کائناتی گرد میں عریاں شام۔۔۔ ایک نفسیاتی مطالعہ


\"\" ڈارون کے پیش کردہ نظریات نے ابھی انسان کو اپنی تخلیق کے بارے میں تشکیک کا شکار کیا ہی تھا کہ بیسویں صدی میں پھوٹنے والی پہلی جنگ عظیم نے مرکزیت کی جگہ لامرکزیت کا طوفان لا کھڑا کیا۔ ہر طرف لاشیں دیکھنے اور چیخ پکار سننے کے بعد وہ یہ سوال کرنے پر مجبور ہوا کہ خدا کہاں ہے؟ وہ خدا جو انسان کو رنج و الم اور ہر قسم کے مصائب سے تحفظ دیتا ہے۔ عقیدہ پر پڑنے والی اس زوردار ضرب نے انسان کو اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کر دیا۔
کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھنے کے بعد صرف رنج و الم ہی کیوں بچتا ہے؟ یہ وہ سوال تھا جن کا جواب پانچ سو قبل مسیح میں لکھی جانے والی سوفوکلیس کی تحریروں سے مل سکتا ہے۔ جہاں اس نے انسانی المیے کو پیش کیا، وہیں جنس کی بھی نئی جہتیں متعارف کرائیں۔ جنس، جس کی خاطر دنیا میں انسان نے پہلی بار قتل کیا۔ بیسویں صدی میں فرائیڈ اور کارل جنگ کے اڈیپس اور الیکٹرا پر لکھے گئے مضامین نے سوفوکلیس کے المیوں کی تشریح نفسیاتی سطح پر کی تو انسان جس نے ابھی اپنے اندر جھانکنا شروع ہی کیا تھا، اسے گویا ایک نئی ڈور ہاتھ آ گئی۔ خارج سے داخل کا یہ سفر شروع ہوا تو اسے احساس ہوا کہ اندر کی دنیا باہر کی دنیا سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ مسرت اور غم کے نئے پہلو آشکار ہوئے۔ خود اذذیتی اور خود لذتی کی آگاہی نے انسان کو اس کے وجود اور اس کی ضروریات سے متعارف کروایا۔

دوسری طرف جب بنیادی عقیدہ پر شک کی ضرب پڑی تو اس کے ساتھ ہی انسان پر لگائی گئی مذہبی معاشی، معاشرتی اور سماجی پابندیوں پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہوئے۔ انسان نے ان تمام بیڑیوں کو مسترد کرنا شروع کر دیا جو اس کی خوشی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث تھیں۔ بنیادی عقائد پر پڑنے والی چوٹ نے جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا، وہیں ادب پر بھی دور رس نتائج مرتب کیے۔ شاید یہی وہ اثرات تھے جو نظم کی ایک بہت بڑی روات ایپک سے انحراف کا سبب بنے اور نظم کے میٹرز، سٹرکچر اور رائم سکیمز کو یکسر نظرانداز کر کے جدید نظم کی بنیاد رکھی گئی۔ جدید نظم جہاں اپنی ساخت میں روایتی نظم سے منفرد ہے وہیں وہ روایتی اصولوں اور نظریات پرجدید عہد کے انسان کا سوال بھی ہے۔

\"\"انسان جہاں بھی رہے، اس کے مسائل اور اس کی سوچیں دوسرے انسانوں سے ملتی ہیں۔ انگریزی ادب میں پلنے والی جدیدیت اور وجودیت کی لہر اگر اردو ادب پر اپنے اثرات نہ بھی ڈالتی تو بھی یہاں میرا جی اور راشد جیسے شعرا کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔میرا جی اور راشد نے بقول ڈاکٹر رشید امجدکرم خوردہ اخلاق کی جھوٹی قدروں والی خستہ دیواروں کو ڈھانا اور حالیؔ کے سائے میں پلی ہوئی پود کے چہرے سے چھلکا اتارنا شروع کیا۔ درحقیقت یہی وہ شعرا تھے جنہوں نے نظم کو روزمرہ موضوعات اور اخلاقی باتوں سے نکال کر حیات و کائنات کے مسائل سے روشناس کرایا۔انگریزی زبان اور ادب پر ان کی گہری نظر تھی انھوں نے وہاں سے ایک چیز جو بطورِ خاص برآمد کی وہ شعور کی رو کی تکنیک ہے۔جدید نظم کا تجربہ انگریزی ادب سے ہی آیا تھا میرا جی نے اسے ہندوستان کی مقامیت میں گوندھ کر اردو کی مستقل اور جاندار صنف بنادیا۔

میرا جی کی نظم کی بنیادی وجہ ان کی محبت میں ناکامی ہے اور اس ناکامی سے پریشان ہو کر وہ جنس میں پناہ لیتے ہیں۔ ان کے ہاں جنس کا تصور کچلا ہوا ہے۔ جنسی ناآسودگی کے سائے ان کی شخصیت اور شاعری دونوں سے نمایاں ہیں۔ جنسی گھٹن کے مظاہر ان کی شاعری میں جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ سرگوشیاں سرسراہٹ اسی قبیل کی نظمیں ہیں۔

راشد کی شاعری کی ابتدا اگرچہ میرا جی کی طرح جنس سے نہ ہوئی، مگر انہوں نے جنسی موضوعات کو اپنی \"\"شاعری کا حصہ ضرور بنایا۔ جنس کے معاملے میں انہوں نے چونکا دینے والی صاف گوئی سے کام لیا۔ باطنی سطح پر اٹھنے والی جنسی تحریکیں ان کی شاعری میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان کی نظمیں”ہونٹوں کا لمس” “ انتقام” اور” اے مری ہم رقص” جنسی جذبے کی فراوانی سے بھری ہوئی ہیں۔ راشد نے جنس کو شجر ممنوعہ کے درجے سے نکال کر حقیقی مسرت کی بنیاد بنایا۔ مصطفی زیدی کی اپنی محبوبہ شہناز پر لکھی گئی نظمیں بھی جنسی موضوعات کے نئے دریچے وا کرتی ہیں۔

فہمیدہ ریاض کا تذکرہ بھی میں یہاں ضروری سمجھوں گا کیونکہ اب سے پہلے نظم میں جنس کا اتنا بے باکانہ اظہار نہ ہوا تھا جتنا فہمیدہ ریاض کی نظموں “لاؤ اپنا ہاتھ لاؤ ذرا” “باکرہ” “ زبانوں کا بوسہ” اور اس جیسی دیگر نظموں میں سامنے آیا۔۔لذت کوشی ان کی نظموں کا بھی خاص موضوع ہے۔ تاہم ان کی جنسی شاعری کا نمایاں وصف نسائیت ہے جس پر چلتے ہوئے وہ انتہائی تلخ ہو جاتی ہیں۔

زاہد امروز اسی روایت کا حصہ ہے۔ کائناتی گرد میں عریاں شام زاہد کی نظموں کا وہ مجموعہ ہے جس میں جنس پر لگائی گئی معاشی، معاشرتی، سماجی، اور مذہبی پابندیوں کے خلاف احتجاج شامل ہے۔ ان نظموں میں اذیت کوشی بھی ہے اور خود لذتی بھی۔ رنج بھی ہے اور مسرت بھی۔ جدید شاعر ہونے کے ناطے انہوں نے اپنی نظموں میں ان تمام پابندیوں کو اکھاڑ پھینکا ہے جو ان کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ انسانی ذہن کی گہرائیوں میں جھانکتی ہوئی یہ نظمیں شعور اور لاشعور کی نئی جہتیں تلاش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے ستعارے نئے اور تازہ ہیں۔ زبان سادہ اور صاف ہے مگر نظمیں جدید انسان کے مسائل کی طرح پیچیدہ۔ بظاہر سادہ نظر آنے والی نظم تہ بہ تہ نئے مفاہیم کھولتی نظر آتی ہے۔

زاہد امروز کی نظموں میں لاشعور میں پلنے والی کون سی تحریکیں بیان کی گئی ہیں؟ اس کا جواب خود ان کی اپنی نظموں “میں اسے خشک کپڑے پہننے سے پہلے ملوں” “نیم وحشی دنیا میں عقلمند اجنبی” اور “اس شیطان کو کیسے ماروں جو آدمی کا قتل کرتا ہے” میں موجود ہے۔ان منظومات کے عنوانات ہی اپنی وضاحت آپ ہیں۔

میں اسے خشک کپڑے پہننے سے پہلے ملوں میں ان اولیں جذبات کا تذکرہ ہے جو آگے چل کرNeurosis کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے لذت کی نادیدہ جڑیں اگتی ہیں۔ محبوب کو تن برہنہ دیکھنے کی خواہش اور جرم کے افشا ہونے کا خدشہ وہ لاشعوری عوامل ہیں جن کو اگر مناسب راستہ نہ دیا گیا تو وہ کسی بھی لمحے جسم اور روح کے پرزے اڑاسکتی ہیں۔

نیم وحشی دنیا میں عقلمند اجنبی بھی انسانی زندگی کی اس Phallic Stageکو ظاہرکرتی ہوئی ایک نظم ہے جہاں ایک انسان اپنی شناخت کے اولین مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ وہ زندگی کے نئے حقائق اور سرشاریوں اور محرومیوں سے آگاہی حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ یہ عمر کا وہ حصہ ہے جہاں انسان کو اپنے جسم سے حاصل ہونے والی مسرتوں سے آگاہی حاصل ہونا شروع ہوتی ہے۔

میں بالوں سے بھرا اپنا نیم حیوانی جسم دیکھتا ہوں
اور سرد پانی کی جھیل میں نہاتے ہوئے
مچھلیوں سے دوستی کی خواہش کرتا ہے۔

“اس شیطان کو کیسے ماروں جو آدمی کا قتل کرتا ہے”۔ یہ نظم اپنے آغاز سے ہی اڈیپس اور الیکٹرا کمپلیکس کی نشاندہی کرتے دکھائی دیتی ہے۔

“تبدیلی کا موسم آیا اور مجھ پر بور آ گیا”

اور اس کے بعد میں آنے والی سطور بھی Phallic Stageکی نمائندہ ہیں جہاں جذبات پہلی بار سر ابھار رہے ہوتے \"\"ہیں اور انسان اپنے اور مخالف صنف کے اعضا سے حاصل ہونے والی آسودگی اور تکلیف سے واقفیت حاصل کر رہا ہوتا ہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ اس کتا ب میں بنیادی مسئلہ آسودگی کا ہے اور وہ بھی جنسی آسودگی۔ لیکن کیا یہ آسودگی محض وحشت کو مٹانے کے لیے اور جسمانی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہو یا ایک ایسی آسودگی جس میں جسم کے ساتھ ساتھ ذین اور روح کی طمانیت بھی شامل ہو۔نظم “جب مجھے لمس کی خواہش ہوتی ہے” میں شاعر نے خود انتہائی واضح الفاظ میں اس خواہش کا بے باکانہ اظہار کیا ہے کہ وہ دوسری قسم کی آسودگی کا خواہاں ہے۔

مجھے تمھاری دھوپ میں لیٹنا ہے
ضرورت کے زندہ قبرستان میں تو
میں کئی عورتوں کے ساتھ سو سکتا ہوں
(جب مجھے لمس کی خواہش ہوتی ہے)

جدید عہد کا انسان ہر قسم کی پابندی سے آزادی چاہتا ہے۔ اب وہ پابندی چاہے مذہبی ہو، معاشی ہو، معاشرتی ہو یا کچھ بھی ہو، وہ یہ بیڑیاں اپنے پاؤں سے اتار پھینکنا چاہتا ہے۔ آسودگی اس کی خواہش ہے اور اس خواہش کے لیے وہ کسی پابندی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ یہاں دو صورتیں ہیں۔

اول؛ معاشرتی اور مذہبی پابندیاں اس کے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ نتیجتا اس کو اپنی خواہش سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔ یہ دست برداری ایک قسم کی بے بسی ہے جو غصے، بے چینی اور نفرت جیسے جذبات کو جنم دیتی ہے۔

دوم؛ اگر وہ تمام پابندیوں کو توڑ کر اپنی آسودگی کا سامان کر بھی لیتا ہے تو اس آسودگی کے اختتام پر دوبارہ وہ نا آسودگی کی منزل پر آن پہنچتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں وہ ناکام ٹھہرتا ہے۔
دونوں صورتوں میں اپنی انا اور اپنے غصے کے اظہار کے لیے وہ Ego Defense Mechanismکا سہارا لیتا ہے مثلا دروازے کو زور سے بند کرنا، کسی چیز کو اٹھا کر پھینکنا۔ تلخ الفاظ کا استعمال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ڈیفنس میکانزم پر لکھی گئی ایک نظم “میرا غصہ کہاں ہے” میں شاعر نے محبوب کی بے وفائی پر پلنے والے غصے کا اظہار جنسی جذبے کے تحت کیا ہے۔ اس نظم کو راشد کی “ انتقام” کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے

“مجھے بتاؤ
میرا غصہ کس شیر کے بدن میں جھرجھراتا ہے
میری آگ کس عقاب کی آنکھوں میں کپکپاتی ہے
جسے تمھاری ہنسی، تمھارے دل
اور تمھاری دھوکے باز ناف میں انڈیل سکوں

جنس انسان کی بنیادی جبلتوں میں سے ایک ہے۔ جنسی آسودگی کو محض جسم کی آسودگی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ ذہنی اور روحانی آسودگی بھی اس میں برابر کی حصہ دار ہیں۔روحانی بالیدگی کے بغیر جسمانی تسکین کا کوئی فائدہ نہیں۔غیر متوقع بچے کی موت ایک ایسے معاشرے میں لکھی گئی نظم ہے جہاں ذہنی آسودگی اور جنسی آسودگی دو الگ موضوعات ہیں۔ دونوں کے الگ الگ معنی اور دنیائیں ہیں۔ یہاں لمس ہمیشہ محبت کو ترستے ہیں اور دو نفوس اپنی وحشت کو نپٹانے کے بعد اگلے پڑاؤ کو روانہ ہو جاتے ہیں۔

“یہ ملک بن مانگے بچوں سے بھرا پڑا ہے جن کی ماؤں کو کبھی مخلص مرد نہیں ملا”

نظم کی آخری لائن میں لفظ بے ارادہ مدہوشی آسودگی کی صرف ایک سطح کو بیان کر رہا ہے جو صرف جسمانی ہے اور جس میں ذہنی اطمینان کی بجائے کرب اور تکلیف کا عنصر ہے۔ گویا جسمانی ضرورت کو پورا کرتے وقت یہاں ذہنی اور روحانی خوشی کا خیال نہیں رکھا گیا۔
“اس محبت کا کیا مصرف” بھی اسی موضوع پر لکھی گئی نظم ہے جس میں یہ موقف زیادہ واضح انداز میں بیان ہوا ہے۔

“ریشمی ارمانوں میں قید بانجھ عورتوں کا کوئی مصرف نہیں
جن کے مردوں نے صرف وارث کے لیے جسم خریدے؟؟
وحشت میں چبائے ناخنوں کا اب کیا مصرف؟

انسانی زندگی کا ہر دور ایک نفسیاتی دور ہے جہاں اس کے جسم میں مختلف جنسی تحرکات پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے انسان بڑا ہوتا ہے، تو جسم کے مختلف حصے ایک مخفی احساس محرومی یا آسودگی کے لحاظ سے اہمیت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ زندگی انہی محرومیوں اور خوشیوں کے گرد گھومتی ہے۔انسانی جسم میں پیدا ہونے والی ایک جنسی تحریک Libido کی افزائش سے ذہنی تناؤ اور اس کے ڈسچارج ہونے سے خوشی پیدا ہوتی ہے۔لبیڈو ڈسچارج ہونے کے لیے ایسے حالات مانگتی ہے جو معاشرے کے لیے اخلاقی لحاظ سے قابل قبول ہوں۔

نظم “عریاں شام پہ کتے بھونکتے ہیں” اس معاشرے کا علامتی اظہار ہے جہاں جنس کو ایک ممنوع چیز خیال کیا جاتا ہے۔یہ نظم شعور اور لاشعور کے بابین ہونے والی جنگ کی عکاس ہے۔ لاشعوری تحریکوں کی Gratification ایک معاشرے میں قابل قبول ہو نہ ہو، پھر بھی یہ تحریکیں کسی نہ کسی طور اپنا راستہ نکال لیتی ہیں، فطری نہ سہی، غیر فطری ہی سہی۔ ایسی صورت میں شہر کی آٹھویں منزل پر مدہوش پڑے دو امرد پرستوں کا ملنا کوئی حیران کن بات نہیں۔

نظم کے اگلے ہی بند میں دو عورتوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جن میں سے ایک سیاہ برقعے میں اور دوسرے سفید بستر پر عریاں۔یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے موسم سرما کی خنک آلود رات میں آگ کا الاؤ جل رہا ہو مگر اس کو سینکنے کی اجازت نہ دی جائے۔

نظم میں صرف معاشرتی رکاوٹوں کا ذکر نہیں، یہاں اس نقطر نظر کا بھی تذکرہ ہے جہاں نفس کا قتل کر کے راہبانہ صورت اختیار کی جاتی ہے اور انسان کو ایک سرخوشی سے دور رکھا جاتا ہے۔ “ سجدے میں خصیوں کا بوجھ اٹھاتا ہوا آدمی” دراصلCastrationکے ایک عمل کی طرف اشارہ ہے جس کی اذیت سہنے کے بعد Sterilityکے ذریعے شعوری اور لاشعوری تحریکوں کے پر کاٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

نظم میں استعمال ہونے والے سیاہ اور سفید رنگ بھی انہی تحریکوں کے ترجمان ہیں۔ سفید پر سیاہ لباس پہنتی ہوئی رات اس امر کی طرف اشارہ ہے جہاں ہم حقائق سے نظر چرا کر لاشعور میں پلنے والی امپلسسز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ڈر، خوف اور شک جنسی آسودگی کی تحریکوں پر کیا اثر ڈالتے ہیں، اس کا اندازہ زاہد کی نظم \”قصہ ایک مینڈک کا\” سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ یہ نظم بھی معاشرے کے انہی رسوم و رواج پر ہے جہاں پیدا ہونے والی جنسی تحریکوں کو اپنا راستہ نہی ملتا۔ اس نظم میں جنس کے مرکزی خیال کے پس پردہ ایک ایسی لڑکی کا تذکرہ ہے جو ایک ایسے معاشرے میں رہتی ہے جوMale Dominant ہے۔جہاں مردوں کو آزادی حاصل ہے۔ وہ جس چشمے سے چاہیں سیراب ہو لیں مگر لڑکی معاملے میں ایسا نہیں۔ یہاں مرد جنسی تسکین کے لیے آزاد ہے۔ مگر عورت کے ساتھ ایسا نہیں۔جس مرد کے ساتھ اسے زندگی گزارنا ہے، جیلسی اس مرد کا خاصہ ہے۔ اوتھیلو کو تو صرف بہانہ چاہیے۔ Possessionمیں کسی قسم کا اشتراک اسے پسند نہیں۔ لیکن یہ جیلسی بذات خود اس کے اپنے اندر پوشیدہ ایک چور کی عکاسی ضرور کرتی ہے۔

“سب مردوں کی طرح اسے بھی باکرہ لڑکی چاہیے تھی”
“خواہش تھی کہ کسی نے اس کی منگیتر کو چھوا نہ ہو
کسی نے اس کے معبد میں جھانکا نہ ہو”
لیکن عورت اپنے اندر اٹھنے والی موجوں کے مقابل بے بس ہے، دوسری طرف بدنام ہو جانے کا خدشہ۔ نتیجتا
“تبھی وہ اپنے یاروں سے یہ وعدہ کرتی
پردے کے اس پار نہ جانا
چوری پکڑی جائے گی”

گویا اس نے اپنے وجود کے گرد جالا بن لیا۔اور اس جالے میں اپنی تمام خواہشوں کا گلا گھونٹ دیا۔ احساس محرومی نے اس کی شخصیت کا جو قلع قمع کیا سو کیا، مگر شوہر خوش تھا کہ پردہ قائم ہے اور عزت دائم ہے۔

آگہی ہمیشہ تکلیف دہ کیوں ہوتی ہے؟۔ زاہد امروز نے حقائق کے تکلیف دہ ادراک کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا ہے لیکن یہ موضوع بھی ان کے ہاں جنسی دروازے سے آیا ہے۔ حسین عورت کی خوش حال شادی ایک ایسی نظم ہے جس میں ہمارے معاشرے کے دوہرے معیار کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔جہاں انسانی جبلتوں کو مختلف رسوم و رواج سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اکیسویں صدی میں بھی ہمارے ہاں شادی کے وقت عورت کی مرضی نہیں پوچھی جاتی۔ نتیجتا دولہا اور دلہن کا ملاپ صرف جسمانی رہ جاتا ہے جسے شہوت کے ایک جوشیلے کھیل سے تشبیہ دی گئی ہے۔

دولہا اپنے نشے میں کھیلے
شہوت کا جوشیلا کھیل
اسے نہیں معلوم کہ اس کا
سرد بدن سے میل

یہ ان جذبات کی کہانی ہے جب رخصتی کے وقت ایک دلہن بظاہر اپنے ماں باپ سے بچھڑنے کے دکھ پر رو رہی ہوتی ہے، لیکن لاشعوری سطح پر ان آنسوؤں کے پیچھے کئی دوسرے عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ عمر بھر کی جمع پونجی اور کمائی کے لٹنے کا غم اپنی جگہ پر مسلم، لیکن کہیں کسی کونے میں کسی دوسرے شخص کے خواب بھی اس سیلاب کا باعث ضرور ہوتے ہیں۔ لڑکی بیٹی سے بہو بن جاتی ہے، دلہن بن کر بیٹھ جاتی ہے لیکن اس کا جسم سرد ہے۔ زندگی نام کی کوئی شے اس میں موجود نہیں کیونکہ شہوت کے اس جوشیلے کھیل میں نہ تو اس کا دل ملوث ہے اور نہ دماغ۔ شعوری سطح پر اس کا جسم موجود ہے مگر لاشعوری سطح پر وہ کسی اور کے خواب میں اپنے کپڑے اتار دیتی ہے۔

ابتر معاشرتی حالات جہاں زندگی کے دیگر شعبوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، وہیں وہ جنسی آسودگی راہ میں بھی بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔شہری روشنیوں میں وحشی خواب ایک ایسے شخص کا قصہ جو غم دوراں سے گھبرا کر جنس میں پناہ لینا چاہتا ہے مگر عین وقت پر کسی بم دھماکے کی آواز اس کی سوچوں کو منتشر اور منحرف کر دیتی ہے۔ اس نظم میں بھی شدید ذہنی کرب ہے۔ ایک ہیجان ہے جو کسی طور کم نہیں ہو رہا۔ اپنے ہم وطنوں کے دکھ اس شخص کوذہنی کرب میں مبتلا رکھتے ہیں۔ وہ شخص نہ تو ان سے پیچھا چھڑا سکتا ہے اور نہ ہی ان کو حل کر سکتا ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں اس کی اپنی شخصیت کا استحصال ہونا شروع ہوتا ہے اور وہ لڑکھڑاتا ہوا اپنے محبوب کے بدن میں جا گرتا ہے۔

میں تمام راستوں سے اپنا تعاقب کرتا ہوں
اور خواب لیے تمھارے بدن میں کود جاتا ہوں

جنسی تلذذ اسے زندگی کے مسائل سے دور اک جنت میں لے جاتا ہے جہاں اس کی سوچوں کا منتشر پن مجتمع ہونا شروع ہوتا ہے۔ نظم کا دوسرا بند اسی آسودگی و اطمینان کا نمائندہ ہے جو شاعر کو جنس سے حاصل ہے۔، ایک شانتی کا بار بار چومنا۔ روشنی کا بانہوں میں بھرنا، کوئی سمت اجنبی نہ ہونا۔ محسوس ہوتا ہے جیسے جنسی اطمینان تمام مسائل کا حل ہے۔ لیکن عین وقت پر ہونے والا دھماکہ شاعر کو دوبارہ اسی ذہنی کرب میں مبتلا کر دیتا ہے جہاں سے وہ چلا تھا۔ ایکسٹیسی کے عین عروج پر توجہ کا منحرف ہونا ایک ناقابل بیان ذہنی فالج اور نفسیاتی عارضے کا جنم دیتا ہے جس کو ظاہر کرنے کے لیے شاعر نے یہاں قبر اور وحشی خواب جیسے استعاروں کا سہارا لیا ہے۔ جدید عہد کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ انسان زیادہ دیر ایک کیفیت میں نہیں رہ سکتا۔ اور کیفیات کی یہی جلد تبدیلی اس کی شخصیت کی توڑ پھوڑ کی بھی ذمہ دار ہے۔

زاہد امروز کی نظموں پر اٹھنے والے ممکنہ سوالوں میں سے ایک بے باکانہ اظہار کا سوال بھی ہے۔ تاہم اس کے لیے ہمیں اردو ادب کی شعری روایت میں میرا جی، راشد، فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید وغیرہ جبکہ نثری ادب میں منٹو اور عصمت چغتائی کے نام کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ کلاسیکی شاعری میں میر جعفر زٹلی کا نام بھی اس حوالے سے ایک پیمانہ تصور کیا جاتا ہے۔ اگر یہ تمام نام اس الزام کی زد میں آتے ہیں تو زاہد کی شاعری میں میر جعفر زٹلی جیسا اظہار نہ سہی، لیکن راشد اور میرا جی سے کہیں زیادہ بے باکی موجود ہے، اور اگر اس روایت کو راستہ دیا جاتا ہے تو پھر یقینا زاہد داد کے مستحق ہیں۔

اس سے قطع نظر کہ اس کتاب کا اردو کی جنسی روایت میں کیا مقام ہو گا، انسانی ذہن کی گہرائیوں میں جھانکتی ہوئی نظمیں پڑھ کر یہ بات حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ یہ کتاب جدید نسل کے نفسیاتی مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کرنے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments