کرپٹ زرداری ہے پکڑے علیم خان وغیرہ جاتے ہیں


جو شخص بھی سنہ 1988 سے پاکستانی میڈیا ملاحظہ کر رہا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ پاکستان کا کرپٹ ترین شخص آصف زرداری ہے۔ سنہ 1988 کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں میڈیا پر بتایا گیا کہ آصف زرداری ہر حکومتی کام میں دس پرسنٹ کمیشن لیتے ہیں۔ پھر جب 1993 کی پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو قوم کو بتایا گیا کہ اب ریٹ دس فیصد نہیں رہا، سو فیصد ہو گیا ہے۔ سنہ 2008 کی پیپلز پارٹی کی حکومت آنے پر بتایا گیا کہ اب حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ برطانوی وزیراعظم یا امریکی صدر وغیرہ آصف زرداری سے مصافحہ کرنے کے بعد اپنی انگلیاں گنتے ہیں کہ پوری ہیں یا کرپٹ آصف زرداری نے غائب کر دی ہیں۔

چند سیٹھ وغیرہ بھی سامنے آئے جنہوں نے قوم کو بتایا کہ آصف زرداری نے ان کی ٹانگ سے بم باندھ کر ان کی جائیداد ہتھیانے کی کوشش کی۔ باقی معاملات بھی میڈیا میں آتے رہے جن سے قوم کو پتہ چلا کہ نہ صرف آصف زرداری دنیا کے کرپٹ ترین شخص ہیں بلکہ پیپلز پارٹی بھی کائنات کی کرپٹ ترین جماعت ہے۔

پھر پانامہ پیپرز آ گئے۔ یہ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی والے تو کمال کے کرپٹ نکلے۔ نہ صرف یہ کہ ان پیپرز میں باقی سب بڑی جماعتوں کے نام آ گئے لیکن نہ آیا تو دنیا کے کرپٹ ترین لیڈر اور کائنات کی کرپٹ ترین جماعت کا۔ اور اب پنڈورا کا بکسا کھلا ہے تو اس میں پھر وہی معاملہ ہوا ہے کہ آصف زرداری کا نام نہیں ہے۔ لیکن شکر ہے کہ اس مرتبہ شرجیل میمن کا نام آ گیا ہے۔ چلو کوئی ایک بندہ تو سامنے آیا اس کرپٹ جماعت کا۔

اب بعض شدید محب وطن افراد کہیں گے کہ آصف زرداری کا نام اس لیے نہیں آیا کہ وہ لانچوں میں سونا اور ڈالر دبئی بھیجتے تھے۔ اور ساری کمائی وہ پاکستان میں فالودے والوں اور لچھے والوں کے اکاؤنٹ میں ڈال لیتے تھے۔ ادھر سے پتہ نہیں وہ پیسے کہاں جاتے تھے کہ نہ تو پانامہ پیپرز میں سامنے آئے نہ پنڈورا میں اور نہ ہی نیب یا ایف آئی اے کو مل سکے۔

دوسری طرف ان غیر ملکی طاقتوں کی بدمعاشی دیکھیں کہ کرپٹ لوگوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا، لسٹ میں ڈالا ہے تو ان کو کہ فرشتے جن کا دامن نچوڑیں تو وضو کریں۔ پانامہ میں ”نیازی سروسز لمیٹڈ“ کی آف شور کا نام ڈال کر کپتان کو بدنام کر دیا۔ وہ تو شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے نام صاف کر دیا کہ کپتان نے حق حلال کی کمائی سے یہ کمپنی بنائی تھی اور اس میں غبن، رشوت یا ٹیکس چوری کا پیسہ نہیں تھا اور جس وقت یہ معاملہ ہوا اس وقت وہ عوامی عہدہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ اور پاکستان کے رہائشی بھی نہیں تھے کہ یہاں ٹیکس دیتے۔

احمد نورانی چیختے ہی رہ گئے کہ یہ کمپنی اور اکاؤنٹ 2002 سے 2004 اور 2012 سے 2015 کے درمیان موجود تھے جب عمران خان ممبر اسمبلی تھے جبکہ نواز شریف کو جس زمانے میں تنخواہ وصول نہ کرنے پر نا اہل کیا گیا یعنی 2006 سے 2013 تک، اس زمانے میں وہ ممبر اسمبلی نہیں تھے۔ بہرحال احمد نورانی بھی پانامہ اور پنڈورا ٹیم کے ممبر ہیں ان کی بات پر کان نہیں دھرنا چاہیے۔

یہ تو اسحاق ڈار کے فرزند علی ڈار بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستانی رہائشی نہیں تو پاکستانی ٹیکس ادا کرنا ان کا مسئلہ نہیں۔ صاحب یہی موقف حسن اور حسین نواز کا بھی ہے۔ دیکھیں وہ جو مرضی صفائی دیں یا قانونی نکتہ اٹھائیں، ہمیں یقین ہے کہ وہ کرپٹ ہیں کیونکہ وہ عمران خان نہیں۔

اب پنڈورا پیپرز میں دیکھ لیں۔ آصف زرداری کا نام ڈالا نہیں اور کہہ دیا کہ علیم خان، شوکت ترین، مونس الہی، خسرو بختیار، اور فیصل واؤڈا نے آف شور کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں۔ اب یہ لوگ لاکھ کہیں کہ آف شور کمپنی بنانا غیر قانونی نہیں بلکہ انہیں ٹیکس کے کاغذوں میں چھپانا غیر قانونی ہے، مگر کون سنتا ہے۔ علیم خان تو بتا بھی رہے ہیں کہ انہوں نے ٹیکس میں ذکر کیا ہے۔

مگر صاحب یہ ظالم میڈیا کہاں ایسی باتوں پر کان دھرتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ہی میڈیا نے شور مچایا ہوا تھا کہ علیم خان کے سما ٹی وی خریدنے کی پیمرا نے غیر قانونی طور پر منظوری دے دی ہے۔ بی بی سی نے کیسے دھڑلے سے لکھ دیا کہ ”سما ٹی وی کے ذمے کروڑوں کے واجبات باقی ہیں اور پیمرا قوانین 2009 کے مطابق کسی بھی چینل کے سو فیصد شیئرز یا ملکیت کی منتقلی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس کے تمام واجبات ادا نہیں کر دیے جاتے“ ۔ یہ بھی لکھا کہ ”پیمرا قوانین کے تحت کسی بھی چینل کے سو فیصد شیئرز یا ملکیت اس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتی جب تک اس کے ذمے واجب الادا رقم ادا نہیں کی جاتی“ ۔ بہرحال علیم خان نے کہہ دیا کہ انہوں نے قانونی کام کیا ہے تو تمام دیگر لاہوریوں کی طرح ہم ان کی بات پر یقین کرتے ہیں کہ کیونکہ وہ کبھی غیر قانونی کام کرتے ہوئے پکڑے نہیں گئے۔

خیر مٹی ڈالیں پنڈورا بی بی پر۔ آئیے ولایتی دانش سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہمارا تجربہ ہے کہ ولایتی لطیفے ہمیشہ ولایتی کاغذات سے بہتر ہوتے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ فرانسیسی ماہرین نے پیرس میں ایک سو گز زمین کھودی تو انہیں ایک ہزار برس پرانے تانبے کے کچھ تار ملے اور انہوں نے نتیجہ نکالا کہ قدیم فرانسیسی اتنے زیادہ ترقی یافتہ تھے کہ ہزار برس پہلے پیرس میں ٹیلی فون نیٹ ورک بنایا جا چکا تھا۔ انگریزوں کو یہ خبر ملی تو انہیں نے لندن میں دو سو گز زمین کھود ڈالی اور بیان دیا کہ لندن میں دو ہزار برس قدیم آپٹک فائبر کیبل کے آثار ملے ہیں اور قدیم انگریز اتنے زیادہ ترقی یافتہ تھے کہ وہ آپٹک فائبر استعمال کیا کرتے تھے۔

یہ خبر پا کر آئر لینڈ والوں نے سوچا کہ ہمیں بھی تحقیق کرنی چاہیے۔ انہوں نے ڈبلن میں سو گز زمین کھودی، کچھ نہیں ملا، دو سو گز کھودی کچھ نہیں ملا، پانچ سو گز زمین کھود ڈالی لیکن انہیں کچھ نہیں ملا۔ ان کی حکومت نے اعلان کیا کہ پانچ سو گز زمین کھود کر بھی ڈبلن میں نہ تو تانبے کے تار ملے ہیں اور نہ ہی آپٹک فائبر۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قدیم آئرش باشندے اتنے زیادہ ترقی یافتہ تھے کہ وہ موبائل فون استعمال کیا کرتے تھے اور وہ لینڈ لائن کے محتاج نہیں تھے۔

تو صاحبو، ان پانامہ اور پنڈورا کاغذات میں آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے کوئی آثار نہیں ملے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آصف زرداری پاکستان کے اور پیپلز پارٹی کائنات کے کرپٹ ترین عناصر ہیں کیونکہ وہ کرپشن میں اتنے ماہر ہیں کہ کہ کسی کو خوب کھدائی کر کے بھی ان کی کرپشن کا ثبوت ہی نہیں ملتا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments