گھر بیٹھے کام کرنا


\"\"میں ایک فری لانس انیمیٹر اورڈیجیٹل السٹریٹر ہوں۔ سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو میں ٹی وی پر چلنے والے کارٹونوں کی طرح کے چھوٹے خاکے اور انٹرنیٹ اور کتابوں میں چھپنے والےتصویری خاکے کمپیوٹر پر بناتی ہوں۔ اب تو بہت سے لوگ گھر سے فری لانس کام کرتے ہیں مگر جب میں نے شروع کیا تو یہ شعبہ پاکستان میں اتنا مقبول نہیں تھا۔ کالج کے زمانے سے ہی بڑے بھائی کے کمپیوٹر پر فوٹو شاپ اور انیمیٹر سٹوڈیو چلا کر دیکھنا شروع کی اور ساتھ ہی لاہور میں واقع ایک تہنیتی کارڈ بنانے والی کمپنی کے لئےاپنے گھر سے ہی ڈیجیٹل ڈیزائن بنانے شروع کر دیے۔ وہ بھی ایک مزے دار قصہ ہے، ای میل کے ساتھ بڑی فائل کی اٹیچمنت ہوتی نہیں تھی اور ایک اعشاریہ چار ایم بی کی فلاپی ڈسک میں دس ایم بی کی فائل پوری نہیں آتی تھی، تو ون رار نامی سافٹ وئیر کی مدد سے فائل کے ٹکڑے ٹکڑےکر کے ڈھیروں فلاپی ڈسکس پر کاپی کر کے کمپنی کے دفتر لے جاتی اور وہاں جا کر ان کو ان کے کمپیوٹر پر جوڑ کر دیتی۔

 پھر فلیش کی سافٹ وئیر آ گئی تو اسے سیکھنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس زمانے میں انٹرنیٹ پر اتنے ٹیوٹوریل موجود نہیں تھے اس لئے یا تو سافٹ وئیر کی اپنی ہیلپ کھول کر یا ڈھونڈ ڈھانڈ کر کچھ کتابوں کی مدد سے ان سافٹ وئیر میں شدھ بدھ حاصل کی۔ سافٹ وئیر سیکھنا میرا مشغلہ تھا ورنہ ہونیورسٹی میں توروغنی رنگوں سے مصوری سیکھنا میرا بنیادی مضمون تھا۔ تعلیم مکمل ہوئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں تو اپنا کام کروں گی اور نوکری نہیں۔ منجھلا بھائی بولا کہ اگر اس طرح کام ملتا ہوتا تو کمپنیاں تو نہ چلتیں، ہر کوئی اپنا اپنا کام ہی کر رہا ہوتا۔ میں نے کہا لوگ کمپنیاں بنا سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں۔ ابو کی بڑی لاڈلی تھی، وہ بولے جو کہتی ہے اسے کرنے دو۔ میں نے ایک انیمیشن کمپنی کی سائٹ کا جائزہ لیا تو وہ تو انیمیشن کے نمونوں سے بھری ہوئی تھی۔ اب میں نے اپنے نمونے بنانے شروع کیےخود ہی سوچ سوچ کر۔ ساتھ ہی ایچ ٹی ایم ایل پڑھ پڑھ کر ویب سائیٹ بنانی شروع کی۔ بڑا بھائی تو کتابیں لا کر دیتا اور منجھلا بھائی روز چڑاتا کہ کچھ نہیں بننا تمہارا۔ خیر بالآخر میں نے اپنی سائٹ بنا ہی لی۔ ابھی ای لانس اور فری لانسر جیسی ویب سایٹس شروع نہیں ہوئی تھیں مگر ہم خیال اور ایک ہی شعبے سے وابستہ لوگوں کے فورم بن چکے تھے۔ ان میں سے ایک فورم پر اپنی ویب سائٹ کا لنک ڈالا تو ایک بے حد مشہور امریکی گریٹنگ کارڈ کمپنی کے آرٹ ڈائیریکٹر کی ای میل آئی کہ ہمارے لئے کام کرو۔ وہ خوشی منائی کہ آپ سوچ نہیں سکتے۔ منجھلے بھائی کو چڑایا، بڑے بھائی کا شکریہ ادا کیا اور ابو کو گلے سے لگایا۔ امی کا ذکر اس سارے قصے میں اس لئیے نہٰیں کیونکہ وہ تو میرا رشتہ ڈھونڈ رہی تھیں اور ہر وقت فکر میں غلطاں رہتی تھیں کہ اس کی شادی کا کیا ہو گا۔ اس کے بعد امی نے ایک رشتہ ڈھونڈا اور مجھے رخصت کر دیا۔ ہاں یہ مہربانی ہوئی کہ جہیز کے باقی سامان کے علاوہ ایک تیز سپیڈ والا کمپیوٹر اور ڈیجیٹل تصویریں بنانے کے لئے ایک پین ماوس مجھےساتھ دے دیا۔ میری زندگی میں بہت نشیب اور فراز آئے، بڑی دقتیں ہوئیں۔ ان کا ذکر پھر سہی، مگر میں نے کام نہ چھوڑا۔ اس چیز کی کچھ لوگوں نے قدر بھی کی اوردیگر بچیوں کو میری مثال بھی دی۔ خیر اب تو بہت بچیاں بڑے بڑے کام کرتی ہیں گھر بیٹھے۔ خیر میں کام کرتی رہی اور ایک سے دو اور پھر دو سے زیادہ کلائنٹ بن گئے۔ کچھ مشکل برسوں بعد زندگی دوبارہ اپنے ڈھب پر آ گئی۔ اب الحمد للہ بچے ہیں ، میاں ہیں اور پورا گھر۔

 ایسا ہے کہ گھر سے کام کرنا کچھ لحاظ سے تو بہت سہل ہے۔ نہ لازمی طور پر صبح صبح تیار ہونے کا جھنجٹ نہ بارش طوفان میں دفتر پہنچنے کی فکر۔ سر پر کوئی باس ہر وقت نہیں ہوتا اور تخلیقی کام کرتے وقت چاہو تو کام کے ساتھ گانے لگا لو اور بھلے سر میں بنا کنگھی پھیرے ہی کام شروع کر لو، بارش برسے تو کام بیچ میں چھوڑ کر پکوڑے تل کر کام دوبارہ وہیں سے شروع کر لو، ساتھ کام کرو ساتھ پکوڑے کھاو، مگرکسی حد تک مسئلہ وہاں آتا ہے جب لوگ میری زندگی کی مصروفیت کی نوعیت نہیں سمجھتے۔ میں نوکری کرنے والی خواتین کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہوں کیونکہ وہ دفتری امور کے علاوہ گھر اور بچوں کی دیکھ بھال بھی کرتی ہیں اور آنے جانے کی تکلیف علیحدہ اٹھاتی ہیں مگر یقین مانیے کہ گھر بیٹھے کام کرنا بھی کچھ آسان نہیں کیونکہ اس میں کام تلاش بھی خود ہی کرنا ہوتا ہے، اپنی تشہیر بھی خود ہی کرنی پڑتی ہےاور کام کے نقائص بھی خود ہی دور کرنے ہوتے ہیں۔ تقریبا ہر شعبے کا کام اکیلے ہی کرنا پڑتا ہے۔ گو کہ یہ سب ایک بہت چھوٹے پیمانے پر ہوتا ہے بڑی کمپنیوں کی نسبت مگر ہر چیز وقت اور ہمت کی متقاضی ہوتی ہے۔ زیادہ کلائینٹ میرے امریکہ میں ہیں تو ان کا دن کا وقت ہماری رات ہوتی ہے۔ جب بچی چھوٹی تھی تو جب وہ سو جاتی تب میں کام کرتی اور رات کو علیحدہ جاگ کر کلائینٹس سے بات کرتی۔ گھر پر کوئی مددگار نہ تھا تو اس وقت ہانڈیاں چڑھا کر گھڑی پر ٹائم نوٹ کر کے کمپیوٹر کے سامنے آ جاتی اور یہاں ایک خاکہ مکمل کر کے ہانڈی بھونتی اور واپس آ کر پھر دوسرے خاکے پر کام کرتی۔ ٹائم مینیجمنٹ ایک بہت مشکل مرحلہ ہے گھر سے کام کرنے میں کیونکہ کام کرنے کے لئے ڈیڈ لائن ہوتی ہے مگر دوست واحباب کی آمدورفت اور دیگر گھریلو امور اس ڈیڈ لائین سے مطابقت نہیں رکھتے۔

 دفتری کام میں ایک سہولت یہ بھی ہے کہ دفتری اوقات کار مقرر ہوتے ہیں۔ جب آپ گھر آ جائیں تو اگلے دن سے قبل وہ کام نہیں کر سکتے مگر گھر میں کام آپ کو ہر وقت بلاوا دیتا رہتا ہے۔ کام کرنا کب روک دیا جائے اور تھکنے سے کیسے بچا جائے، یہ ہنر سیکھنا بھی ایک مشکل چیز ہے۔ رفتہ رفتہ میں نے ان چیزوں کو لے کر چلنے کا فن سیکھا مگر پھر کام کو ایک خاص حد پرلے جا کر روک دیا، اس سے بڑھایا نہیں۔

جب گھر سے کام کرنا ہو تو خود کو تحریک دینا یا موٹیویٹ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بعض دفعہ کام کرنے کو دل نہیں چاہتا اور کوئی باس بھی نہیں ہوتا جو باز پرس کرے تو طبیعت کاہلی کی طرف آمادہ ہو جاتی ہے ۔ دفتر میں مجھے یہ چیز بھی پرکشش لگتی ہے کہ ایک ہی دفتر میں ہونے کی وجہ سے تمام لوگ آپ کی صورتحال کو سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اکیلے کام کرنے کی صورت میں اگر کسی مشکل میں پھنس جائو تو ساتھ مل کر دماغ لڑانے کے لئے کوئی نہیں ہوتا۔ کافی برسوں سے میرا کام سست روی مگر مستقل مزاجی سے چل ہی رہا ہے۔ مگر دوسری خواتین میں خود کو متعارف کروانا ابھی بھی ایک مشکل عمل ہے۔ ڈاکٹر یا لیکچرر جیسے شعبے تو آرام سے سمجھ میں آ جاتے ہیں سب مگر مجھے ابھی تک خود کو متعارف کرانے کے لیے مناسب الفاظ نہیں ملتے اور ایک لفظ تو بالکل بھی نہیں ہے اس کام کے لیے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ گھر سے کیے جانے والے فری لانس کام کو معاشرے میں بھی ابھی تک وہ مقام حاصل نہیں۔ دفتر میں کام کرنے والی خواتین تو خود بے حد مصروف ہوتی ہیں مگر وہ خواتین جو دن میں نسبتا فارغ ہوتی ہیں یہ شکوہ کرتی ہیں کہ میں ان سے دن میں ملتی کیوں نہیں۔ اگر کام کا عذر دو تو کہتی ہیں کہ ارے آپ کا اپنا ہی تو کام ہے، آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ مانا کہ گھر سے فری لانس کام کرنے کی صورت میں کام کے اوقات کار میں لچک ہوتی ہے مگر ساتھ ہی ڈیڈ لاینز کی ٹینشن بھی ہوتی ہے۔ اس میں بیماری یا کسی اور مجبوری میں چھٹی وغیرہ لینے کا جھنجٹ نہیں ہوتا مگر وقت پر روزانہ کام مکمل کرنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔

 ایسے میں جو لوگ مجھے کام کے حوالے سے جانتے ہیں، پوچھتے ہیں کہ ارے اب تک کام بڑھایا نہیں۔ بس اتنا ہی کر رہی ہیں، کوئی اور نئی ٹیکنالوجی تو سیکھ لیجیے کم از کم ( جو کہ ایک درست بات ہے) اور جو اس حوالے سے نہیں جانتے وہ کہتے ہیں، آپ تو گھر پر ہوتی ہیں، آپ تو فارغ ہی ہوتی ہوں گی نا۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments