جبری تبدیلی مذہب :سیاست کی صلیب پر لٹکا ایک انسانی المیہ


23 ستمبر 2021 کو وزارت مذہبی امور و بین الامذاہب ہم آہنگی نے وزارت انسانی حقوق کے جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے ڈرافٹ بل پر اعتراضات لگا کر واپس کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے کہا کہ ان کی وزارت کو 18 سال عمر، جج کے سامنے گواہی اور سوچ بچار کے لئے 90 دن کا وقت دینے کی شرائط پر اعتراض ہے۔ وزارت انسانی حقوق نے یہ ڈرافٹ بل ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر مرتب کیا تھا، جو 2019 میں وزیراعظم نے قائم کی تھی اور جس کا مقصد ہی مذہبی اقلیتوں کو جبری تبدیلی مذہب سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔ پھر جولائی میں وزارت مذہبی امور نے اصرار کیا کہ وزارت انسانی حقوق یہ ڈرافٹ اسے بھیجے تاکہ قادری صاحب کی وزارت اس پر اپنی رائے دے سکے حالانکہ وزارت مذہبی امور کمیٹی کا بھی حصہ تھی اور وہ کمیٹی میں اپنی رائے دے چکے تھے۔ تو سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ ڈرافٹ کیوں مانگا گیا؟

حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے، کمیٹی کے ایک رکن لال چند ملہی نے ٹویٹ کیا، ”بدنام میاں مٹھو سے گفتگو کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور نے جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے ایک بل پر اعتراض کیا ہے“ ۔ میاں مٹھو سندھ میں نو عمر ہندو لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور زبردستی شادیاں کروانے کے لئے مشہور ہے۔ تحریک انصاف کے بعض حلقے اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ پارٹی چیئرمین عمران خان نے اسے اس معاملے میں ملوث ہونے کی وجہ سے پارٹی سے نکالا۔

2016 میں جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو انھوں نے عمرکوٹ، سندھ میں اپنی ایک تقریر میں واضح طور پر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی بچیوں کی جبری تبدیلی مذہب کی مذمت کی۔ انھوں نے کہا ”مجھے یہ اتنا افسوس ہوتا ہے کہ ہندووں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ یہ سندھ میں ہندو بچیوں کے ساتھ جو کر رہے ہیں وہ شرمناک ہے۔ یہ انھیں جبری طور پر اسلام قبول کروا رہے ہیں۔ پتہ نہیں یہ کون سا ثواب حاصل کر رہے ہیں۔ انھیں نہیں پتہ جب یہ زبردستی لڑکیوں کو اسلام قبول کرواتے ہیں تو یہ قرآن کے خلاف جاتے ہیں۔ ہندو سندھ سے ہندوستان جا رہے ہیں۔“ لال چند ملہی نے اس ویڈیو کلپ کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ”جبری تبدیلی مذہب کو ثابت کرنے کے لئے ہمیں کسی سند کی ضرورت نہیں جب میرے قائد نے اس کی واضح مذمت کی ہے“ ۔

علاوہ ازیں، وزارت مذہبی امور و بین الامذاہب ہم آہنگی صرف اسلامی امور کی وزارت نہیں ہے، یہ ملک میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کی بھی وزارت ہے مگر اس نے اپنے جائزے میں کسی اقلیتی نمائندے سے رجوع نہیں کیا جبکہ معاملہ خاص اقلیتوں سے متعلق ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ قومی کمیشن کے ارکان اور اس کے سربراہ چیلا رام کو بھی مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ مگر کمیشن کے ایک مسلمان رکن مفتی گلزار نعیمی جو اپنے شدید خیالات کے لئے مشہور ہے اسے شامل کیا گیا۔

معروضی طور پر وزارت مذہبی امور نے ڈرافٹ بل پر مندرجہ ذیل اعتراضات اٹھائے ہیں ؛ اول یہ کہ ڈرافٹ بل میں لکھا ہے کوئی غیر مسلم جو بچہ نہیں ہے اور ایک دوسرا مذہب اپنانے کے قابل اور اس کے لئے رضامند ہے اسے علاقہ کے ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے تبدیلی مذہب کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے درخواست جمع کروانی ہوگی۔ درخواست میں اس کا نام، عمر، جنس، شناختی کارڈ نمبر؛ والدین، بہن بھائیوں، بچوں اور شریک حیات (اگر ہو) کی تفصیل؛موجودہ مذہب اور مذہب تبدیل کرنے کی وجہ درج کرنا ہوگی؛دوم درخواست وصول ہو نے کے سات دن کے اندر جج کو درخواست دہندہ کا انٹرویو کرنے کے لئے تاریخ مقرر کرنا ہوگی۔ انٹرویو والے دن جج کو یہ اطمینان کرنا ہو گا کہ تبدیلی مذہب کسی جبر، دھوکہ دہی یا غلط بیانی کے زیراثر تو نہیں ہو رہی ؛سوم جج غیر مسلم شخص کو 90 دن کا وقت دے سکتا ہے جس میں وہ مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرے۔ ہر طرح سے اطمینان کر لینے کے بعد جج تبدیلی مذہب کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔

بادی النظر میں مندرجہ بالا اقدامات پر اعتراض اقلیتوں سے خوف اور نفرت کا اظہار ہے۔ اسی لئے ادارہ برائے سماجی انصاف کے چیئرپرسن وجاہت مسعود نے کہا ہے کہ ”وزارت مذہبی امور کا موقف بظاہر غلط فہمی یا مغالطوں پر مبنی ہے۔ ورنہ متعلقین اس بات کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں کہ وزارت انسانی حقوق کی جانب سے تیار کردہ مسودہ بل عام شہریوں کی مذہبی آزادی کو مجروح کرنے کی بجائے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچیوں کے جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کی کوشش ہے۔ یہ مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ انصاف اور حقوق کا معاملہ ہے۔ وزارت مذہبی امور کو اقلیتوں کے خلاف جبری تبدیلی مذہب جیسے بدترین جرائم سے تحفظ کے لئے حق کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ تاریخ میں اسے اچھے لفظوں میں یاد کیا جائے۔ “

پیپلز کمیشن فار میناریٹیز رائٹس کے چیئرپرسن پیٹر جیکب نے کہا ہے کہ ”اقلیتیں برسوں سے جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کے ہاتھوں نقصان اٹھا رہی ہیں، جو مذہب کو جرائم پر پردہ پوشی کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت اقلیتوں کے تحفظ کے لئے اپنے فرض کو نبھاتے ہوئے اس لاقانونیت کو روکے۔“

بہرحال جبری تبدیلی مذہب پر تشویش اس خطے کے لئے نیا رجحان نہیں ہے۔ اس مسئلے کو نمایاں کرنے لئے آل انڈیا مسلم لیگ نے دسمبر 1927 میں کلکتہ میں ایک قرارداد پاس کی۔ تاریخ دان غلام علی الانا کی کتاب ’پاکستان موومنٹ:ہسٹارک ڈاکومنٹس‘ کے مطابق مسلم لیگ نے مطالبہ کیا تھا کہ، ”ہر فرد یا گروہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دلیل یا دعوت کے ذریعے کسی دوسرے کو اپنے مذہب کی طرف تبدیل یا دوبارہ تبدیل کرنے پر راغب کرے۔ لیکن کسی فرد یا گروہ کو طاقت، دھوکہ دہی یا دیگر غیر منصفانہ ترغیبات سے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ نیز اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کا مذہب اس وقت تک تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے جب تک ان کے والدین یا سرپرست مذہب تبدیل نہ کریں۔ اگر اٹھارہ سال سے کم عمر کوئی فرد اپنے والدین یا سر پرست کے بغیر دوسرے عقیدے کے لوگوں میں گھرا پایا جائے تو اسے فوراً اس کے اپنے عقیدے کے لوگوں کے حوالے کرنا چاہیے ”۔ پس تقریباً ایک صدی پہلے مسلم لیگ نے تبدیلی مذہب کے لئے اصول وضع کیے ۔ پارلیمانی کمیٹی کو اپنی اگلی میٹنگ میں وزارت مذہبی امور کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے تاریخ سے مدد حاصل کرنی چاہیے۔

مزید برآں پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 20 تمام شہریوں کو اپنے مذہب کو ماننے، اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کا پر چار کرنے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس میں مذہب اور عقیدے میں تبدیلی کی آزادی بھی شامل ہے مگر وہ کسی جبر یا غلط ترغیبات کے نتیجے میں نہ ہو۔ پاکستان 1948 سے اقوام متحدہ کا رکن ملک ہے، انسانی حقوق کے عالمی منشور کا آرٹیکل 18 بھی مذہب کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اور اسے آزاد مرضی سے بدلا بھی جا سکتا ہے جبکہ کوئی مجبوری نہ ہو۔

شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی میثاق کا آرٹیکل 18 ( 4 ) اور حقوق اطفال کے بین الاقوامی میثاق کا آرٹیکل 14 ( 2 ) بچوں کے مذہب کے انتخاب کا حق والدین کو دیتا ہے جب تک وہ اٹھارہ سال کے نہ ہو جائیں۔ پاکستان ان دونوں معاہدوں کی تصدیق کر چکا ہے۔ لہٰذا ڈرافٹ بل بچے کے مچیور ہونے (Sui Juris) کی تصدیق جوڈیشل فورم سے کروا کر عالمی معیارات کے مطابق ہونے کی تجویز دے رہا ہے۔ ڈرافٹ بل کے مطابق جب بچے کے والدین یا سرپرست خاندان سمیت مذہب تبدیل کریں تو ایک بچے کا مذہب تبدیل ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 498۔ Bکے مطابق جبری شادیوں کی ممانعت کرتے ہوئے، غیر مسلم عورت اور کمسن بچی سے شادی کی کم ازکم سزا پانچ سال قید اور جرمانہ ہے۔ تاہم جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے مخصوص قانون سازی کی پہلے بھی مخالفت کی گئی ہے۔ دو بل بالترتیب 2016 اور 2019 میں پیش کیے گئے لیکن وہ انھیں افراد اور گروہوں کی وجہ سے واپس ہو گئے جو آج کل پھر سر گرم عمل ہیں۔ پچھلے سال ستمبر میں مذہبی امور و بین الامذاہب ہم آہنگی کی سٹینڈنگ کمیٹی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بل 2020 رد کر دیا جس میں جبری تبدیلی مذہب کا موضوع بھی شامل تھا۔ ان تمام بلوں میں تبدیلی مذہب کے لئے اٹھارہ سال عمر، تبدیلی کے لئے باقاعدہ طریقہ کا طے کرنے اور زبردستی کرنے والوں کے لئے سزا کی سفارشات تھیں۔ حالیہ سالوں میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات کی رپورٹنگ مسلسل ہو رہی ہے لیکن حکومتوں کا تسلی بخش جواب سامنے نہیں آ رہا۔ جس کی بڑی وجہ وزارتوں کے آپس میں اتفاق کا فقدان، اور مذہبی رہنماوں اور گروہوں کی بلاوجہ مداخلت ہے۔ قوم کے سامنے یہ سوال ہیں ؛ کہ قانون سازوں کو جبری تبدیلی مذہب کی تعریف کرنے کے لئے اور کیا درکار ہے؟ مزید کتنی کمسن بچیوں کو اغواء اور جبری تبدیلی مذہب کا سامنا کرنا ہے؟ کیا تبدیلی مذہب کی چھتری تلے ریپ قابل قبول ہے؟ بچیوں کی عمر کی آزادانہ تصدیق کے لئے اور کتنا وقت چاہیے؟ پسماندہ طبقات کے انسانی حقوق کی مزید کتنی پامالی ہو گی؟ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جبری تبدیلی مذہب کے ساتھ متعدد دیگر جرائم مثلا ہراسانی، اغواء، جبری شادی، کمسنی کی شادی، ریپ، گینگ ریپ، جبری جسم فروشی اور طاقت کا بے جا استعمال جڑے ہوئے ہیں۔ مزید برآں، اقلیتی بچیوں کو بلا خوف سزا، اغواء کر کے، زبردستی اسلام قبول کروایا جاتا ہے اور غیر قانونی طور پر بچی سے کئی گنا بڑی عمر کے مسلمان مرد سے شادی کروائی جاتی ہے اس میں کئی عوامل شامل ہیں جن کا تعلق ہمارے نظام انصاف کے اندر پائے جانے والے بگاڑ سے ہے۔ پولیس اور جوڈیشل افسران کی غفلت، پیچیدہ بلکہ ملزم کے ساتھ معاندانہ رویے متاثرہ پارٹی کو بڑی مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ متاثرین اور ان کے اہل خانہ بہت زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں اور کیس کو رپورٹ کرنے سے حد درجہ گریزاں ہوتے ہیں۔ جبری تبدیلی مذہب کی روش نے امتیازی قوانین اور معاشرتی تعصبات کے ساتھ مل کر مذہبی اقلیتوں کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ بلاشبہ، جبری تبدیلی مذہب انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب بھی جبری تبدیلی مذہب کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے حکومت اس پر قانون بنانے کے اپنے وعدے کا اعادہ کرتی ہے مگر پھر کچھ عناصر کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری سے گریز کر جاتی ہیں۔ اب جبکہ وزارت انسانی حقوق نے اس بدصورت عمل کو روکنے کے لئے ایک اچھا بل ڈرافٹ کیا ہے، تمام فریقین کو اسے پاس کرنے میں تعاون کرنا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کو مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے مضبوط قانون سازی کرنی چاہیے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس سے پاکستان کا وقار اپنے شہریوں کی نظر میں بھی بلند ہو گا اور بین الاقوامی سطح پر بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments