امریکہ میں ہمارے خلاف پکائی جانے والی کھچڑی


بدھ کی شام عمران حکومت نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہوا قومی اسمبلی کے نام سے جو ادارہ ہے وہ مکمل طور پر اس کے قابو میں ہے۔ یہ سوچ بچگانہ خوش فہمی تھی کہ حکومتی نشستوں پر بیٹھے اراکین اسمبلی اپنی حکومت سے خوش نہیں۔ اسی باعث جب سے چوتھے پارلیمانی سال کا پہلا اجلاس شروع ہوا ہے ہر روز کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے دن کے لئے مؤخر کرنا پڑتا ہے۔ کورم مکمل نہ ہونے کی وجہ سے حکومتی رٹ کے موثر نہ ہونے کا جو پیغام جا رہا تھا اسے رد کرنے کے لئے پیر کی سہ پہر سے چند اقدامات کا آغاز ہوا۔ ٹلیاں کھڑکیں اور حکومتی اراکین کی بے پناہ اکثریت بھیڑوں کی طرح سرجھکائے قومی اسمبلی کے ایوان میں لوٹ آئی۔ کھونٹے سے بندھے عاجزوں کی طرح انہوں نے دھڑا دھڑ ان قراردادوں کی منظوری کے لئے ”ہاں“ کی آوازیں بلند کیں جن کے لئے چند اہم ترین قوانین کو حتمی منظوری کے لئے اب پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے روبرو پیش کیا جائے گا۔

مذکورہ قوانین میں سے اہم ترین وہ قانون ہیں جن کے ذریعے غیر ملکوں میں مقیم پاکستانی اپنے گھروں یا دفتروں میں بیٹھے سمارٹ فون پر میسر ایپ کے استعمال کے ذریعے اپنی پسند کے امیدوار کی حمایت میں ووٹ ڈال سکیں گے۔ وطن عزیز میں کاغذ پر چھپے ناموں اور علامات پر مہریں لگانے کا فرسودہ نظام تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گا۔ اب پولنگ بوتھوں پر جدید ترین الیکٹرانک مشینیں لگائی جائیں گی۔ رائے دہندگان ان میں نصب بٹنوں کو دباکر اپنی پسند کا اظہار کردیں گے۔

بدھ کا اجلاس حکومتی نورتنوں نے اسی انداز میں بلوایا جو ماہرین جنگ دشمن کی صفوں میں گھات لگانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو حکومتی ارادوں کی تھوڑی شد بد بدھ کی صبح محسوس ہوئی۔ حکومتی وار کو ناکام بنانے میں اگر حزب مخالف واقعتاً سنجیدہ ہوتی تو 80 سے زیادہ اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل مسلم لیگ (نون) کے صدر جناب شہباز شریف موٹروے پر فراٹے بھرتے ہوئے اسلام آباد پہنچ جاتے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہوتے ہوئے وہ کئی گھنٹوں تک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ہوئے انتخاب کے بارے میں اپنے تحفظات کا تفصیل سے اظہار کر سکتے تھے۔ انہوں نے مگر لاہو ر میں بیٹھے ہوئے ہی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کو ترجیح دی۔ مقصد اس خطاب کا اگرچہ برطانیہ کے اس فیصلے کے بارے میں رب کا شکر ادا کرنا تھا جس کے تحت شہباز صاحب اور ان کے ہونہار فرزند سلمان شہباز کو منی لانڈرنگ کا مرتکب نہیں ٹھہرایا گیا۔ مذکورہ فیصلے کے بعد وہ خود کو بین الاقوامی صادق اور امین محسوس کر رہے ہیں۔ شادمانی کے عالم میں لہٰذا قومی اسمبلی کو بھول گئے۔

ویسے بھی وہ دل سے اس سوچ پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان جیسے ممالک میں قومی اسمبلی جیسے ادارے محض شوشہ ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد دنیا کو بتانا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری نظام قائم ہے جبکہ اصل قوت واختیار پارلیمان سے بہت دور کسی اور مقام تک محدود ہوچکے ہیں۔ اسی تنخواہ پر گزارہ کرنے کے وعدے ہی سے شہبازصاحب اپنی جماعت کو ایک بار پھر شوشہ والا اقتدار دلوا سکتے ہیں۔ لندن میں مقیم ان کے بڑے بھائی اگرچہ جی حضوری کو اب بھی آمادہ نہیں ہورہے۔ روزانہ کی بنیاد پر اپنے حامیوں کو ٹیلی فون پر ہوئے خطاب کے ذریعے ”ووٹ کو عزت دو“ والے بیانیے کی حمایت میں متحرک کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے برسرعام قتل کے بعد اپنی محدودات عرصہ ہوا دریافت کرچکی ہے۔ سندھ میں وہ ویسے بھی مسلسل تیسری بار حکومت میں ہے۔ اس کے نوجوان قائد بلاول بھٹو زرداری کے پاس جارحانہ سیاست میں لوٹنے کے لئے وافر وقت میسر ہے۔ آخری خبر آنے تک وہ دوبئی میں تھے۔ شنید ہے کہ وہاں سے امریکہ روانگی کے ارادے ہیں۔ اپنے قائدین کی عدم موجودگی میں اپوزیشن جماعتوں نے بدھ کے اجلاس کے دوران محض تاریخ کی خاطر چند کلمات ادا کیے ۔ بعد ازاں ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔ ان کے واک آؤٹ کے بعد حکومتی جماعت کو واک اوور بھی مل گیا۔ ”ہاں۔ ہاں“ کی گردان ہوئی اور عمران حکومت نہایت سرعت اور آسانی سے اپنے ہدف تک پہنچ گئی۔

جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی نیب اور شہزاد اکبر کی نگرانی میں چلائی ایف آئی اے کے ہاتھوں زخم خوردہ ہوئی اپوزیشن جماعتیں فی الوقت کسی مزاحمت کے قابل نہیں رہیں۔ مفاہمت یا مزاحمت کے سوال نے مسلم لیگ (نون) کو مزید نڈھال کر دیا ہے۔ جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن تخت یاتختہ والی جنگ کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ وہ مگر میدان میں اکیلے اتریں تو دیگر اپوزیشن جماعتوں کو خوف لاحق ہوجاتا ہے کہ مبادا کہیں دنیا یہ نہ سوچنا شروع ہو جائے کہ افغانستان کی طرح پاکستان میں بھی طالبان والے نظام کو متعارف کروانے کی راہ بنائی جا رہی ہے۔ حکومت کو نکیل ڈالنے کے لئے مولانا کے پاس اراکین قومی اسمبلی کی موثر تعداد موجود نہیں ہے۔ اس ایوان میں کوئی گیم لگانے کے لئے انہیں کم از کم مسلم لیگ (نون) کی بھرپور معاونت درکار ہے۔

مذکورہ جماعت میں مفاہمتی گروپ والے خود کو بہت کائیاں اور خرانٹ تصور کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت 1980 کی دہائی سے قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوتی رہی ہے۔ برسوں کے تجربے کے باوجود وہ حکومت کے دکھائے کھلونوں سے البتہ بہل جاتی ہے۔ انہیں جھانسہ دینے والا جھنجنا قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے پاس ہے۔ وہ مذاکرات کے نام پر جب بھی انہیں اپنے دفتر قاصد کے ذریعے بلوائیں تو ہنستے مسکراتے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے نام نہاد بردباری دکھانے کا فریضہ سید نوید قمر کے ہاتھوں بروئے کار لایا جاتا ہے۔

اسد قیصر نے انہیں جھانسہ دیے رکھا کہ انتخابی اصلاحات کے سوال پر جامع انداز میں غور کرنے کے لئے تمام جماعتوں پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی۔ اس کی بھرپور معاونت سے انتخابی قوانین میں ترامیم متفقہ انداز میں تیار کی جائیں گی۔ جھانسے کی زد میں آئے مبینہ طور پر انتہائی تجربہ کا ر اراکین قومی اسمبلی ایک دن بھی ایوان میں اٹھ کر حکومت کو یہ بتانے کو مجبور نہ کر پائے کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے۔ امریکی ڈالر کی قدر آسمان کی جانب پرواز کرنا کیوں شروع ہو گئی ہے۔ امریکہ میں ہمارے خلاف غضب کے عالم میں کیا کھچڑی پکائی جا رہی ہے۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کیوں آ رہا ہے۔

دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کی راحت سے فیض یاب ہوجانے کے بعد و ہ قومی اسمبلی میں یوں تشریف لاتے ہیں جیسے ہر اعتبار سے مطمئن افراد سورج ڈھلنے کے بعد چمن کی سیر کو جاتے ہیں۔ ایوان میں داخل ہونے کے بعد کورم کی نشا ندہی کردیتے ہیں۔ اجلاس دوسرے روز کے لئے مؤخر ہوجاتا ہے تو فاخرانہ انداز میں اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ ایسی اپوزیشن کے ساتھ عمران حکومت کی جگہ کوئی اور بھی برسراقتدار ہوتا تو اسے سوجوتے اور سوپیاز کھلانے والا رویہ ہی اختیار کرتا۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments