کھاص بات


”نیویارک میں تو بیوی بھاگ جاتی ہے، گرل فرینڈ بھی بھاگ جاتی ہے، یہ تو عام بات ہے۔ اگر میری گرل فرینڈ بھاگی تو کیا ہوا، یہ بھی عام بات تھی لیکن اس میں بھی کھاص بات ہے اور کھاص بات یہ ہے کہ اس کو میرا بھائی بھگا کر لے گیا تھا، ہے نا کھاص بات“

بات تو خاص ہی تھی، ایسا تو سننے میں بھی نہیں آیا تھا۔

”تجھے میں نے پہلے نہیں بتایا تھا، یہ میری امریکن گرل فرینڈ تھی۔ کرسٹی نام تھا اس کا ۔ پانچ سال سے ہم لوگ ساتھ تھے، شادی کرنے والے تھے، مگر بیچ میں میرا بھائی آ گیا، پھر یہ کھاص بات ہو گئی۔ اپنے ساتھ کھاص بات ہوتی ہے، عام بات اوروں کے لیے۔ ویسے نیویارک میں سب عام ہے۔ اس شہر میں کچھ بھی کھاص نہیں ہے سوائے میرے۔“ یہ کہہ کر وہ زور سے ہنسا تھا۔

انور علی نام تھا اس کا اور وہ اسماعیلی تھا۔ مجھے اسماعیلی بہت اچھے لگتے ہیں۔ میرے کئی دوست اسماعیلی تھے۔ ایک خاص بات ہے اس کمیونٹی میں، ان کی بہت سی اچھی عادتوں میں ایک بات یہ ہے کہ کام سب کرتے ہیں، مجھے آج تک کوئی اسماعیلی فقیری نہیں ملا۔ یہ بات سوچنے کی بھی ہے اور سمجھنے کی بھی ہے۔ ایک دن یہی بات میں نے انور علی سے کہی تو وہ ہنسا تھا اور بولا تھا ”یار یہ کوئی کھاص بات نہیں ہے، یہ تو عام بات ہے ارے، تو نے کوئی یہودی فقیر بھی نہیں دیکھا ہو گا۔

میں تجھے کھاص بات بتاتا ہوں۔ وہ کھاص بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کا جھگڑا کسی سے نہیں ہے۔ جس ملک میں ہیں ادھر کے باسی ہیں۔ نوروز بھی اپنا ہے، عید بھی اپنی ہے، کرسمس بھی اپنا ہے، دیوالی بھی مناتے ہیں۔ غم نہیں کرتے ہیں۔ ایسے تو یہودی بھی نہیں ہیں۔ کیا کہتے ہو، ہے نا کھاص بات؟“ میں نے سر ہلا دیا تھا۔ بالکل کھاص بات!

انور علی سے میری ملاقات گرینچ ولیج میں ہوئی تھی۔ یہ نیویارک کا عوامی علاقہ ہے، نیویارک یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے پب، دکانیں، آرٹسٹوں کا مجمع اور شراب خانوں میں سے امڈتی ہوئی موسیقی۔ میں اپنا فرصت کا وقت یہیں پر گزارتا تھا۔ اس دن گرمی تھی اور ایک آئرش پب میں بیٹھا ہوا ٹھنڈی ٹھنڈی بڈوائزر کی چسکیاں لے رہا تھا۔ میں اس زمانے میں کن ٹکی چکن کی دکان پر کام کرتا تھا، مرغیاں تلتا تھا، اور خوب کماتا تھا۔

اتنے میں دروازہ کھلا تھا اور وہ اندر آیا تھا اور سیدھا میرے پاس ہی آ گیا تھا، شاید میرا رنگ دیکھ کر ۔ پھر اس نے اردو میں ہی کہا تھا کہ ”بار میں پینا تو عام بات ہے مگر ساتھ مل کے پینا کھاص بات، اس نے بھی بڈوائر منگوائی تھی۔ پھر ہم دوست ہو گئے تھے۔ وہ بڑا آدمی تھا۔ نیویارک میں مرسڈیز چلاتا تھا۔ اس کا ٹرانسپورٹ کا کام تھا اور ایک کمپنی کا مالک تھا جو ٹرکوں سے سامان کی ترسیل کرتی تھی۔ اس شام ہم دنیا جہان کی باتیں کرتے رہے تھے، پھر اس نے اپنا کارڈ دیا تھا اور کہا تھا“ کبھی بھی کوئی بات ہو تو ملنا مجھ سے، سارے کھاص کام کرتا ہوں، شاید کام آ سکوں۔ ”وہ ہفتے میں ایک دن گرینچ ولیج آتا تھا۔ میں نے وعدہ کیا تھا اگلے ہفتے اسی وقت پر یہیں ملوں گا۔ میں نے ہنس کر کہا تھا“ کھاص ڈرنک کے لیے؟ ”

ایسی ہی ایک شام تھی جب اس نے مجھے اپنی بیوی کے بھاگنے یا بھگا لیے جانے کا قصہ سنایا تھا۔ وہ پانچ سال سے کلاڈیا کے ساتھ رہ رہا تھا۔ کلاڈیا اسے الباما میں ملی تھی، پھر اسی کی ہی ہو گئی تھی۔ اس زمانے میں میں نے ٹرک ڈرائیوری چھوڑ کر اپنی یہ کمپنی نئی نئی بنائی تھی۔ اس نے بڈوائزر کا ایک بڑا سا گھونٹ لے کر کہا تھا ”میں جب اٹلانٹا سے ایک کنٹریکٹ سائن کر کے اپنی گاڑی بھگاتا ہوا الباما سے نکل رہا تھا تو کلاڈیا مجھے انٹراسٹیٹ سڑک پر ملی تھی۔

میں لفٹ وغیرہ دیتا نہیں ہوں مگر اس دن نہ جانے کیوں میں نے اس کے لیے گاڑی روک دی تھی۔ وہ بھی میمفس جا رہی تھی۔ میمفس تک کا ساتھ خوب تھا۔ تو میمفس گیا ہے؟ بڑی عام جگہ ہے، مگر اس عام جگہ میں بھی کھاص بات ہے۔ معلوم ہے کیا کھاص بات ہے؟ نہیں معلوم ہے؟ ابے ایلوس پرسلے وہاں کا ہے۔ “ وہ ایلوس کا دیوانہ تھا۔ اس کی گاڑی میں، گھر میں، آفس میں ہر جگہ ایلوس کے کیسٹ پڑے ہوتے تھے۔

تجھے ڈریم لینڈ لے جاؤں گا۔ ابے پاگل ہو جائے گا وہ جگہ دیکھ کر ۔ ارے یہ آج کل کے گانے والے گاتے تھوڑی ہیں۔ گاتا تو وہ تھا۔ الوس کنگ آف پاپ۔ اسی کے شہر میمفس میں میں کلاڈیا کا دیوانہ ہو گیا تھا۔ وہ بھی ایلوس کی دیوانی تھی۔ ہماری خوب گزری۔ پھر مجھ کو اپنے کام کے لیے نیویارک میں شفٹ ہونا پڑا تھا۔ وہ بڑی خوبصورت تھی، باہر سے بھی اندر سے بھی۔ میں دیوانوں کی طرح چاہتا تھا اسے۔ امریکا میں کتنی ہی لڑکیوں سے تعلقات رہے تھے مگر کلاڈیا سب سے مختلف نکلی تھی۔

میں اپنا برا زمانہ گزار چکا تھا۔ امریکا آنے کے بعد مجھے بہت محنت کرنی پڑی تھی۔ میں نے مزدوری بھی کی تھی، میکڈانلڈ میں کام بھی کیا تھا۔ گھروں کی صفائی بھی کی تھی، باغبانی بھی کی تھی۔ ائرپورٹ پر فرص صاف کیا تھا اور ٹرک ڈرائیوری بھی کی تھی اور ٹرک ڈرائیوری کرتے کرتے ٹرک کی کمپنی کھول لی تھی۔ شروع میں ایک گورا بھی میرا پارٹنر تھا مگر بعد میں وہ الگ ہو گیا۔ دن رات، صبح شام محنت اور کام کیا تھا میں نے، پھر جا کر یہ کمپنی کھڑی کی تھی۔

نیویارک آ کر میرا کام اور بڑھ گیا تھا۔ کلاڈیا میرے ساتھ تھی اور میں شادی کے پروگرام بنا رہا تھا۔ شادی کی فرصت ہی نہیں ملتی تھی مگر میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب جلدی ہی شادی کرلوں گا۔ میں نے سوچا کہ شادی سے پہلے کلاڈیا کو پاکستان دکھا دوں اور اپنے ماں باپ سے بھی ملا دوں۔ وہ بھی بار بار یہی کہتی تھی۔ میں نے کسی طرح سے دو ہفتے کا وقت نکالا اور دونوں کراچی پہنچ گئے تھے۔

”اس کو کراچی بہت اچھا لگا تھا۔ وہ اچھے دن تھے کراچی کے۔ ہر طرف سکون ہوتا تھا، رات دیر تک باہر گھومتے رہتے، کوئی بولنے والا نہیں ہوتا تھا۔ ٹریفک سگنل پر گاڑیاں سرخ بتی دیکھ کر رک جاتی تھیں، پولیس والوں کی عزت تھی اور وہ دھویں والی گاڑیوں اور زیادہ مسافروں سے بھری بسوں کا چالان بھی کرتے تھے۔ ہم دونوں کو بہت ہی مزا آیا تھا۔ اور میں تو آٹھ سال کے بعد گیا تھا، بہت سی چیزیں بدل گئی تھیں مگر کراچی کراچی تھا۔

وہی برنس روڈ کی نہاری تکہ اور کباب، وہی کھیر ہاؤس کی کھیر، وہی چودھری فرزند علی کی قلفی اور بندو کباب کا ٹھکانہ۔ ہر چیز میں نے خود بھی بار بار کھائی تھی اور کلاڈیا کو کھلایا تھا۔ لیکن پھر ایک بات ہو گئی۔ میرا چھوٹا بھائی مراد علی کراچی میں کام وام نہیں کرتا تھا، فارغ گھومتا تھا اور مسخری میں لگا ہوا تھا۔ میرا باپ مجھے بولا تو اس کو اپنے ساتھ امریکا لے جا۔ میں نے بھی سوچا میرے ساتھ چلے گا تو میرے کام بھی کرے گا۔

مجھے تو ویسے بھی ایک پارٹنر چاہیے۔ مراد سے جب میں نے پوچھا تو ایسا لگا جیسے وہ تو بالکل ہی تیار بیٹھا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس کو لے چلتا ہوں۔ مگر امریکا جانے میں بھی ایک کھندک تھی۔ میرے پاس امریکن پاسپورٹ ہے، اس زمانے میں اسپانسر کرنے میں آٹھ سے بارہ مہینے لگتے تھے لیکن میں یہ سوچتا تھا ابھی میرے ساتھ جانے کا کوئی چکر ہوجاوے تو اچھا ہے، پھر نہ جانے کیسے میں نے کلاڈیا کو بولا اگر وہ مراد سے پیپر میرج کر لے تو فوراً کا فوراً ہی وہ ہمارے ساتھ چلا چلے گا۔

وہ اچھا زمانہ تھا، کوئی بھی امریکن پاسپورٹ والا لڑکا لڑکی اگر کسی بھی پاکستانی لڑکی لڑکا سے شادی کرتا تھا تو فوراً ہی ویزا مل جاتا تھا۔ ابھی تو اس میں بھی بڑی مشکل ہو گئی ہے، اب تو بہت سال لگ جاتے ہیں۔ کلاڈیا بڑی اچھی تھی، اس نے مجھے کبھی بھی کسی بھی کام کو نہ نہیں بولا تھا۔ ابھی بھی وہ نہ نہیں بولی تھی مگر مجھے خود ایسا لگا تھا جیسے میں کچھ اچھا کام نہیں کر رہا ہوں۔ پھر میں نے سوچا کچھ دنوں کی بات ہے ایک دفعہ مراد علی ادھر پہنچ جائے گا، پھر اپن سارے کاغذ پھاڑ دیں گے اور کلاڈیا سے اصل شادی کر لیں گے۔

”سب کچھ ویسا ہی ہوا جیسا میں چاہتا تھا ایک کاغذی شادی ہوئی۔ سٹی کورٹ میں مہر لگ گئی اور امریکن ایمبیسی میں ویزا لگ گیا اور ہم تینوں امریکا پہنچ گئے۔

”میں آنے کے ساتھ ہی تھوڑا سا مصروف ہو گیا تھا۔ میرے دو ٹرکوں کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا ایک میرا ڈرائیور مر گیا تھا میں ان کے انشورنس اور دوسرے قانونی چکروں میں تھوڑا پھنس گیا تھا۔ خیال تھا کہ ان سے فارغ ہو جاؤں تو پھر دھوم دھام سے اپنی بھی شادی بناؤں گا مگر یہ کھاص بات ہو گئی۔

”مراد علی تو مجھ سے کچھ نہیں بولا تھا مگر ایک دن کلاڈیا مجھ سے بولی تھی کہ وہ مجھے چھوڑ رہی ہے۔ وہ مراد علی کی قانونی بیوی تو تھی ہی، اب اس کی ہی بیوی بن کر رہے گی اور وہ دونوں نیویارک چھوڑ کر شکاگو جا رہے ہیں جہاں کلاڈیا بھی کام کرے گی اور مراد علی کو بھی کوئی نہ کوئی کام مل جائے گا۔

میرے غصے، میری التجا، میری دھمکی، میرا رونا کچھ بھی کارگر نہیں ہوا۔ مجھے لگا تھا کہ مجھ سے کہیں بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے اور کئی سال کے بعد میں پھر اکیلا ہو گیا تھا۔ ”

میں نے پوچھا تھا ”اب وہ لوگ کہاں ہیں؟“

”مجھے کچھ پتہ نہیں۔ کیا ضرورت ہے؟“ اس نے اپنے ایلوس اسٹائل بالوں کو انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے کہا تھا۔ ”جہاں رہیں خوش رہیں۔ پر یار یہ امید نہیں تھی۔ پر ہو گئی تو کیا کرنا ہے۔“ اس نے بڈوائزر کے دو اور بڑے پائنٹ کا آرڈر دیا تھا۔ ”میں تجھے ایک اور بات بتاتا ہوں۔“ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا تھا کھاص بات کہ عام بات؟ وہ بھی ہنس دیا تھا پھر بھرے گلاس پر تیرتی ہوئی پھین کی چسکی لے کر بولا تھا ”عام بھی ہے اور کھاص بھی ہے۔“

ایک سال تو جیسے تیسے گزر گیا۔ دوسرے سال میں نے سوچا اب جا کر پاکستان میں شادی کروں گا، ادھر سے کوئی غریب لڑکی لے کر آتا ہوں جو اپن کی بیوی بن کر رہے۔ تو نے اپن کا گھر تو دیکھا ہے نا؟ اس میں کوئی نہ کوئی عورت ہونی چاہیے۔ پھر میں نے بڑی مشکل سے آرتھر کو راضی کیا کہ وہ چھ ہفتے میرا کام سنبھالے گا۔ میں سوچتا تھا کراچی میں اچھی طرح سے گھوموں گا، ادھر اپنی کمیونٹی کے کسی اچھی لڑکی کو تلاش کروں گا پھر سات رہوں گا، گھوموں گا اور لے کر آ جاؤں گا۔

سلیمہ رجب علی مجھے کھارادر کے جماعت خانے میں ملی تھی۔ میں نے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ شادی کے لیے لڑکی چاہیے، اچھی لڑکی۔ پہلے کچھ لڑکیاں گارڈن جماعت خانے میں دکھا دی تھیں لیکن کھارادر میں تو جیسے سلیمہ خود ہی آن ملی تھی۔ تھوڑی بات ہوئی تھی اور میں نے دل میں سوچ لیا تھا کہ اب شادی اسی سے کرنی ہے۔ پھر جماعت خانے میں ہی ہم لوگوں کی شادی ہوئی تھی۔ ہوٹل میٹروپول میں میں نے کھانا کھلایا تھا۔ پھر میں اسے لے کر اسلام آباد اور سوات گیا تھا۔

چھ ہفتے خوب گزرے تھے۔ کراچی میں ہی ویزا وغیرہ کا کام ہو گیا اور ہم دونوں نیویارک آ گئے تھے۔ مگر نیویارک آنے کے تیسرے دن ہی ایک عجیب بات ہو گئی تھی۔ میں اس روز گھر واپس آیا تو گھر میں کوئی نہیں تھا اور سلیمہ کا خط ٹیلی فون کے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ اس کا بوائے فرینڈ امریکا میں غیرقانونی طور پر رہ رہا ہے جو کراچی سے ٹورسٹ ویزا لگا کر آیا تھا۔ اسے جب یہ پتہ چلا تھا کہ میں بیوی کی تلاش میں ہوں تو اس نے یہ پلان بنایا تھا کہ مجھ سے شادی کر کے امریکا اس طریقے سے آ جائے جس کے لیے وہ میری بڑی شکر گزار تھی۔ اب اس کا کونٹیکٹ اپنے منگیتر سے ہو گیا ہے اور وہ اس کے پاس سن ساٹی جا رہی ہے۔ اس نے لکھا تھا کہ میں اسے تلاش نہ کروں۔ اس نے بہت اچھا وقت میرے ساتھ گزارا تھا، وہ اسے یاد رکھے گی۔ مگر محبت وہ اپنے بوائے فرینڈ سے ہی کرتی ہے۔ آخر میں اس نے ایک بار پھر میرا شکریہ ادا کیا تھا۔ ”

مجھے یکایک ایسا لگا تھا جیسے میں نے بڈوائزر کے سو گلاس ایک ساتھ پی لیے ہوں۔ میں تقریباً چکرا سا گیا تھا پھر سنبھل کر بولا تھا ”ارے، یہ تو میرے خیال میں بہت ہی خاص بات ہو گئی تھی۔“

”نہیں یہ کھاص بات نہیں ہے، بالکل عام بات ہے۔ کھاص بات تو تجھے میں اب بتاتا ہوں“ یہ کہہ کر وہ مسکرایا تھا۔ ”تین سال بعد سلیمہ رجب علی کا ایک اور خط آیا تھا اس نے لکھا تھا وہ مجھے بھولی نہیں ہے۔ ساتھ میں اس نے چار ہزار ڈالر کا چیک بھیجا تھا جو میں نے اس پر خرچ کیے تھے اور اس نے لکھا تھا کہ اس کا ایک بیٹا ہوا ہے جس کا نام اس نے انور علی رکھا ہے۔“ یہ کہہ کر انور علی نے اپنا پرس نکال کر کھولا تھا جس میں چار ہزار ڈالر کا چیک تھا، جس پر دو سال پرانی تاریخ لکھی تھی۔ نیچے کسی سلیمہ کے دستخط تھے۔ مجھے وہ چیک دکھا کر وہ دھیرے سے بڑے غمگین انداز میں مسکرایا تھا۔ اور آہستہ سے رک رک کر بولا تھا ”ہے نا کھاص بات؟“

مجھے ایسا لگا تھا جیسے ایلوس پرسلے اپنے بال جھٹک جھٹک کر گا رہا ہے۔
ٹوٹے دلوں کو ہنسنے دو ، ٹوٹے دلوں کو ہنسنے دو ، ٹوٹے دلوں کو ہنسنے دو ۔
اور گاتے گاتے ایلوس پرسلے پوچھ رہا ہے ”ہے نا کھاص بات؟“
……O……

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments