جبر کی ناقابلِ برداشت کثافت


بیسویں صدی میں فکشن اور فلم میں ایک دلچسپ تعلق دریافت ہوا۔ نثربیانیے کے لفظ کو تصویر میں تبدیل کرنا بذات خود ایک تخلیقی فن کی صورت اختیار کر گیا۔ کئی صفحات پر پھیلے ہوئے واقعے کو چند لمحات کے منظر میں کیسے بیان کیا جائے؟ لکھنے والے نے ایک لفظ میں جو کیفیت رکھی تھی، اسے مکالمے اور واقعے میں کیسے سمویا جائے؟ فنکار کا گیان عجائب کی دنیا ہے، 1975ءمیں جلا وطنی اختیار کرنے والے میلان کنڈیرا نے 1982ء میں The Unbearable lightness of beingلکھا تو کون جانتا تھا کہ 1969کی پراگ بہار کے واقعات کا یہ تخلیقی بیان 1989کا نومبر آتے آتے تاریخ کی حقیقت قرار پائے گا۔   1986 میں ہدایت کار فلپ کافمین نے اس ناول پر ایک خوبصورت فلم بنائی جس میں انگریزی بولنے والی دنیا جولین بنوشے جیسی اساطیری اداکارہ سے متعارف ہوئی۔ کنڈیرا نے ناول میں ایک شراب خانے میں روسی وفد کی موجودگی کے دوران پڑھے لکھے افراد میں ایک حکومت مخالف سیاسی بحث کا ذکر کیا تھا۔ ہدایت کار نے اس میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کیلئے موسیقی کا پس منظر شامل کر دیا۔ اسٹیج سے امریکی موسیقی کی دھن بجائی جا رہی ہے۔ نوجوان جوڑے وارفتگی کے عالم میں ایک دوسرے کی بانہوں میں جھول رہے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کا ایک مقامی عہدیدار حقیقی حکمرانوں یعنی روسی مہمانوں کو خوش کرنے کے لئے موسیقار کو ایک روسی دھن بجانے کا حکم دیتا ہے۔ اکتائی ہوئی ریاستی موسیقی کی بوجھل آواز بلند ہوتے ہی نوجوان جوڑوں کے تھرکتے ہوئے قدم ساکت ہو جاتے ہیں۔ روسی دھن ختم ہوتی ہے تو موسیقار پھر سے ایک مقبول مغربی دھن چھیڑ دیتا ہے جس کے پرخروش سر سنتے ہی نوجوانوں میں دیوانہ وار سرمستی لوٹ آتی ہے۔ روس سے آئے ہوئے دفاعی تجزیہ کار اپنی آنکھوں سے عام آدمی کے حقیقی جذبات دیکھ کر جھلاہٹ میں رخصت ہو جاتے ہیں۔ شعیب بن عزیز نے کہا تھا کہ’ ’بینر پر لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے / دیوار پر لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے‘‘۔

مستبد اقتدار جلسہ گاہوں میں، چائے خانوں میں، نوجوانوں کے دلوں اور بوڑھوں کی آنکھوں میں لکھی ہوئی تحریر جانتا ہے لیکن فیصلہ سازی کے اختیار سے پیوستہ مفاد کی روشنی میں حرفِ خوشامد سننا چاہتا ہے۔ آمریت ریاست اور شہریوں میں یگانگت کے رشتے کا انہدام ہے۔ جمہوریت میں بہت سی خرابیاں موجود ہوتی ہیں، جمہوری حکومتوں سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں لیکن جمہوریت میں وہ کھڑکی کھلی رہتی ہے جس سے رائے عامہ کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ جمہوری قوتوں کو وقت کی آہٹ پر کان دھرنا پڑتے ہیں۔ جمہوری حکومتوں کو اپنے شہریوں کو غدار قرار دینے کی حاجت نہیں ہوتی۔ جبر کے اندھیرے میں بہت سے جرائم جنم لیتے ہیں لیکن سب سے گھناؤنا جرم یہ ہے کہ اختلاف اور انحراف کی آواز کو ملک دشمنی اور دیگر بھونڈے الزامات کی مدد سے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ جسٹس رستم کیانی کے بہادر دل نے 15نومبر 1962کی رات چٹاگانگ میں دھڑکنا بند کیا تو ان کی وہ تقریر ادھوری رہ گئی جو انہیں اگلے روز کرنا تھی۔ اس نامکمل تحریر کا ایک جملہ ہم تک پہنچا ہے۔ جسٹس صاحب نے لکھا تھا ’’میں اس ملک کا شہری ہونا پسند نہیں کرتا جہاں دل کی بات کہنے سے پہلے اپنی بات کے عواقب کا خوف آ لے‘‘۔ اس میں یہ اضافہ کر لیجئے کہ جہاں صحافی کا قلم لکھتے لکھتے ادارتی پالیسی کے پتھر سے ٹکرا کے اپنا بیان بدل لے۔ جہاں ادارتی پالیسی بنانے والوں کو خبر کی واقعاتی حقیقت اور تجزیے کے درست استدلال کی بجائے یہ ڈر لاحق ہو جائے کہ اخبار کی اشاعت رک سکتی ہے، ٹیلی وژن کی اسکرین تاریک ہو سکتی ہے اور ناپسندیدہ سچ کہنے والے کو پچیس کروڑ جرمانہ ہو سکتا ہے۔’’انسان کے بے ساختہ پن‘‘ کی آزادی پر اس بھاشن کے بعد عرض ہے کہ 2002 سے 2011 تک پرویز مشرف اور یوسف رضا گیلانی سمیت پاکستان کے اعلیٰ ترین رہنماؤں نے کئی بار اسامہ بن لادن کی موت کا اعلان کیا لیکن کسی نے مڑ کے نہیں دیکھا۔ یکم مئی 2011کی شام باراک اوبامہ اپنے اوول آفس سے باہر نکل کر راہداری میں رکھے روسٹرم تک آئے اور اسامہ بن لادن کے بارے چند الفاظ کہے۔ چند منٹ بعد امریکی عوام ناچتے گاتے وائٹ ہاؤس کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئے۔ جمہوریت حکمران کی ساکھ اور عوام کے اعتماد کا نام ہے۔ جمہوری حکمران بھی جھوٹ سے مبرا نہیں ہوتے۔ کبھی عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار دریافت کر لیتے ہیں تو کبھی معاشی مفادات کی سرد جنگ پر مذہب کا کمبل ڈال دیتے ہیں۔

ان دنوں آپ نے پڑھا ہو گا کہ پاکستان کے 55 فیصد لوگ افغان طالبان کی واپسی پر خوش ہیں۔ مذکورہ سروے کرنے والے یہ نہیں بتا رہے کہ لاکھوں افغان شہری اپنا ملک کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کا کوئی بھی صحافی آپ کو بتا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں ریاستی بیانیے کی تائید میں لکھی گئی تحریروں اور ٹیلی وژن پروگراموں کی مقبولیت کا کیا عالم ہے۔ درویش نے از ارہ احتیاط ایسے موضوعات کی معین نشاندہی نہیں کی۔ درویش جانتا ہے کہ اپنے صحن میں جبر کی ناقابل برداشت کثافت میں زندگی بسر کرنا کار دارد ہے۔ نذیر قیصر نے پچاس برس پہلے پنجابی میں ایک شعر کہا تھا جسے بوجوہ لکھا نہیں جا سکتا۔ شاعر نے اپنے صحن میں چھتنار پیڑ کی قلم لگانے اور اس پرا ٓنے والے برگ و بار کا ذکر کیا تھا۔ آج پچاس برس بعد نذیر قیصر کا شعر نہیں سنا سکتے لیکن شعیب بن عزیز کا شعر حاضر ہے۔

بہت سی سرخ آنکھیں شہر میں اچھی نہیں لگتیں

تیرے جاگے ہوؤں کا دیر تک سونا ضروری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments