہ عزیر! تم نے سارا دن کچھ نہیں کھایا۔ میرے پاس کچھ کیلے پڑے ہیں وہ کھا لو۔ (محترمہ کا تعلق بلاشبہ ایک انفرادی معاشرے سے تھا جہاں لوگ آپ کو کھانے کی دعوت ایک بار ہی دیتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ انکار کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ واقعی انکار کر رہے ہیں کیونکہ وہ بھی آپ کو حقیقتاً دعوت دے رہے ہوتے ہیں نہ کہ مروتاً) ۔ میں نے مشرقی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے تکلفاً انکار کیا (یہ سوچ کر کہ یہ دوسری دفعہ کہے گی تو دعوت قبول کر لوں گا) اور وہ ”اوکے“ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments