عامرلیاقت صاحب نجاشی سے ہی کچھ سیکھ لیں


\"\"

معروف ٹی وی اینکر جناب عامر لیاقت کے پروگرام ایسا نہیں چلے گا پر پیمرا نے پابندی لگائی تو انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت کی وجہ سے پیمرا نے مجھ پہ پابندی لگائی ہے۔ سبھی کو معلوم ہے کہ اس وقت بول چینل اور جیو چینل کا آپس میں مقابلہ جاری ہے اور کاروباری رقابت کی وجہ سے نام میرے نبیؐ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی قوم کے عشق رسولؐ کو استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مذہب کا ہتھیار ایسا ہے جسے لوگ آسانی سے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کاروباری رقابت میں استعمال مذہب کا کیا جا رہا ہے جو نہایت ہی افسوسناک ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ یہی عامر لیاقت جیو کے ساتھ اس وقت بھی تھا جب حامد میر پہ حملہ ہوا اس وقت تو وصیتیں لکھی جا رہی تھیں اور اب محب وطن اور عاشق رسولؐ بننے کی کوشش کر رہے ہیں اب بی بی فاطمہ اور مولا علی کا نام کیوں لیا جا رہا ہے؟ جس وقت قوالی چلی تھی اس وقت آپ کہاں تھے؟ اس وقت تو محبت اہل بیت نہیں جاگی اب کیوں اچانک جاگ اٹھی ہے؟ کروڑوں روپے جیو سے کما کے اب وہ گستاخ ٹھہر گئے؟ جب آئی ایس آئی کے خلاف پریس کانفرنس کی گئی اس وقت تو آپ ساتھ تھے اب وطن کی محبت کیوں جاگ اٹھی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آپ پہ قرض ہیں آپ ہمارے جذبات سے نہ کھیلیں اب یہ قوم آپ کی چالوں کو سمجھنے لگی ہے۔

میری اپنے سادہ لوح بھائیوں سے گزارش ہے کہ آپ کسی کے ہاتھوں استعمال مت ہوں ان لوگوں نے کل پھر اکٹھے بیٹھ جانا ہے بس یہ ہمیں استعمال کر رہے ہیں۔ مذہب کا کارڈ کھیل رہے ہیں حالانکہ ہم تاریخ دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے مذہب کا کارڈ مشرکین نے مکہ نے استعمال کرنے کی کوشش کی تھی جو ناکام ٹھہری۔ عامر لیاقت صاحب میں چاہتا ہوں آج آپ کو اور اپنے پڑھنے والوں کو ہجرت حبشہ کا تھوڑا سا منظر دکھاؤں پھر آپ اور میرے پڑھنے والے فیصلہ کریں کہ آج آپ کہاں کھڑے ہیں؟

جذبات سے ہٹ کر ایمانداری کیساتھ پڑھنا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے چاہنے والوں پہ جب سرزمین مکہ تنگ کی گئی تو آپ نے اپنے پیاروں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا صحابہ کرام نے جب ہجرت کی اور آرام سے رہنے لگے تو دیگر مسلمانوں نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ مشرکین مکہ کو یہ بات پسند نہ آئی انہوں کے مسلمانوں کے تعاقب کا فیصلہ کیا۔ مشرکین مکہ نے عمربن العاص اور عبداللہ بن ابی کو حبشہ بھیجا یہ دونوں بادشاہ کے دربار میں تحفے تحائف لے کر گئے انہوں نے نجاشی سے کہا بادشاہ وقت ہمارے کچھ لوگ آپ کے ملک میں آئے ہیں یہ اپنا آبائی دین چھوڑ چکے اور آپ کے دین میں بھی شامل نہیں ہوئے ہم چاہتے ہیں کہ آپ انہیں ہمارے حوالے کردیں درباریوں نے بھی مکہ والوں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ لیکن نجاشی نے کہا کہ جن لوگوں نے ہمارے ہاں پناہ حاصل کی اور دوسروں کے مقابل ہمارے ملک کا انتخاب کیا میں ان کو تمھارے حوالے کیسے کر دوں؟ جب تک کہ میں ان کا نقطۂ نظر نہ جان لوں۔

بادشاہ نے اپنا بندہ بھیج کر مسلمانوں کو دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو ہو سو ہو، ہم وہی صحیح حقیقت حال بیان کریں گے جس کی تعلیم ہمیں اللہ کے رسولؐ نے دی ہے۔ جب وہ حاضر ہوئے تو نجاشی نے قریش کا بیان ان کے سامنے رکھا اور جواب طلب کیا۔ مہاجرین کی جانب سے حضرت جعفر بن ابی طالب کھڑے ہوئے اور کہا کہ اے بادشاہ اس دین کو اختیار کرنے سے پہلے ہم بتوں کی پوجا کرتے تھے مردار کھاتے تھے قطع رحمی کرتے تھے بے حیائی کے کاموں میں شریک ہوتے تھے ہم اس حال میں تھے کہ اللہ نے ہماری طرف اپنا رسولؐ بھیجا۔ اس کی خاندانی وجاہت، سچائی، پاکیزگی اور امانت سے ہم پہلے سے واقف تھے۔ اس نے ہمیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا اور پتھروں کی پوجا سے روکا۔ اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت و دیانت داری، صلہ رحمی، اچھی ہمسائیگی، نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے اور شرک نہ کرنے کا حکم دیا اور جھوٹ، تہمت، یتیم کامال کھانے، بے حیائی اور دوسرے محرمات سے رکنے کی ہدایت کی۔ ہم نے اس کی تصدیق کی۔ اس پر ایمان لائے اور اس کے لائے ہوئے پیغام کی پیروی کی۔ ہماری قوم نے ہم پر بڑی زیادتیاں کیں، ہم کو سزائیں دیں اور ہمارے دین سے ہمیں پھیرنا چاہا۔ جب ہم پہ زندگی تنگ کر دی گئی تو ہم آپ کے ملک میں آ گئے اور پناہ کے لیے آپ کے ملک کو چنا۔ ہمیں توقع ہے کہ آپ کے ہاں ہم پر زیادتی نہیں ہو گی۔ یہ سن کر نجاشی نے قریش کے وفد کی درخواست رد کر دی۔

جب یہ لوگ ناکام ٹھہرے تو انہوں نے نیا طریقہ استعمال کیا جو آج کل مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے

عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی نے مشورہ کر کے نجاشی کے دینی جذبات کو بھڑکانے کا فیصلہ کیا۔

دوسرے دن یہ دونوں لوگ دوبارہ دربار میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ بادشاہ وقت یہ لوگ آپ کے پیغمبر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں بڑی غلط سوچ رکھتے ہیں

نجاشی نے دوبارہ مسلمانوں کو طلب کیا اور ان سے حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق پوچھا کہ آپ کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟

حضرت جعفر نے سورۂ مریم کی تلاوت شروع کر دی، جس میں عیسی علیہ السلام کے بارے میں قرآن پاک کی پوری تعلیم موجود ہے۔ نجاشی سن کے رو پڑا۔

جب تلاوت ختم ہوئی تو نجاشی نے صاف انکار کر دیا

واقعہ اجمالاً ذکر کیا تاکہ معلوم ہو کہ ذاتی مقاصد کے حصول کی خاطر مذہبی کارڈ کون لوگ استعمال کرتے تھے؟

میرے آقاؐ پہ میری جان قربان۔ میرے ماں باپ قربان لیکن آقاؐ کے نام کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرنا انصاف نہیں۔ عامر صاحب آپ جیو جنگ اور سبھی کے خلاف بولیں لکھیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن میرے آقاؐ کا نام اپنی ذات اور اپنے ادارے کے لیے تو استعمال نہ کریں۔

جن لوگوں کے خلاف آپ نے پروگرام کیے اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور انہیں لٹکا دیا جائے میں آپ کے ساتھ ہوں لیکن بے وجہ ذات نبیؐ کو استعمال نہ کریں۔

اتنا کر لیں جتنا نجاشی نے کیا تھا آپ الزام لگانے کی بجائے مخالفین سے پوچھ لیں کہ جو الزام آپ کے سر تھوپا جا رہا ہے واقعی آپ کا یہی عقیدہ ہے؟ مدعی بھی خود وکیل بھی خود منصف بھی خود بنے ہوئے ہیں۔

کیا آپ کو علم نہیں قرآن پاک کا حکم کیا ہے؟ دین کی باتیں ضرور کریں لیکن یہ فرمان بھی یاد رکھیں کہ جب کوئی فاسق تمھارے پاس خبر لائے تو اس کی تصدیق کر لیا کرو

یقینا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی آپ نے سنا ہو گا کہ کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ بات سنے اور اسے آگے پھیلا دے

عامر صاحب ٹی وی عدالت نہیں، عدلیہ کا ایک نظام موجود ہے۔ اپنی ذات کے لیے عدالت جاتے ہو نبیؐ کی ذات کے لیے کیوں نہیں جاتے؟ اہل بیت کی تکریم کے لیے کیوں نہیں جاتے؟
کبھی سوچ لینا کہ آپ کس ڈگر پہ اپنے سننے والوں کو چلا رہے ہیں؟ صرف دنیا ہی نہیں آخرت بھی ہے قیامت والے دن رب کو بھی جواب دینا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments