اودھو


بھور کے پنچھی چمکیلے پر پھیلا رہے تھے، سورج ابھی ابھرا نہیں تھا۔ ہوا صاف تھی، یمنا ندی ایسی مانو شیشہ ہو، اور جھانکنے پر ندی کی تہہ دکھ رہی تھی۔ اتنے میں دو جوان ایک جانب سے آتے دکھائی دیے، ایک سی چال، ایک جیسی دھوتی اور ایک جیسے انگ وستر، دیکھنے پر لگتا تھا جڑواں پکھیرو ہوں۔

”آج ہوا کچھ زیادہ ہی ٹھنڈی ہے، ہے نا مادھو؟“ اودھو نے اپنا انگ وستر کستے ہوئے کہا۔ لیکن مادھو اپنے ہی خیال میں گم کہیں اور دیکھتے جا رہے تھے اودھو چونکا اور سوچا کہ سب کچھ کشل ہے، مہاراجہ اگرسین اچھے ہیں، پرجا بھی خوش یہ تو مادھو کیوں چنتت ہیں۔ یہ سوچ دل میں نا رہی مچلتے ہوئے زبان پر آ گئی، مادھو نے اودھو کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنی پشت پر محسوس کی تو مسکرا دیے وہی جانی پہچانی ٹیڑھی سی مسکراہٹ، وہی جان لیوا گھائل کرتا انداز، مسکراہٹ بالکل ویسی جس سے ان کے کنارے کے ٹیڑھے دانت نظر آتے تھے۔

”کہاں کھوئے ہیں مادھو“ اودھو نے پوچھا،

کرشن رکے، اودھو کی طرف مڑے اور کہا ”یہاں چلا تو آیا اودھو۔ ورنداون چھوڑے سالوں ہو گئے اودھو لیکن من آج بھی مائی کو ، ورنداون کو اور اپنی گوپیوں کو بہت یاد کرتا ہے“

”مائی تو یہاں بھی ہے مادھو، دیوکی ماں!“ اودھو بولے

یہ تو دیوکی ماں ہے اودھو! مائی تو ورنداون میں رہ گئی، دیوکی ماں کا تو میں مادھو ہوں، کنوا کہنے والی مائی تو وہیں رہ گئی۔ گوپیاں اور ان کا اتھاہ پریم۔ جو متھرا ہے وہ اب و رنداون کبھی نہیں ہو سکتا، کرشن نے ٹھنڈی سانس بھری اور آگے بڑھ گئے۔

ذمے داریوں کی زنجیریں اتنی جکڑی ہوئی ہیں کہ ماں کے ہاتھ کا ماکھن کھانے کے لیے متھرا تک بھی نہیں جا سکتا؟ اور وہاں وہ بھی راہ نہارتی ہوگی۔ رادھا!

کرشن کہیں بھی رہے اپنی رادھا کے بنا ادھورا ہی رہے گا ناں! ورنداون کے گوالے ان کے نام سے پہلے رادھا کا نام لیتے تھے۔ رادھا کرشن!

آج ان کا من انھیں متھرا کی کنج گلیوں کی آلس بھور میں چھوڑ کر ورنداون چلا گیا تھا۔ کرشن اپنا انگ وستر کستے ہوئے یمنا کے بھیتر چل دیے۔ مادھو بھی ان کے پیچھے چل پڑے۔ یمنا اشنان روزانہ کی مشق تھی۔ لیکن روز کی ایک اور مشق، ایک اور اصول بھی لازم تھا۔ جیسے ہی کرشن یمنا ندی میں اشنان کو اترتے ایک کنول کا پشپ نہ جانے کہاں سے پانی کی لہروں پر ہلکورے لیتا ان کے ہاتھوں کو بوسے دینے آ جاتا۔ کرشن کہتے یہ پشپ انھیں رادھا بھیجتی ہے۔

یہ اودھو کرشن کے ممیرے بھائی، ان کے بھگت، ان کے ششیہ، ان کے رازدار بھی تھے۔ بہت کٹر برہماچاری تھے۔

اس پشپ کو ہاتھوں میں لیے کرشن کی آنکھیں بھر آئیں۔ اپنے یوگ گرو کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ان سے رہا نہیں گیا۔

”مادھو آپ تو جانتے ہی ہیں کہ گیان کے لیے آگے بڑھنا اور پچھلی باتیں بھول جانا کتنا ضروری ہے۔ گیان پریم سے زیادہ ضروری ہے۔ کہاں الجھ رہے ہیں آپ؟“ لیکن کرشن نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ابھی مادھو کچھ اور بھی پوچھتے لیکن کرشن چکرا کر ان کی بانہوں میں گر گئے۔

اودھو نے دونوں ہاتھوں سے کرشن کو کس کر تھاما، ”مادھو! مادھو!“ ادھو کرشن کو کنارے پر لاتے ہوئے بولے۔ کرشن کی آنکھوں سے آنسو اب بھی بہہ رہے تھے۔ اودھو نے کرشن کا چہرہ ان کے انگ وستر سے پونچھا، انھیں کنارے پر لائے اور ان کے محل کے لیے روانہ ہو گئے۔ اودھو دونی تیزی سے خود رتھ چلا رہے تھے۔ محل پہنچتے تک بھی کرشن کو ہوش نہیں آیا تھا۔ متھرا میں محل کے باہر بھیڑ اکٹھی ہو گئی تھی۔ اندر ہنگامہ مچا تھا، واسو دیو کرشن بے ہوش ہو گئے تھے۔

کاڑھے بنائے گئے، اپائے کیے گئے، برہمن اور وید بلوائے گئے، محل کے نوکر چاکر ارد گرد اکٹھے ہو گئے مہاراجا اگرسین اپنے نواسے کو اچانک اتنا بیمار دیکھ کر گھبرا گئے تھے اور نواسا بھی وہ جس نے انھیں اپنے ہی بیٹے کی قید سے چھڑایا تھا۔ متھرا کا مستقبل بے ہوش پڑا تھا۔ نوکر لگاتار پیر دبا رہے تھے۔ ہر اپائے کر لیا گیا تھا وید کہتے تھے کہ واسو دیو پر کسی کا اثر نہیں ہو رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کہ کرشن کسی گہری نیند میں سوئے ہیں۔

مہاراجا اگرسین نے اودھو کے پیروں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے۔ ”تم تو اپنے یوگیشور کرشن کے پرم ششیہ ہو نا؟ یہ میرا کرشنا جو یوگیوں کا یوگی ہے، کیسے اتنا بیمار ہو گیا؟ کچھ کرو اودھو کچھ کرو“ ۔ سمجھ تو اودھو کو بھی نہیں آریا رہا تھا وہ تو ٹھگے سے کرشن کو دیکھتے چلے جا رہے تھے۔ متھرا کی پرجا جسے بھگوان مان کر پوجتی تھی اسی کے لیے بھگوان سے دعائیں کر رہی تھی۔ لیکن کرشن نے صبح سے رات ہوتے تک آنکھ نہیں جھپکی تھی۔

اور اب اودھو کا صبر جواب دیتا جا رہا تھا۔ کہیں وہ کنول کا پشپ جو صبح کرشن کو ملا تھا اس میں وش تو نہیں تھا؟ وہ اب بھی مادھو کے ہاتھ میں تھا۔ اودھو، مادھو کے ہاتھ سے وہ پھول لینے گئے تو کرشن نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں، ”یہ وید کچھ بھی نہیں کر پائیں گے اودھو، میں اپنا علاج جانتا ہوں“ انہوں نے دھیمی سی آواز میں کہا۔ اودھو نے یہ سنتے ہی بے چینی سے کہا، ”آپ آ گیا دیں میں ابھی سب انتظام کردوں گا“

”میرے ماتھے پر کسی سچے بھگت کی چرن دھول مل دو اودھو، چاہو تو اپنی ہی مل دو “ کرشن نے نقاہت بھری آواز میں کہا۔ اودھو گنگ کھڑے رہ گئے۔

اپنے گرو، اپنے بھگوان، اپنے یوگیشور کرشن کے ماتھے پر ۔ وہ اپنی چرن دھول کیسے مل سکتے تھے۔ جن کے چرنوں کی و ندنا وہ خود کرتے تھے بھلا ان کے ماتھے پر وہ اپنے پیروں کی خاک کیونکر ڈال سکتے تھے۔

اودھو الجھن میں تھے۔ کرشن ان کے گرو، یوگیوں کے یوگی تھے!

”مجھے نرکھ کے کسی نچلے درجے میں بھی جگہ نہیں ملے گی مادھو! یہ کیا کہہ رہے آپ؟“ اودھو کرشن کے چرنوں میں گر گئے۔

اودھو کی سوچ میں بھی کرشن کے چرن تھے ان کا ماتھا نہیں تھا۔ اس ماتھے پر میں اپنے پیروں کی خاک کیسے مل دوں۔ ”مجھے معاف کر دیجیے کنہیا!“ اودھو گڑگڑائے

” سوچ لو اودھو، میری اور کوئی دوا نہیں ہے۔ “ کرشن بولے۔ لیکن یہ تو اودھو کی سوچ سے کہیں پرے تھا۔ صدیوں تک نرکھ کی آگ میں نہیں جل سکتا۔

کرشن بہ مشکل اٹھے اور تکیے کی ٹیک لی، بولے ”اچھا ایک کام کردو، میں اپنے حال کی خبر ایک چٹھی میں لکھ دیتا ہوں۔ اسے ورنداون لے جاؤ، وہاں تمہیں میرا علاج ضرور مل جائے گا۔ ایک چٹھی میرے مائی بابا کے نام اور ایک میری گوپیوں کے نام!“ کرشن کھڑے ہوتے ہوئے لڑکھڑا گئے۔ اودھو تیزی سے آگے بڑھے۔ ”کمزوری بہت ہے مادھو، کہاں جا رہے ہیں؟“

کرشن اپنی چوکی پر بیٹھتے ہوئے بولے ”اسی کا تو علاج کرنے لگا ہوں“ انھوں نے دھیرے دھیرے پتر لکھنے شروع کیے۔ اودھو بولے ”مادھو آپ کو پریم روگ لگا گیا ہے من کی پیڑا ہے۔ آپ۔ کمزور پڑ رہے ہیں مادھو۔ پریم کے آگے ہار رہے ہیں؟“ اودھو بے بسی سے بولے۔

” میں نے ان چٹھیوں میں گوپیوں کے لیے یوگ گیان بھی لکھ دیا ہے اودھو، تم۔ نشچنت رہو!“

” یہ تو آپ نے بہت اچھا کیا، آپ سے بہتر گرو کہاں ملے گا انھیں، آپ سکھائیں گے تو وہ سیکھ بھی جائیں گی اور سمجھ بھی جائیں گی۔“ اودھو خوشی سے بولے۔

”ان کا پریم ہی میرے پریم کو جیوت رکھتا ہے اودھو۔ ایک بار وہ سمجھ گئیں تو میرا روگ دور ہو جائے گا“ کرشن نے کہا۔

” کسی کا پریم کسی دوسرے کے پریم کو کیسے زندہ رکھتا ہے، آپ جذبات میں بہہ رہے ہیں کرشن!“ اودھو قدرے بے چین ہوئے۔ یہ آج آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ ”ان کا پریم آپ کو کیسے ٹھیک کردے گا بھلا؟“

اودھو نے طے کر لیا کہ کنہیا ان گنوار گوالنوں کے پریم میں بے چین ہو رہے ہیں، اگر ان تک برہم گیان پہنچنے سے کرشن کا موہ چھوٹتا ہے تو مجھے ورنداون جانا ہی ہو گا۔ یہی سہی!

کرشن خود اودھو کو دروازے تک رخصت کرنے آئے۔ جاتے ہوئے اودھو کو بار بار کہا کہ گوپیوں کو گیان کی شکشا دیتے آنا۔ انھیں گمراہ نا ہونے دینا بھیا! اودھو جلدی سے رتھ میں سوار ہوئے تاکہ کسی تاخیر کے بغیر ورنداون جا پہنچیں۔ اب تک بیمار لگتے کرشن اچانک مسکرا اٹھے۔ ”اودھو اپنے جیون کا سب سے ضروری پاٹھ سیکھنے نکل پڑے تھے۔ کرشن جیسے استاد نے اودھو جیسے مہا گیانی ششیہ کو یہ پاٹھ سکھانا ضروری سمجھا۔ ادھر دوسری جانب اودھو بہت تیزی سے رتھ چلا رہے تھے تاکہ وہ کرشن کی یہ موہ مایا جلدی سے ختم کر سکیں۔ یہ متھرا کی پرجا اور متھرا ریاست کی ترقی کے لیے ضروری تھا۔

آخر کیا ہوتا ہے یہ بچپن کا پریم! متھرا میں اودھو گیان کی جیتی جاگتی مورت تھے۔ یوگ گیان دھیان اور دھرم میں ان کے لیے قابل تقلید واحد کرشن ہی تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یوگیوں کے ہوگی، پرم گیانی کرشن اس مایا جال میں کیسے پھنس سکتے ہیں؟ یہی سوچتے سوچتے اودھو ورنداون پہنچ گئے۔ رتھ یمنا کے کنارے دوڑتا ہوا ورنداون کے بھیتر چلا جاتا تھا۔ یمنا کے سارے گھاٹ کنج اور کدم کی بیلوں سے اٹے ہوئے تھے۔ اور کناروں پر گایوں کو باندھنے کے کھونٹے گڑھے تھے۔ مور چہک رہے تھے۔ پیڑوں کے درمیان چمکتا سورج ڈھلتی دوپہر کا اشارہ کر رہا تھا۔ یمنا کے کناروں پر لہریں سر پٹکتی تھیں، کنول کے پتوں پر پانی کی بوندیں ہیروں کی طرح چمکتی تھیں۔ ہوا ہلکی ٹھنڈی تھی۔ اودھو نے ایک گہری سانس کھینچی تو ورنداون کی خوشبو ان کے اندر آ بسی۔ و رندا۔ یعنی تلسی۔

ورنداون تو واقعی بہت سندر ہے، اودھو نے سوچا۔ اچانک ان کا رتھ جھٹکے سے رکا۔ انہوں نے دیکھا کہ ارد گرد گھاگھرے والیوں کا جھمگٹ کھڑا تھا۔ ”ہم کتنی دور سے تمہارا پیچھا کرتی آ رہی ہیں“ ایک نے کہا۔

”یہ بالکل ہمارے کانہا جیسا نہیں دکھتا؟“ دوسری بولی۔ ”نا اا اں۔ نہ اس کے پاس مرلی ہے مور پنکھ، یہ ہمارا کانہا کیسے ہو سکتا ہے“

”اے بھیا! تمہیں کانہا نے بھیجا ہے نا؟ ہمارے لیے بھیجا ہے ناں؟“

مختلف آوازیں ابھریں۔ اس سے پہلے کہ اودھو کچھ سمجھ پاتے، گوپیاں انھیں رتھ سے کھینچ کر اتارنے لگیں، کوئی ایک طرف کھینچتی تھی تو کوئی دوسری طرف، کون ہو تم کہو نا؟ کانہا کیسا ہے؟ ”سوالوں کی جھڑی لگ گئی تھی۔ ساری گوپیاں ایک ساتھ سب سوال پوچھ لینا چاہتی تھیں۔ کوئی اودھو کی بات سننے کو تیار نہ تھی۔

اودھو کا انگ وستر خراب ہو گیا، مکٹ سر سے گر پڑا، بال بکھر گئے۔ ”اری! کوئی میری تو سنو! رکو سب کیا کر رہی ہو یہ؟ میں کہتا ہوں رک جاؤ ورنہ کانہا کا پتر نہیں دوں گا تمہیں“ اودھو غصے سے بولے۔

”کانہا نے ہمارے لیے چٹھی بھیجی ہے؟ ہمارا نام بھی لکھا ہو گا پھر تو ۔ اے بھیا دکھاؤ نا جلدی سے دکھاؤ ہمارا نام کہاں لکھا ہے؟ اودھو کے ہاتھ سے کب چٹھی چھنی اور گوپیوں میں ٹکڑا ٹکڑا بٹ گئی، اودھو جان ہی نہیں پائے۔ اپنی اپنی چٹھیوں کے ٹکڑے لیے گوپیاں نہ جانے کن کن کونوں میں چلی گئیں اودھو دیکھ ہی نہ سکے۔ “ یہ ہیں مادھو کی گوپیاں؟ ”اودھو مانو جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ اپنے جیون میں کبھی اتنے غصے میں دکھائی نہیں دیے ہوں گے۔

انھیں رتھ سے کھینچا گیا، دھکیلا گیا اور تو اور کرشن کے ہاتھ سے لکھے گئے خط کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا۔ یہ گنوار، دیہاتی گوپیاں! مادھو کے ہاتھ سے لکھے یوگ سوتروں کو پڑھنے کے لیے بڑے بڑے رشی منی ترستے تھے اور ان گوپیوں نے ان کی لکھی گئی چٹھی کی تکریم تک نا کی۔ ان جاہل گوپیوں کے لیے مادھو بیمار پڑے ہیں؟“ میری گوپیوں کو یوگ سکھانے میں دیری مت کرنا اودھو ”ان کے ذہن مین کرشن کا حکم گونجا، تو وہ گوپیوں کو ڈھونڈنے نکل پڑے۔

یمنا کے گھاٹ کنارے کئی باغ تھے۔ کنج کی بیلوں سے بھرے ہوئے، چنبیلی، موتیے سے مہکتے ہوئے۔ باغ، یہیں ملی تھیں گوپیاں اودھو کو ۔ کرشن کے ہاتھ سے لکھی چٹھی کے ٹکڑوں آنسوؤں سے بھیگ رہے تھے۔ کوئی انھیں سینے سے لگاتی، کوئی ماتھے سے کوئی ان پر اپنے ہونٹ رکھ دیتی۔ مانو جیسے چٹھی نا ہو انھیں برسوں بعد اپنا کانہا مل گیا ہو۔ اودھو اس باغ کے بیچوں بیچ کھڑے تھے، اودھو کئی پلوں کے بعد گوپیوں سے مخاطب ہوئے۔ “ لو پڑھ لو!

پڑھ لو کیا لکھا ہے کنہیا نے۔ لکھا ہے اس نے کہ وہ کب آئے گا، کب گلے لگائے گا تمہیں؟ اودھو کے ہاتھ میں اس برہم گیان کے ٹکڑے تھے جنھیں جود یوگ ایشور نے لکھا تھا۔ کتنے اکشر دھل کر صاف ہو۔ چکے تھے۔ کتنوں کی ملاوٹ ہونٹوں کی لالی اور کاجل کی کالک میں چھپ گئی تھی۔ انہوں نے وہ ٹکڑے گوپیوں کو لوٹاتے ہوئے کہا ”کیا پڑھ کر سناؤں میں تمہیں۔ یہ کوئی پریم سندیس نہیں تھا یہ تو جیون سندیس تھا۔ مادھو نے تم لوگوں کے لیے گیان کی راہ سجھائی تھی۔ گیان اور سادھنا سے تم اس موہ سے چھوٹ جاتیں، تمہارا جیون سپھل ہوجاتا۔ اس جیون پتر کو تم لوگوں نے ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔“

” کیا اس میں ہمارا نام نہیں لکھا تھا؟ للیتا، سمیتا کسی کا بھی نام نہیں لکھا تھا؟“ ایک رندھے گلے سے بولی۔

” نہیں! اس میں کسی کا بھی نام نہیں لکھا تھا۔ یہ پریم پتر نہیں تھا، جیون پتر تھا۔ انہوں نے یوگ گیان لکھ کر بھیجا تھا کیونکہ پرم گیانی یوگ ایشور کرشن جانتے ہیں کہ یوگ گیان ہی جیون کا اصل مول ہے“ اودھو صاف اور سیدھے لہجے میں بولے۔

”کیا اس میں رادھا کا نام بھی نہیں لکھا تھا؟“ للیتا بولی
” رادھا! رادھا! رادھا! آخر کون ہے یہ رادھا؟“ جھنجھلا چکے اودھو غصے سے بولے

” تو پھر آپ کا گیان ادھورا ہے اودھو جی! ہر گیان پریم کے بغیر ادھورا ہے۔ اگر آپ رادھا کو یوگ ودیا سیکھنے کے لیے راضی کر لیں، تو ہم سب کنہیا کو بھلا دیں گی۔ چلیں رادھا کے پاس۔“ للیتا کلبلا اٹھی۔

اودھو کی مشکلیں تھیں کہ بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ وہ گوپیوں کے سنگ گھاٹ پر ۔ پہنچے۔ اودھو کو رادھا کا نام سنتے ایک عرصہ بیت چکا تھا۔ کرشن ورنداون کا نام رادھا کے بغیر لیتے ہی نہیں تھے۔ وہ کہتے تھے کہ رادھا سے مل کر اس کے پریم سے بچ پانا بہت مشکل کام ہے۔ اودھو جانتے تھے کہ پریم جیون کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔ وہ کرشن اور گوپیوں کے راستے سے یہ رکاوٹ دور کر دیا چاہتے تھے۔ جیسے جیسے اودھو آگے بڑھتے جاتے انھیں راستے میں کنول کے سفید پھول ملتے جاتے تھے۔

شاید ان کا وہم تھا لیکن انھیں کرشن کی بنسی کی دھن بھی سنائی دینے لگی تھی۔ ساری گوپیاں یمنا کنارے بنی ایک چھانج کے پاس آ کر رک گئیں۔ چھانج کی سیڑھیاں یمنا میں اترتی تھیں۔ وہیں پوڑھیوں کے پاس ایک عورت دیوار سے سر ٹکاۂے دور یمنا کنارے کو دیکھتی تھی۔ بڑی بڑی گول آنکھوں میں کاجل کہ دھار تھی۔ جوڑے میں لگا گجرا کندھے پر ڈھلک گیا تھا، گلابی رنگ کی چنری دھانی لہنگے سے میل کھاتی تھی۔ ہری گلابی چوڑیاں پہنی عورت وہ ساکشات لکشمی ہی تھی۔ اس کی آنکھیں بہت اداس تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ برسوں کے آنسو آنکھوں میں جمع تو ہیں لیکن گرنے کو ایک بھی تیار نہیں!

” رادھا! یہ اودھو ہیں۔ کانہا نے بھیجا ہے ان کو ، ہمیں یوگ سکھانے کے لیے، کہتے ہیں کہ یوگ سیکھ کر ہم کانہا کے برہا کے دکھ سے مکت ہو جائیں گی۔“ للیتا نے قریب آ کر کہا۔

رادھا دھیرے سے گھومی، اودھو کو نظر بھر کر دیکھا او رپھر گھوم گئی۔ ”کانہا کو میرے کنول پھول روز مل جاتے ہیں نا اودھو جی؟“ اودھو دو پل کے لیے کچھ بول نہیں پائے۔ پھر کہا ”پورے ورنداون کو دکھ میں کیوں ڈبو رکھا ہے۔ کانہا نہیں لوٹیں گے۔“ اودھو نے کہا۔

”ہمیں کوئی دکھ نہیں ہے“ رادھا بولیں۔ لوٹتے وہ ہیں اودھو جی۔ جو کہیں جاتے ہیں۔ جو پاس ہوتے ہیں وہ کہاں لوٹیں گے اودھو جی!

” کانہا یہاں کہاں ہیں؟“ اودھو نے پوچھا

” وہ یہیں میرے ساتھ ہیں۔ ابھی یہاں تھے کچھ دیر پہلے، رادھا کا جیوت ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ کرشن یہاں ہیں۔ سچے پریمی الگ ہی کب ہوتے ہیں؟ دھیان سے دیکھیے اودھو جی! آپ کو کانہا نہیں دکھتے؟

اودھو کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ بانسری کی دھن وہ خود سن سکتے تھے۔ ورنداون میں چلنے والی ہوا بھی کرشن کرشن پکارتی تھی۔ وہاں اشٹ گندھا پھیلی تھی۔

اودھو نے پھر رادھا کی جانب دیکھا، ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں۔ مگر آنسو ڈھلکے نہیں تھے۔

”اودھو جی یہ یمنا کے گھاٹ، کنج کی بیلیں، یہ تو نہیں بتاتیں کہ کانہا کب آئے گا؟ تمہی بتا دو میرا شام کب آئے گا؟ وہ تو رونے سے بھی منع کر گیا تھا۔ یہ آنسو اس کے آنے کے لیے آنکھوں کے کنارے دیکھ رہے ہیں۔ اودھو کھڑے پاؤں گر گئے۔ وہ کیا سکھاتے گوپیوں کو ۔ رادھا کو ، وہ کیا یوگ اور سمپرپن سکھاتے؟ یہ تو خود سمپرپن کی مورتیاں تھیں۔ کوئی رشی، سادھو سنت اپنا آپ ایشور کو کیا سونپے گا۔ جیسے ان گوپیوں نے اپنا آپ کرشن کو سونپ رکھا تھا۔ اودھو سمجھ گئے تھے کہ ان کے گرو نے انھیں ورنداون کیوں بھیجا ہے۔

وہ جان گئے تھے کہ یوگ سے گیان تو سادھا جا سکتا ہے لیکن جیون کا رس پریم ہے۔ اودھو اس کے بعد مہینوں ورنداون رہے۔ یوگ ایشور کرشن کے پرم ہوگی ششیہ نے راھا کرشن کے پریم کا جوگ لے لیا تھا۔

بانکے بہاری کرشن مراری
میری باری کہاں چھپے۔
رادھے رادھے ہر کوئی آکھے تے میں وی آکھاں راہ دے۔

ہندی کتھاؤں سے ماخوذ افسانہ
سائرہ ممتاز
پانچ اکتوبر دو ہزار اکیس۔

(مائتھالوجی میں کرشن بھگوان یعنی خدا کا روپ، اور گوپیاں، فقیر اور سادھوؤں کی وہ آتمائیں ہیں جو ہمہ۔ وقت خدا کے عشق میں ڈوبی رہتی ہیں۔ ان کتھاؤں کا مقصد یہ گیان دینا ہے کہ علم کے بل پر خدا کو نہیں جیتا جا سکتا۔ عشق خدا تک پہنچنے کا سب سے آسان راستہ ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments