نواز شریف، بھٹو نہیں ہیں اور نا ہی مریم نواز بے نظیر بن سکتی ہیں


پاکستان میں ہر سیاسی پارٹی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہے۔ حکومتی پارٹی مہنگائی کے بم عوام پر گرانے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو بھی ناکوں چنے چبوا رہی ہے۔ پی پی پی والے اپنے سندھ حکومت میں خوش آنے والے الیکشن کے لئے جوڑ توڑ اور پنجاب میں اپنی جگہ بنانے میں مصروف ہیں۔

اور دوسری طرف پنڈورا پیپرز پانامہ لیکس ٹو کے نام سے نیا سکینڈل آنے سے پہلے ہی دم توڑ گیا لیکس شائع تو آج ہونی تھیں لیکن کل رات ہی فرید نامی شخص نے سامنے آ کر زمان پارک ٹو لاہور کے ایڈریس پر قائم دو آف شور کمپنیز کو اون کر کے وزیراعظم عمران خان کی طرف بڑھنے والے طوفان کو پھونک مار کر ہوا میں اڑا دیا۔ اب ہم عمران خان صاحب کو قسمت کا دھنی کہیں یا ان کی زوجہ کے مبارک قدم لیکن وہ اس سے صاف بچ گئے ہیں۔

وہاں ایک پارٹی ایسی بھی جو صرف اس وقت اپنے اندر اقتدار اور پارٹی کے قبضے کی خاندانی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ جہاں بیانیے کی جنگ جاری ہے۔ جی ہاں بالکل درست پہچانا مسلم لیگ نون جہاں صرف اس جماعت کا ووٹر اور سپورٹر ہی کنفیوز نہیں ہے وہاں اس جماعت کے سینئر رہنما بھی پریشان ہیں۔ کیونکہ شریف فیملی کی یہ خاندانی جنگ اب پارٹی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ وہاں اس اختلاف کو ہوا مریم نواز شریف نے اپنے ایک بیان کے ساتھ دی۔ کہ وہ آرمی چیف جرنل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹنشن دینے کے گناہ میں شامل نہیں تھیں۔ وہ اس نون لیگ کا حصہ نہیں تھیں۔

جب کے اس بیان کے بعد حمزہ شہباز کا یہ بیان کہ ہماری لیڈرشپ نے باہمی مشورے سے پوری جماعت نے آرمی چیف کو ملک کے وسیع تر مفاد میں ووٹ دیا۔

اس بیان سے یہ صاف ظاہر ہے فیصلہ نواز شریف کی مرضی سے ہی ہوا تھا۔ اور جو مریم نواز اپنے والد سے دن میں کئی مرتبہ فون پر رابطہ رکھتی ہیں۔ پھر وہ بھلا اس فیصلے سے کیسے بے خبر ہو سکتی تھیں۔

تو پھر انھوں نے یہ بیان دے کر کیا اپنی پارٹی کے ساتھ ساتھ اپنے چچا شہباز شریف اور اپنے والد اور پارٹی کے قائد نواز شریف صاحب کی فیصلہ سازی پر بھی سوال نہیں اٹھا دیے۔ یا وہ جان بوجھ اپنے اپ کو ان سب سے بڑا اصول پسند شو کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں؟

لیکن مریم نواز کا پارٹی اجلاسوں میں کہنا کہ ہاں میرے اور حمزہ کے خیالات مختلف ہیں۔ جہاں کچھ لوگ ہم سے ڈرتے ہیں وہاں ہماری پارٹی کے کچھ لوگ ان سے ڈرتے ہیں۔ شاید وہ یہ بتانا چاہتی ہیں کہ میرے والد کے بعد میں ہی ایک اکلوتی بہادر ہوں جو اس پارٹی کو لیڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ باقی سب مفاہمت پسند ڈرے سہمے لوگ ہیں۔

کنٹونمنٹ الیکشن کی جیت کے بعد سے ہی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے اعتماد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ کینٹ الیکشن میں ووٹ کو عزت دو کی بجائے خدمت کو عزت دو کا نعرہ متعارف کروایا۔ اور لوگوں نے شہباز شریف کے کام کو ووٹ بھی دیا ہے۔

اب حمزہ شہباز شریف نے پارٹی کو پیچھے رہ کر لیڈ کرنے کی بجائے فرنٹ سے لیڈ کرنے کا سوچ لیا ہے۔ اب وہ کافی ایکٹو نظر آنے لگے ہیں۔ شاید وہ مریم نواز کے جارحانہ روئیے اور پارٹی کو ٹیک اوور کرنے کے عزائم کو سمجھ گئے ہیں۔

آج کل حمزہ شہباز شریف جنوبی پنجاب میں سیاسی طور پر کافی سرگرم ہیں۔ اور حمزہ شہباز شریف نے وہاں پر لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ کہا کہ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کا ایک ہی راستہ ہے، آئندہ الیکشن میں ”نواز شریف اور شہباز شریف“ کی جماعت کو کامیاب کروائیں۔

یہاں میرے لئے یہ لائن نواز، شہباز کی جماعت کا نعرہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جیسے حمزہ اب یہ تاثر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کہ ووٹ ہو یا جماعت اس پر جتنا حق نواز شریف کا ہے۔ اتنا ہی شہباز شریف کا بھی ہے۔

اور آج ہی جنوبی پنجاب سے پی پی پی کی نامور شخصیات سمیت کچھ اور لوگوں نے حمزہ شہباز کی قیادت میں مسلم لیگ نون میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ اس سے ایک بات تو ثابت ہو رہی ہے کہ چاہیے مریم نواز سوشل میڈیا پر مقبول ہیں کراؤڈ بھی اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ لیکن انھیں گراؤنڈ پر ووٹر اور قائدین کا اعتماد حاصل نہیں ہے۔ لوگ آج بھی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی یس کا ہی انتظار کرتے ہیں۔

مریم نواز اور نواز شریف ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے ساتھ آزاد کشمیر کے الیکشن کو مرضی کی کمپین کے ساتھ بھی نہیں جیت سکے۔ نواز شریف اور مریم نواز کا مزاحمتی بیانیہ ہار گیا۔

مطلب ہم یہ رائے آخذ کرنے میں حق مجانب ہیں کہ ووٹ صرف نواز شریف کا ہی نہیں ہے۔ پنجاب میں اب بھی ووٹ شہباز شریف کے کام کو پڑتا ہے۔

اگر ہم پنجاب سے شہباز شریف کی کارکردگی کو نکال دیں تو پیچھے اس جماعت کے پاس عوام کو بیچنے کے لئے سوائے کھوکھلے نعرے اور میاں صاحب کی دکھ بھری کہانیوں کے کچھ بھی نہیں بچتا۔ اور یہ جماعت ہمیشہ پنجاب کی کارکردگی ہی پورے پاکستان میں بیچتی رہی ہے۔ اور مسلم لیگ نون کی بہترین کارکردگی کا سہرا شہباز شریف کے سر ہی جاتا ہے۔ اور پنجاب میں شہباز شریف کے بعد حمزہ شہباز کی گرپ پارٹی پر سب سے زیادہ مضبوط ہے۔

شہباز شریف نے ہمیشہ اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی محبت میں اقتدار کو ٹھوکر ماری ہے۔ اور نواز شریف کے اپنے ہاتھوں سے بچھائے کانٹے شہباز شریف نے اپنے ہاتھوں سے اٹھائے ہیں۔ اگر آج تک نواز شریف کو بار بار اقتدار نصیب ہوا ہے تو وہ شہباز شریف کی مفاہمت کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔

تو کیا نواز شریف صاحب کو تین مرتبہ وزیراعظم بنتے وقت یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ سب شہباز شریف کی مفاہمت کی بدولت ہی ممکن ہو پا رہا ہے۔

جب تک اقتدار ملتا رہا الیکشن بھی فیئر ہوتے رہے اور پاکستان بھی آزاد لگتا رہا۔

آج جب نواز شریف اپنے کارکنان کو مشرف دور کے 1999 کے قصے بہت درد بھرے انداز میں سناتے ہیں۔ کہ دیکھو میں کتنا بہادر تھا۔ میرے سر پر گن رکھی گئی تھی لیکن میں نے سائن کرنے سے انکار کر دیا۔ نواز شریف اپنے قصے سناتے ہوئے جرنل محمود کی رعونت کی بات تو کرتے ہیں لیکن دوسرے ہی سانس میں اپنی رعونت میں جرنل محمود کو نیچا دکھانے کے لئے ان کی داڑھی کا تمسخر بھی اڑاتے ہیں۔

اگر نواز شریف صاحب گرینڈ پا کی طرح قصے کہانیاں سنانے کی بجائے یہ بتائیں کہ انھوں نے دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد جرنل محمود کو کیوں نا پوچھا؟ تب ان مجرموں کے نام قوم کو کیوں نہیں بتائے؟

شاید نواز شریف صاحب قوم کو یہ بتانا بھول گئے کہ وہ اپنے خاندان سمیت ڈیل کر کے سیاست کو خیر آباد کہہ کر پاکستان چھوڑ گئے۔ اور پیچھے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے نوجوان بیٹے کو ایک ڈکٹیٹر کے پاس ظلم و ستم برداشت کرنے کے لئے گروی رکھ گئے۔

اس بار بھی نواز شریف صاحب اپنی نا اہلی کے بعد پاکستان سے چلے گئے اور الیکشن سے پہلے مریم نواز کے ساتھ واپسی اور چند ماہ کی جیل کے بعد دوبارہ علاج کے لئے پاکستان سے باہر چلے گئے اور واپس نہیں آئے اور شاہد ابھی ان کا واپسی کا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے وہی سے بیٹھ کر پارٹی چلا رہے ہیں۔

نواز شریف اور مریم نواز میڈیا والوں کو طعنے دیتے ہیں کہ ہے کسی میں جرت جو ہمارے بیانات ٹی وی پر دکھا سکیں۔

کیا نواز شریف صاحب کو اپنی حکومت میں الطاف حسین کی پاکستان کے میڈیا اور سیاست میں مداخلت پر پابندی ووٹ کو عزت دو اور سویلین سپریمیسی کے خلاف نہیں تھی؟ ان کی حکومت میں روز اعلانات کیے جاتے تھے کہ انھیں انٹرپول کے ذریعے واپس لایا جائے گا۔ اور آج یہ وقت ہے کہ نواز شریف خود ملک سے باہر ہیں اور پاکستان میڈیا انھیں ٹی وی پر نہیں دکھا سکتا۔ شاید ہم اسی کو مکافات عمل کہتے ہیں۔

بہرحال اب نواز، شہباز کا گڈ کاپ بیڈ کاپ والا چورن نہیں بکے گا۔

اب ان کے خاندانی اختلافات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو فیصلے جلد اور واضح کرنے ہوں گے۔ بات اب ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ اور اس سے پارٹی میں انتشار پیدا ہو رہا ہے۔

نواز شریف تو پہلے ہی سیاست سے آؤٹ ہو چکے اور مریم نواز کے مستقبل کا فیصلہ بھی سر پر لٹکتی تلوار سے کم نہی۔ اگر انھوں نے آئندہ آنے والے الیکشن سے پہلے اپنی خاندانی تخت اور وراثت کی جنگ ختم نا کی تو پھر نا صرف پنجاب واپس لینے کا خواب ادھورا رہ جائے گا بلکہ اپنی اس مسلم لیگ نون کو بچا پانا بھی ناممکن ہو جائے گا۔

کیونکہ نا ہی تو نواز شریف بھٹو ہیں جو پاکستان سے باہر بیٹھ کر تاریخ میں آمر ہو جائیں گے۔ اور نا ہی مریم نواز بے نظیر ہیں جنہوں نے تن تنہا اکیلے اپنے بل بوتے پر نا صرف سیاسی جدوجہد کی بلکہ اپنی پارٹی کو اپنی بہادری اور سیاسی تدبر سے زندہ اور کامیاب رکھا اور اسی وطن کی مٹی میں اپنا لہو بہا کر قربان ہو گئی۔

کاش بھٹو اور بے نظیر بھی نواز شریف اور مریم نواز کی طرح سمجھدار سوچ رکھتے کہ پہلے اپنی جان بچا لیں۔ اگر جان بچے گی زندہ رہیں گے تو ہی انقلاب لا سکیں گے۔ تبھی اپنی قوم کو غلامی سے نجات دلا سکیں گے۔ بھٹو بھی چاہتا تو زندہ رہ کر اقتدار اور پارٹی اپنی بیٹی بے نظیر کے حوالے کر سکتا تھا۔

لیکن وہ دونوں بے وقوف نکلے اپنی جان بچا کر نہیں بھاگے۔
شاید وہ بہادر لمحوں اور سالوں میں زندہ نہیں رہنا چاہتے تھے۔ وہ ظالم کے آگے جھکے نہیں، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے تاریخ میں امر ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments