کینیڈا کا پارلیمنٹ الیکشن اور پولنگ سنٹر کا ساتواں میز


رات ساڑھے بارہ بج رہے تھے اور ساڑھے نو بجے تک ووٹ ڈالنے کا وقت ختم ہونے کے ساتھ ہی نتائج کے آتے اعلانوں کی خاصی واضح کی جا چکی تصویر کے بعد سونے کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک یاد آیا کہ ہماری ونی پیگ رہنے والی بیٹی نے تو الیکشن ڈیوٹی بھی لی تھی۔ بیٹی ابھی فارغ ہوئی تھی اور پھر جو تفصیل اس کے فرائض کی سنی تو حیران تھے کہ بھلا یہ بھی کوئی الیکشن تھا۔ کچھ تھوڑا مختصر آپ کے لئے بھی۔ چونکہ ہم چند گھنٹے پہلے ووٹ ڈال کے آئے تھے جس کی کہانی پچھلے مضمون میں گزر چکی لہذا کچھ جلد ہی سمجھ آ گئی۔

پولنگ سنٹر میں داخل ہوتے ہی پہلے میز کے کارکن ووٹر لسٹ سے آپ کا نام تلاش کرتے ہی حروف تہجی کے حساب سے بنی فہرست میں نام تلاش کرتے، اگر آپ کے پاس دستاویزات ( ڈاک سے الیکشن کمیشن کی طرف سے وصول شدہ ووٹر کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس یا صوبائی شناختی کارڈ ) پوری ہوں تو دو دو میزوں پہ مشتمل چھ پولنگ سٹیشن ( یہاں ہر دو میز کا سیٹ علیحدہ پولنگ سٹیشن کہلاتا اور اس کا علیحدہ بیلٹ باکس ہے ) میں سے آپ کو متعلقہ سٹیشن پر بھیج دیتا ہے اور آپ بیلٹ پیپر لے نشان لگا واپس اسی میز پر جہاں سے بیلٹ پیپر ملا تھا، پڑے عام مضبوط گتے کے سیل شدہ بیلٹ باکس میں ڈال دوسرے راستے نکل گھر کو چل دیے۔

ان چھ ( کم آبادی میں تین ) پولنگ سٹیشنز سے الگ ساتواں میز کہہ لیجیے رجسٹریشن افسر ( دو یا ایک ) بیٹھتے ہیں۔ یہیں بیٹی کی ( پہلے ٹریننگ کے بعد ) ڈیوٹی تھی اور یہاں کیا ہوتا تھا، آج کا موضوع ہے۔

رجسٹریشن افسر کے پاس اس سنٹر کے سب پولنگ سٹیشن پر جانے والے ووٹرز کی فہرست۔ ان ووٹرز کی رہائشی گلی کی پوسٹل کوڈ فہرست اور حلقۂ انتخاب میں موجود تمام پولنگ سنٹرز کی فہرست اور ان کے لئے مختص پوسٹل کوڈ کی فہرست اور تین چار قسم کے فارم تھے۔ کسی ووٹر کے پاس کوئی شناخت کم ہے یا کوئی مسئلہ ہے تو واپس نہیں بھیجا جاتا۔ رجسٹریشن افسر کی میز پر بھیج دیتے ہیں۔ یہاں کیا ہوتا ہے۔ کبھی پاکستان میں ہوتا دیکھا ہو تو بتا دیجئے کہ ہم تو ستر کے الیکشن میں پہلی اور آخری بار ووٹ ڈالنے کی سعادت لی تھی۔

رجسٹریشن افسر کے پاس آئے ووٹر کے پاس ڈرائیونگ لائسنس موجود مگر ووٹر کارڈ بھول آیا یا گم گیا۔ فہرستوں میں اس کا نام ایڈریس ووٹر نمبر دیکھ لکھ اسے متعلقہ پولنگ سٹیشن بھیج دیا جائے گا۔

ووٹر کارڈ ملا ہی نہیں۔ یہی فہرستیں دیکھ ووٹر کو اگر یہی سنٹر ہے متعلقہ سٹیشن پہ بھیجا جائے گا لیکن اگر اس کا ووٹ یہاں کی فہرستوں میں نہیں تو تیسری فہرست دوسرے پولنگ سنٹر والی چیک کر جس سنٹر میں اس کا ووٹ ہو رہنمائی کر کے بھیج دیا جائے گا۔

ووٹر کارڈ ہے مگر ڈرائیونگ لائسنس / شناختی کارڈ بھول گیا یا گم شدہ۔ اس کو کوئی دوسر کاغذ ( سرکاری محکمہ سے یا بنک سے آیا خط یا اکاؤنٹ سٹیٹ منٹ یا کارڈ جس پر اس کا نام اور ایڈریس لکھا ہو یا پاسپورٹ یا سوشل انشورنس کارڈ دیکھ متعلقہ پولنگ سٹیشن کی طرف رہنمائی کی جائے گی۔

ڈرائیونگ لائسنس موجود مگر ووٹر لسٹ میں نام نہیں کہ وہ حال ہی میں اٹھارہ سال کا ہوا۔ یا حال میں اس حلقہ میں رہائش اختیار کی یا نام تبدیل ہو چکا ( مثلاً عائشہ بیگم عائشہ اکرم ہو چکی ) یا کرا لیا۔ تو ایک رجسٹریشن فارم پر کیا جائے گا اور وہ ووٹ ڈال لے گا۔

شناختی کارڈ ووٹر کارڈ موجود مگر ووٹ کسی دور کے اسی حلقہ کے سنٹر میں رجسٹرڈ ہے جہاں بوجہ بڑھاپا یا معذوری یا اشد قابل قبول عذر کی بنا جانے سے قاصر اور اسی نزدیکی سنٹر میں ووٹ ڈالنا چاہتا ہے۔ تو ٹرانسفر سرٹیفیکیٹ کا فارم بھر وہ یہیں ووٹ ڈال لے گا ( متعلقہ سنٹر کو مطلع کر دیا جائے گا )

ووٹر کارڈ پہ کوئی اندراج، نام کے ہجے، یا پتہ میں غلطی کی صورت فارم پر کر اجازت دی جائے گی

شناختی کارڈ اور ووٹر کارڈ دونوں کی غیر موجودگی میں ووٹر کارڈ ہوتے سنٹر میں موجود کسی دوسرے ووٹر کی پہچان اور ضمانت پر دونوں سے علیحدہ فارم پر کرا ووٹ ڈالنے کی اجازت ہو گی۔

کیا حیرانی کی بات نہیں اس سب کے باوجود کوئی موجود پولنگ ایجنٹ اعتراض نہیں کرتا۔ کوئی دھاندلی کا شکوہ نہیں کرتا کسی کو گنتی پہ اعتراض نہیں کرتا کوئی جلوس نہیں نکلتا ہر ہارنے والا مسکراتے جیتنے والے کو مبارک باد دیتا ہے

وجہ بس یہی لگتی ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بتانے، بنانے والوں نے اس قلعہ کے دروازے کچھ اس طرح مقفل کر رکھے ہیں کہ اسلام اور قرآن کی مثالی معاشرہ بنانے والی ہر تعلیم، دیانت، امانت، حقوق العباد، حقوق اللہ، مساوات، رواداری، انصاف قانون کی عملداری، حسن سلوک وغیرہ قسم کے سب سنہری اصول تو قلعہ کے دروازوں کے باہر کافر کہلانے والے ملکوں میں پھینک دیے اور ہر معاشرتی و اخلاقی برائی اور پستی خیانت دھوکہ سمیت ہر اخلاقی پستی اپناتے ان اصولوں کو بالکل برعکس بنا اندر محفوظ کر لیا۔

الیکشن کے معاملہ میں صاحب اقتدار و حزب اختلاف اور الیکشن کمیشن کی اوپر سے لے انتہائی بنیادی قیادت اور امیدوار حلقہ بندیوں، مردم شماری اور ووٹر لسٹوں کی تیاری سے لے الیکشن کے ابتدائی مرحلے سے پولنگ سٹاف کی تعیناتی اور نتائج آنے کے بعد تک بھی ہر قسم کی کرپشن اور دھاندلی کے رستے نکالتے ڈھونڈتے ایجاد کرتے، اسے کارنامہ بتاتے اور پھر دھاندلی دھاندلی کا شور مچانا اور گلے پھاڑنا اپنی خدمت وطن کی معراج بتا فخر کرتے ہیں۔

اگر ان کافر ملکوں کے باسیوں کی طرح ہر فرد اپنی اخلاقی ذمہ داری اور فرض سمجھتے بغیر ہیرا پھیری کا سوچے ووٹ دے جائے۔ لیڈر حقیقی محب وطن اور قانون پہ عمل کرے، الیکشن عملہ کسی دھاندلی میں ملوث نہ ہو۔ تو الیکشن تو پاکستان میں بھی شفاف ہو سکتے ہیں۔ انیس سو ستر میں بھی تو ہوئے تھے ( کافی حد تک ہی سہی) ۔ مگر پھر یہ الیکشن تو نہ ہوئے نا۔ بھلا دھاندلی کے بغیر ہر حق دار ووٹر کو ووٹ ڈالنے کے لئے ہر ممکن سہولت مہیا کرنا۔ بیہ بھی کوئی ”تین آنوں“ والے ”منصفانہ، آزادانہ، غیر جانبدارانہ“ الیکشن ہوئے۔ بھلا الیکشن ایسے ہوتے ہیں۔

نوٹ۔ رجسٹریشن افسر ہر ایک گھنٹے بعد پولنگ سٹیشن سے اس گھنٹہ کے دوران ووٹ ڈال گئے ووٹوں کی فہرست لا اپنے پاس فائل بناتا اور امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس اگر مانگیں تو نقل مہیا کرتا ہے۔ گنتی کے وقت ڈالے گئے ووٹ اور شمار کردہ ووٹ کی تعداد پوری ہونا لازم ہے۔ اور اس وقت پولنگ ایجنٹ کوئی کوئی ہی ہوتا ہے۔ کبھی جھگڑا نہیں ہوا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments