تین اکتوبر : مشرقی و مغربی جرمنی کا اتحاد اور تقسیم ہوا کشمیر


انسان کیا حیوان بھی جس سر زمین میں پیدا ہوتا ہے، اس سے محبت و انس اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔ چرند، پرند، درند حتیٰ کہ چیونٹی جیسی چھوٹی بڑی کسی چیز کو لے لیجیے، ہر ایک کے دل میں اپنے مسکن اور وطن سے بے پناہ انس ہوتا ہے۔ ہر جاندار صبح سویرے اٹھ کر روزی پانی کی تلاش میں زمین میں گھوم پھر کر شام ڈھلتے ہی اپنے ٹھکانے پر واپس آ جاتا ہے۔ ان بے عقل حیوانات کو کس نے بتایا کہ ان کا ایک گھر ہے، ماں باپ اور اولاد ہے، کوئی خاندان ہے؟ اپنے گھر کے در و دیوار، زمین اور ماحول سے صرف حضرت انسان کو ہی نہیں بلکہ حیوانات کو بھی الفت و محبت ہوجاتی ہے۔

اسی لیے آپ چائے دنیا کے جس حصہ میں بھی ہوں اپنے وطن کی یاد، اس کے حالات اور دنیا کے دیگر ممالک سے اپنے وطن کا موازنہ کرنا ایک فطری سی بات ہے اور راقم التحریر کے اس سفر اور اور اس کو سپرد قلم کرنے کے سلسلہ تعلق بھی اسی چیز سے ہے۔ انسان جہاں جہاں کوئی ایسی بات دیکھتا جس کو وہ اچھا تصور نہیں کرتا اور وہ اس کے آبائی وطن میں نہیں ہوتی تو وہ خوش ہوتا اور اس بات کا ذکر فخر سے کرتا اور اسی طرح جب وہ کہیں اچھی یا کوئی مختلف بات دیکھتا تو اس وقت بھی اسے افسوس ہوتا کاش کہ یہ اس کے ملک میں بھی ایسا ہی ہو جائے۔ اسی لیے اس سفر نامہ کے دوران مجھے بھی اپنا ملک پاکستان اور کشمیر خاص طور پر یاد رہتے۔ آج کی اس تحریر بھی کچھ ایسی ہے جس کو دیکھ کر مجھے بے اختیار اپنا وطن کشمیر یاد آ جاتا۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ جرمنی کی تاریخ سے جنگیں بہت جڑی ہوئی ہیں اور یورپ جیسے آج امن پسند اور معزز نظر آتا ایسا یہ بھی نہ تھا۔ لیکن اچھا ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے سیکھا کے جنگیں نفرت، تباہی اور بربادی کا باعث بنتی ہیں اور ترقی امن، بھائی چارے اور محبت میں ہی ہے۔

جنگ عظیم اول جو 1914 سے 1919 تک ہوئی یہ یورپ کے بیشتر ممالک میں لڑی گئی اور جرمنی اس کا بنیادی کردار تھا اور اس میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ اس جنگ کے بعد جرمنی کمزور ہو گیا تھا لیکن پھر جدید دنیا کے سب سے بڑے جنگجو جس کو دنیا جانتی و مانتی ہے اور اس کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں ”ہٹلر“

نے جرمنی کو پھر طاقتور بنایا اور دنیا کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا اور یورپ کے ممالک پر قبضہ کرنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں جنگ عظیم دوئم شروع ہو گئی۔ جنگ عظیم دوئم ( 1939۔ 1945 ) میں فتوحات کا نشہ ہٹلر کو سوویت یونین تک لے گیا لیکن وہاں وہ ایسا پھنسا کہ بالآخر 7 مئی کو مغربی اتحادیوں کے سامنے اور 9 مئی 1945 کو برلن میں سوویت یونین کے سامنے جرمنی نے غیر مشروط طور پر ہتھیا ر ڈال دیے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور 1961 سے 1989 ء تک جرمنوں نے اپنوں کی جدائی اور تقسیم کے دکھ سہے۔ مشرقی جرمنی پر سوویت کنٹرول تھا۔ لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جانے سے روکنے کے لئے 161 کلو میٹر طویل دیوار تعمیر کی گئی۔ جو نو فٹ بلند کنکریٹ تھی۔ اس پر تین فٹ خار دار تاریں لگا دی گئیں۔ دیوار پر مشین گنیں نصب کی گئیں۔ اس کے ارد گرد بارودی سرنگیں بچھ گئیں۔ اس دیوار نے صرف گلیاں اور مضافات، شہر اور دیہات ہی تقسیم نہیں کیے بلکہ خاندان کے خاندان اور رشتے ناتے توڑ دیے۔ یہ دیوار کبھی دیوار شرم اور کبھی آہنی پردہ کہلائی۔

میں نے جب برلن میں موجود اس دیوار کے کچھ حصہ ( جو خاص طور پر محفوظ کیا گیا ہے ) کو دیکھا تو بے اختیار اپنا وطن کشمیر یاد آ گیا جس کو جبری طور پر کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اور خاص طور پر دو حصوں کے درمیان ایک ایسی خونی لائن لگا دی گئی ہے۔ اس دیوار نے 73 سال سے ڈیڑھ کروڑ عوام کو ایک دوسرے سے جدا کر رکھا ہے۔ دیوار برلن 12 فٹ اونچی تھی لیکن کشمیر کی دیوار برلن فلک بوس بن چکی ہے۔ پاکستان کے آمر حکمران پرویز مشرف دور حکومت میں اسے توڑنے کے بجائے اس کو پختہ بنا دیا گیا۔

اس پر کنکریٹ بنکر تعمیر کیے گئے۔ آہنی دیوار لگا کر اس میں کرنٹ چھوڑا گیا۔ لیزر ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ بھارت اس دیوار کو سمارٹ دیوار کا درجہ دے کر فخر کر رہا ہے۔ تا کہ کوئی اسے پار نہ کر سکے۔ اور اس کے بعد بھائی بھائی سے، باپ اور ماں اپنی اولاد سے اور بیوی اپنے خاوند سے جدا ہو کر رہ گئی ہے۔ تقسیم کی ایسی ایسی داستانیں ہیں کہ جن کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا۔

اقوام متحدہ کے چارٹر اور دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے آئین میں آزادی نقل و حمل کی ضمانت ملتی ہے۔ ایک قوم، خاندانوں، عزیز و اقارب کی تقسیم اگر چہ غیر اخلاقی اور غیر فطری ہے لیکن ماورائے اخلاق اور فطرت کارنامے توثیق پا رہے ہیں۔ یہ اطلاق کمزور قوموں پر نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی طاقت کے نشہ میں مست ممالک کسی اخلاقی تصور کے پابند ہیں۔ ان کے سامنے مغلوب اور غلام قومیں کیڑے مکوڑے ہیں۔ ان کے کوئی حقوق نہیں۔ کیوں کہ ایسا ہم نے کشمیر میں ہی نہیں بلکہ فلسطین اور دیگر خطوں میں بھی دیکھ لیا۔

دیوار برلن کا گرنا کوئی حادثاتی واقعہ نہیں تھا۔ بلکہ جرمن عوام نے اس کے لئے جدوجہد بھی کی۔ تقریباً 200 افراد اس دیوار کو روندتے ہوئے مارے گئے۔ لاتعداد زخمی ہوئے۔ عوام نے متحد ہونے کے لئے مظاہرے کیے ۔ تا ہم دیوار کے ٹوٹنے کے دیگر عوامل بھی تھے۔ قوموں کی آزادی یا تصفیہ طلب ایشوز کا حل ہونا صرف احتجاج کے مرہون منت نہیں ہے بلکہ اس کے لئے مسلسل جدوجہد کے ساتھ اس خطے اور عالمی حالات و واقعات کو موافق ہونا یا بنانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دیوار برلن کو گرانے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ لوگ بھی پر عزم تھے۔ ان کا جذبہ بھی تھا اور حالات بھی ان کے موافق بنے۔

اس لئے 30 سال بعد ہی سہی، لیکن ان کا خواب پورا ہوا۔ وہ پھر سے متحد ہو گئے، خاندان ایک دوسرے سے مل گئے۔ جدائیاں ختم ہو گئیں۔ اور اس کے بعد جرمنی نے جو ترقی کی وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر دیوار برلن نہ گری ہوتی تو یورپ کا آج کا اتحاد جو یورپی یونین کی صورت میں ہے اور چھوٹے چھوٹے ممالک بھی اپنی مرضی سے، آزادی سے ترقی کر رہے۔ اب جرمنی میں لوگ ہر سال آج یعنی 3 اکتوبر کے دن جرمنی کے دوبارہ اتحاد کا جشن مناتے ہیں۔ شہر چراغاں کیے جاتے ہیں، تقریبات ہوتی ہیں اور اس دیوار کے لئے لوگ اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔

ہم کشمیری بھی یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا خطہ بھی ترقی کرے اور یہ اسی صورت میں ہو گا کہ جب ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں یہ سب سمجھیں گی اور ایک دوسرے کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے منقسم کشمیریوں کو آپس میں ملائیں گی اور کشمیر کے درمیان تعمیر کردہ خونی لکیر یا باڑ کو دیوار برلن کی طرح گرانا ہو گا۔ کیونکہ ترقی کا وہ حق جو دوسرے ممالک کے لوگوں کو ہے وہ ہمیں کیوں نہیں؟ ہمیں اپنی مرضی سے اپنے فیصلے کیوں نہیں کرنے دیے جا رہے؟ ہمارا بھائی کیوں دوسرے بھائی سے جدا ہے؟ آج بھی اگر پاکستان اور ہندوستان کے حالات خراب ہوتے ہیں تو بارڈر پر دونوں طرف کشمیری مارے جا رہے ہیں، ایسا کیوں؟

ہمارے پاکستان کے حکمران پاک جرمن تعلقات کی بہتری اور معاہدوں سمیت جرمن رہنماؤں کے ساتھ دنیا میں موجود ایک اور دیوار برلن کو گرانے ابھی تک ذکر نہیں کر سکے ہیں۔ ان کے پاس فرصت بھی کم ہے۔ اگر وقت ملے تووہ کشمیر کی دیوار برلن کو توڑنے کے لئے جرمنی اور اس کے اتحادیوں خاص طور پر یورپ کی حمایت طلب کر نے میں آزاد ہیں۔ اس دیوار کی وجہ سے لاکھوں لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ کشمیری ہی نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے فوجی بھی اس دیوار کی وجہ سے جانیں قربان کر رہے ہیں۔ سیاچن گلیشئر کا تنازع اسی کی دین ہے۔ اس کے باوجود حالات موافق نہیں۔ لیکن کشمیریوں کا خواب ہے۔ وہ بھی آزادی اور اتحاد چاہتے ہیں۔ 73 سال سے اس کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔ اس لئے یہ خواب ضرور پورا ہو گا۔ حالات کو موافق کرنا ہے

ہم جرمن قوم کو اس آزادی اور اتحاد پر مبارکباد دیتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ کشمیر کی سیز فائر لائن کو بھی یاد رکھیں۔ جرمن دیوار برلن کر گرانے کی سالگرہ منائیں۔ ان کے اس جشن میں ہم بھی شامل ہے۔ وہ اس دیوار کی مصیبتوں کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ کشمیر کی دیوار برلن کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ہمیں ایسی سفارتکاری کرنی ہو گی جس سے جرمنی اور یورپ کشمیر کی دیوار برلن کو گرانے میں بھی اپنا تعاون پیش کریں۔

شاید دنیا کشمیر کی دیوار برلن سے اس طرح آگاہ نہیں جس طرح ہونا چاہیے۔ کیا دنیا کے سامنے ہم اپنا مقدمہ اس طرح پیش کر سکے ہیں جس طرح اسے پیش کرنے کا حق ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments