22 لوگوں کی بیاض


بہت دن گزرے ہم کرونا وبا سے نمٹنے کے بعد اس کے بعد از مضر اثرات سے خوفناک جنگ لڑ رہے تھے۔ کرونا اور اس کے بعد کی پیچیدگیوں نے چھاپ تلک، سدھ بدھ سب چھین لی۔ بس یاد تھا تو اتنا کہ ہم زندہ ہیں، سانس لیتے ہیں۔ وہ سانس جو ICUمیں ادھار پر تھی۔ نقاہت کے مارے بات کرنی مجھے مشکل تھی۔ اسی طرح ایک روز ہم اپنے کمرے میں اداس سے بیٹھے تھے کہ ہمارے چوکیدار نے لا کر ایک بھاری بھر کم پیکٹ تھمایا۔ ہم سے وہ اٹھایا ہی نہ گیا۔

میں نے اسے کھولنے کو کہا تو سفید کاغذ کے اندر سے ایک بڑی سی کالے رنگ کی کتاب برآمد ہوئی سرورق پر گولڈن رنگ سے بڑا سا 22 اور لوگ بہت چھوٹا سا لکھا تھا۔ جھٹ سے تھام کر کھولا تو نہایت خوبصورت آرٹ پیپر رنگا رنگ تصویروں سے مزین صفحات پر ہاتھ پھسلتے جاتے۔ چونکہ ابھی اس کو پڑھنے کی متحمل نہیں تھی لہذا اسے وہیں اپنی کتابوں کی میز پر دھر دیا۔ ڈھیروں دن گزر گئے مگر میں اس دل کش کتاب کو پڑھ نہ پائی۔ 22 لوگ جب تکمیل کے مراحل میں تھی تو گاہے گاہے سجاد پرویز صاحب سے بات ہوتی رہتی تھی۔

میرے ذہن میں ایک عام سائز کی کتاب تھی۔ لیکن وصول ہونے پر ایک اچھوتے سائز کی کتاب ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ 22 لوگ ایک ایسی کتاب جسے ماضی اور حال کی رنگین کترنیں جوڑ کر ایک رلی کی طرح سیا گیا ہے۔ سجاد پرویز نہ صرف ایک صاحب مطالعہ انسان ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ موقع پرست تو بے جا نہ ہو گا۔ وہ اس طرح کہ جب بھی ادب و تاریخ کے شہر بہاول پور میں کوئی فن و ادب کی معروف شخصیت پہنچے تو سجاد پرویز مع اپنے تحقیقی سوالات اور مائیک کے جھٹ سے انٹرویو کرنے پہنچ جاتے ہیں۔

سجاد پرویز نے ریڈیو سے اپنی محبت اور لگن کی جھلک اس کتاب میں دکھا دی ہے۔ ہمارے ارد گرد لوگ کہانیوں کی صورت بکھرے ہوئے ہیں۔ 22 لوگ نے کم از کم 22 لوگوں کو ان کی تمام تر تخلیقی کاموں کے ساتھ ایک جلد میں سمو دیا ہے۔ پٹھانے خان کا دلچسپ انٹرویو سجاد پرویز نے 1995 میں ریکارڈ کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ غربت اور یتیمی اور محرومی نے ان کی زندگی میں درد کو ان کی آواز میں سمو دیا۔ پٹھانے خان نے صوفی شاعروں سے عشق کی چنگاری، لگن اور دھن پر اپنا سر دھنا، گاتے ہوئے ان کو لگتا تھا جیسے وہ محبوب کے در پر حاضری دے رہے ہیں۔ خواجہ غلام فرید کا کلام ان کا پسندیدہ کلام تھا۔ مقبولیت کے سفر میں کیا کھویا کیا پایا کے جواب میں پٹھانے خان نے خوب صورت جواب دیا: یہ عشق مصطفے ٰ کا فیض ہے : ہماری زندگی ایک پل کی بھی نہیں جیسے شاعر نے کہا

ہم ان کے، دل ان کا ، جان ان کی، سب ان کا
وہ لیں گے تو کیا لیں گے، ہم دیں گے تو کیا دیں گے

رضا علی عابدی صاحب کے ساتھ اردو، ریڈیو پاکستان، ریڈیو بی بی سی اور آواز کی دنیا کے شہنشاہ جیسے حوالے جڑے ہیں۔ ان کے انٹرویو میں پاکستان کی تحریک و تشکیل کے تاریخی سچ بھی پوری توانائی سے شامل ہیں۔ سجاد پرویز نے ان سے خوب صورت اور خوب باتیں کیں اور عابدی صاحب نے بھی کھل کر اپنے بچپن جوانی اور کیرئیر کے کٹھن سفر کا ذکر تفصیل سے کیا۔ ان پر تو بلا شبہ ایک مفصل کالم بنتا ہے۔ آصف فرخی جیسے بڑے مصنف سے پوچھے گئے سوال The bestآصف فرخی کس میدان میں ہے۔

جواب میں انہوں نے کہا کہ دا بیسٹ کوئی ہے ہی نہیں، اگر کبھی ایسا ہو جائے تو آگے کام کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں ملے گا۔ ریڈیو پاکستان سے ہی اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کرنے والے نہایت محترم افتخار عارف صاحب نے خوب دل کھول کر باتیں کیں۔ اپنے ادارے ”مقتدرہ قومی زبان“ کے بارے میں بتایا کہ سپریم کورٹ سے ہم باز پرس نہیں کر سکتے کہ آپ نے فیصلہ تو اردو کے حق میں دیا۔ لیکن آپ کا سارا کاروبار خود اس کے خلاف ہے۔

سول سروسز اور انتظامیہ کے لوگ انگریزی میڈیم کے ہیں تو ان سب کو اردو میں کام کرنے میں زحمت ہوتی ہے۔ انتظار حسین، فہمیدہ ریاض جیسے افسانوی کرداروں سے دو بدو گفتگو کر کے ہم جیسوں کے لیے محفوظ کر لیا۔ انور مقصود نے اپنے پروگرام سلور جوبلی کے ذریعے بینجمن سسٹرز، سجاد علی، ٹینا ثانی اور وہاب خان جیسے گلو کاروں کو پی ٹی وی پہ متعارف کروایا۔ انور مقصود نے اپنی ڈرائنگ کا خاکہ بھی تحفتاً سجاد پرویز کو دیا۔ اے حمید جیسے رومانوی اور افسانوی مصنف سے لاہور آ کر ملنے کا خواب بھی ایک دیوانے کا ہی ہو سکتا ہے۔

یہ خواب بھی سجاد پرویز نے بہت ابتدا میں ہی پورا کیا۔ الٰہ دین کا چراغ ملنے پر اس سے کیا مانگیں گے کے جواب میں اے حمید نے کہا کہ میں وہ چراغ رکھ ہی لوں گا کہ قدم قدم پر اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ زاہدہ حنا صاحبہ نے بتایا کہ اچھی اور بری سب یادیں آپ کی ذات کا اٹوٹ انگ ہوتی ہیں۔ زاہدہ آپا کی شخصیت کا عجیب رنگ بھی نظر آیا کہ وہ اپنے بچوں اور دوستوں کے لیے کھانا بنا کر خوشی محسوس کرتی ہیں۔ برتن دھوتے ہوئے ہیں انہیں لگتا ہے کہ صابن کے ساتھ ان کے اندر کی اداسی بھی دھل جاتی ہے۔

میری ناصح، میری استاد محترمہ سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ فیض احمد صاحب کی اسیری سے جڑی یادیں تو پرانی ہیں لیکن لگتا ہے کہ آج کی بات ہی ہے۔ اس وقت بھی پاکستان میں کتنی بیٹیاں، بیٹے، بیویاں اپنے پیاروں کی اسیری کے دن کاٹ رہیں ہیں۔ مصوری میں وہ خواتین آرٹسٹ کو اونچا درجہ دیتی ہیں کہ انہوں نے نئی راہیں اور نئے افق دریافت کیے۔ نوجوانوں سے وہ ہمیشہ بھرپور امیدیں رکھتی تھیں اور رکھتی ہیں۔ سب رنگ کے مدیر شکیل عادل زادہ کی جنرل ضیا الحق سے ملاقات بھی ایک آمرانہ ضرب کا دلچسپ قصہ ہے۔

کمال امروہوی کے گھر پر قیام کے ذکر میں بتایا کہ مینا کماری مذہبی مزاج کی خاتون تھیں، روزانہ قرآن شریف کی تلاوت بھی کرتی تھیں۔ زہرا نگاہ نے دینہ کے گلزار صاحب کی شاعری اور اس میں استعمال ہونے والے استعاروں کو خوب سراہا۔ معروف کارٹونسٹ میکسم (ڈاکٹر شوکت محمود) کو 1959میں منیر نیازی نے میکسم کا تخلص دیا۔ ضیاء محی الدین نے ولایت کے نیشنل تھیٹر میں کام کرتے ہوئے نظمیں پڑھنے کی روایت سیکھی اور زبان کے بہاؤ کو اپنی گرفت میں رکھتے ہوئے اردو میں متعارف کروایا۔

اس کے علاوہ Immaculate conception میں ہیجڑے کا کردار ادا کر کے اپنے فن کی دھوم مچا دی۔ اداس نسلیں کے عبدااللہ حسین نے کہا کہ جو لوگ خامیاں رکھتے ہیں ان کی نشان دہی کی جانی چاہیے اور بحیثیت مسلمان برائی کے خاتمے کے لیے جہاد بھی کرنا چاہیے۔ وجاہت مسعود کو کون نہیں جانتا وہ خشک ترین موضوعات کو ادبی چاشنی میں یوں بگھوتے ہیں کہ رب کی عطا لگتی ہے۔ پاکستان کی ایک اچھوتی ویب سائٹ ”ہم سب“ کے بانی ہیں جس نے بہت سے نو آموز کو ایک بہترین چبوترہ فراہم کیا۔ وجاہت مسعود خواب دیکھتے ہیں اور مرد و عورت کے مقام کا احترام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں زندگی کا جشن مناؤ خود بھی خوش رہو اور دوسروں کو بھی خوش رکھو۔ آخر میں شعر پیش خدمت ہے :

تمہاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے ہیں
جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے ہیں

مجھے لگتا ہے وہ تمام دیوانے اور فسانے سجاد پرویز کی آواز کی لہروں پر تیرتے ہوئے ریڈیو پاکستان بہاول پور کے آرکائیوز میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments