دوحہ معاہدے سے ’آپریشن ایلائیز ویلکم‘ کے اختتام تک


چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی اور ملک کے اعلیٰ فوجی افسروں نے اراکین کانگریس کو بتایا کہ افغانستان کی جنگ لاجسٹکس کے اعتبار سے کامیابی اور دفاعی اعتبار سے ناکامی تھی۔ افغانستان میں قیام امن کے لئے کردار ادا کرنے والے ممالک کے خلاف، پس پردہ مقاصد کو سمجھنا مشکل نہیں کہ اس نئی مہم جوئی کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں۔ امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے رکن سینیٹر جم ریش اور دیگر ریپلیکنز نے سینیٹ میں افغانستان انسداد دہشت گردی، نگرانی اور احتساب ایکٹ متعارف کرایا تاکہ جو بائیڈن انتظامیہ کے ’افغانستان سے عجلت اور تباہ کن انخلا‘ سے متعلق فیصلہ سازی کی جا سکی۔ در حقیقت 20 برس بعد امریکہ کا افغانستان سے مکمل انخلا سابق امریکی صدور بارک اوباما، ٹرمپ کے اس منصوبے کا حصہ تھا جو انہوں نے افغان امن مذاکرات کے مختلف ادوار میں کیا۔ 2013 میں افغان طالبان سے امریکی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جو 2019 میں باضابطہ شکل اختیار کرچکا تھا۔ فوجی انخلا میں صدر بائیڈن کا حصہ اتنا ہے کہ انہوں نے امریکہ اور افغان طالبان کے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا، جس کے مطابق امریکہ کو 14 مہینے میں اپنا انخلا مکمل کرنا تھا۔ انخلا کے لئے 29 فروری سے یکم مئی 2021 کی تاریخ طے پا چکی تھی لیکن نئے امریکی صدر نے 11 ستمبر کی حتمی تاریخ دے دی اور آپریشن کو خفیہ رکھنے کے لئے امریکی صدر نے 31 اگست کی حتمی ڈیڈ لائن کا اعلان کر دیا، امریکی ’آپریشن ایلائیز ویلکم‘ کی مدت بڑھانے کے لئے 25 اگست کو امریکی سی آئی اے چیف نے افغان طالبان نے مزید توسیع چاہی لیکن افغان طالبان نے تاریخ بڑھانے سے انکار کرتے ہوئے 31 اگست کو آخری ریڈ لائن قرار دے دیا۔ درحقیقت کچھ اچانک نہیں تھا بلکہ 29 فروری 2020 میں طے پانے والے دوحہ معاہدے کے مطابق عمل ہو رہا تھا، جو بائیڈن کا فیصلہ زمینی حقائق کے مطابق درست تھا کہ انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا اور افغان جنگ سے باہر نکل آئے۔

امریکی انتظامیہ نے دوحہ معاہدے میں افغان طالبان سے امریکی افواج کے انخلا کے حوالے سے طویل مذاکرات کیے ۔ 8 ستمبر 2019 کو تعطل کے بعد ایک بار پھر 07 دسمبر 2019 کو مذاکرات بحال ہوئے۔ 21 فروری کو امریکہ کے سات دن کے جزوی جنگ بندی کے مطالبے پر عمل کر کے افغان طالبان نے ثابت کر دیا کہ وہ امن قائم کر سکتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی گروپ بندی نہیں۔ 29 فروری 2020 کو دوحہ معاہدے کی صدر ٹرمپ کی توثیق کے بعد اقوام متحدہ کے نمائندوں سمیت 50 ممالک کی موجودگی میں امریکی نمائندے نے دوحہ میں مفاہمتی معاہدے پر دستخط کیے لیکن یکم مئی تک امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ انخلا کرنے میں ناکام رہا اور معاہدے کے مطابق 29 مئی تک افغان طالبان کے رہنماؤں کو بلیک لسٹ اور سفری پابندیاں ختم کرانے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی۔ معاہدے کے مطابق افغان طالبان کے پانچ ہزار اسیروں کو ایک ہزار امریکی فوجیوں کے تبادلے میں رہا کرانا تھا جن کی فہرستوں کا تبادلہ دونوں فریقین پہلے کرچکے تھے۔ ٖغنی انتظامیہ نے دوحہ سمجھوتے کے برخلاف معاہدے کو ختم کرانے کے لئے غلط فہمیاں اور اشتعال دلانے کی کوشش کی، پہلے مرحلے میں یکم مارچ کو دوحہ معاہدے کی نکات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، لیکن امریکی حکم پر ماننے پر راضی ہو گئے، اسیروں کی رہائی کے آخری مرحلے میں 400 قیدیوں کی رہائی جرگہ کے فیصلے سے مشروط کر دیا، لیکن افغان مصالحتی کونسل نے تمام قیدیوں کی رہائی کی منظور دے کر غنی کا کھیل بگاڑ بنا دیا، 400 قیدیوں کے بدلے ایک ہزار افغان سیکورٹی کے اہلکاروں کو رہا کیے جانا تھا، لیکن غنی نے 60 قیدیوں کے رہائی کے بعد ، ایک بار پھر طالبان اسیروں کو رہا کرنے کا عمل روک دیا، بالا آخر امریکی مداخلت کے بعد قیدیوں کا تبادلہ تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوا تو غنی انتظامیہ نے امریکی رویے سے مایوس ہو کر دیگر مغربی ممالک آسٹریلیا اور فرانس کو دخل اندازی کرانے کے لئے سات اہم قیدیوں کی رہائی سے انکار کر دیا کہ اس پر آسٹریلیا و فرانس کا دباؤ ہے۔ یہ ایک بڑی گہری سازش تھی جو غنی انتظامیہ نے تیار کی تھی تاہم امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر درمیانی راستہ نکالا اور یہ قیدی قطر کی حکومت کی ضمانت پر رہا ہو گئے۔ قیدیوں کے تبادلے میں قریبا ایک برس کا عرصہ ضائع کرایا گیا اور بین الافغان ڈیڈ لاک شکار ہو گئے۔ غنی انتظامیہ اور ان کے حامیوں کا خیال تھا کہ افغان طالبان معاہدہ کو منسوخ کر کے غیر ملکی افواج پر حملے شروع کر دیں گے، لیکن افغان طالبان نے عسکری محاذ پر غیر ملکی افواج کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور معاہدے کے مطابق عمل کیا جس کا اعتراف امریکی اعلیٰ حکام بھی کرچکے ہیں۔

صدر ٹرمپ کو اپنی کئی سخت گیر اور ناقابل عمل پالیسیوں کی وجہ سے جو بائیڈن کے ہاتھوں صدارتی انتخابات میں شکست کا سامنا ہوا۔ اب یہ نئے امریکی صدر پر منتج تھا کہ وہ دوحہ معاہدے کو جاری رکھتے ہیں یا ختم کرتے ہیں، صدر جو بائیڈن نے جو کہ افغان جنگ میں سابق صدر بارک اوباما کے نائب رہ چکے تھے، جنگ کی کامیابی یا ناکامی سے متعلق گہرا مشاہدہ رکھتے تھے کہ اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کے بعد امریکی مشن پورا ہو چکا ہے لہذا ان کا افغانستان میں مزید رہنا ایک نئی نسل اور آنے والے نئے صدر کے لئے بھیانک ہے، اس لئے زمینی حقائق کے مطابق انہوں نے فوجی انخلا سے متعلق ڈیڈ لائن کا اعلان کر دیا گو کہ مقررہ تاریخ یکم مئی کو امریکی افواج کا انخلا ممکن نہیں ہوسکا، پہلے نائن الیون کے موقع پر اعلان کا ارادہ کیا گیا تھا، وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کے درمیان محاذ آرائی کی فضا تھی کہ امریکہ ابھی مکمل انخلا نہ کرے لیکن صدر بائیڈن نے ٹھوس انداز میں ستمبر سے قبل ہی مکمل انخلا کے احکامات جاری کر دیے۔ امریکی افواج نے فوجی بیس کیمپ خالی کر کے غنی انتظامیہ کو حوالے کر نا شروع کر دیے اور بالا آخر بلگرام ائر بیس بھی خالی کر دیا گیا، امریکہ نے اپنے ڈھائی ہزار فوجی سمیت مجموعی طور پر 7500 اہلکار افغانستان میں موجود رکھے، تاہم امریکی فیصلے کے بعد غنی انتظامیہ میں ہلچل مچ چکی تھی، خیال رہے کہ سابق صدر اشرف غنی نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ہمراہ 26 جون کے دوران ہی امریکہ میں صدر جو بائیڈن و وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور اسپیکر نینسی پلومیسی سے آخری ملاقات میں کوشش کی کہ امریکی انخلا نہ ہو، لیکن بائیڈن حتمی فیصلہ کرچکے تھے، جس کے بعد کابل میں مایوسی کے گہرے بادل چھا گئے۔ جس کا براہ راست اثر ایسی افغان سیکورٹی فورسز پر ہوا جن کی تربیت پیشہ ورانہ نہیں کی گئی تھی اور کابل انتظامیہ کی کرپشن، تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور اپنے تحفظ کی وجہ سے دل برداشتہ ہوچکے تھے۔

امریکی انٹیلی جنس نے اپنی رپورٹس میں ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ افغان سیکورٹی فورسز، افغان طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور افغان طالبان بہت جلد افغانستان پر کر لیں گے، انہوں نے پہلے ایک برس کا اندازہ لگایا، پھر کابل پر قبضے کا 90 دن اور پھر 18 اگست کو 72 گھنٹوں میں دارالحکومت پر قبضے کی نشان دہی کردی تھی لیکن جو بائیڈن کا موقف بڑا واضح تھا کہ امریکہ افغانستان میں تعمیر نو کے لئے نہیں آئے تھے۔ افغان طالبان کی فتوحات پر دنیا بھر میں حیرت و تحفظات کا اظہار کیے جانے لگا کہ امریکہ نے جن ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد افغان نیشنل فورسز اور پولیس و خفیہ سیکورٹی کو ملا کر تین لاکھ سات ہزار نفری کی تربیت کی تھی وہ کہاں غائب ہو گئے اور پورے افغانستان میں بنا مزاحمت (سوائے چند علاقوں ) کے قبضہ کیسے ہو گیا۔ واضح رہے کہ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغانستان میں (اکتوبر 2001 سے ستمبر 2019 تک) مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں پچھلے 18 سالوں میں ہونے والی تعمیر نو کی کوششوں میں خرچ ہونے والی تمام رقم کا تقریباً 16 فیصد یعنی 143.27 ارب ڈالر ادا کیا اور اس میں سے نصف سے زیادہ یعنی 88.32 ارب ڈالر افغان نیشنل آرمی اور پولیس فورس سمیت افغان سکیورٹی فورسز کی تیاری میں خرچ ہوا۔ 3.1 ٹریلین ڈالرز سے زائد امریکہ نے کابل انتظامیہ پر خرچ کیے ۔ اصل سوال یہ ہے کہ امریکی رقم کا بڑا حصہ کن کی جیبوں میں گیا۔ کرپشن زدعام تھی، امریکہ نے کرپشن روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ افغان مرکزی رہنماؤں کے گھروں سے ڈالروں کے انبار ثابت کر رہے ہیں کہ امریکہ کو اصل نقصان کابل انتظامیہ نے دیا۔ جب کہ پاکستان کی قربانیوں کے جواب میں امریکہ نے فنڈز بھی روکے پابندیاں بھی لگائیں، ڈومور کے مطالبات بھی کیے اور کولیشن فنڈز کے علاوہ دیگر امداد رقوم کو مختلف طریق کار اختیار کر کے روکا گیا، پاک فوج کو جدید ساز و سامان و تربیت دینے پر پابندی عائد کی، جب کہ پاکستان مسلسل قیام امن کے لئے امریکہ کا ساتھ دیتا رہا اور جانی و مالی نقصان برداشت کرتا رہا، تمام تر حقیقت سامنے آنے کے باوجود بھی پاکستان پر دباؤ ڈالنا ذو معنی ہے۔

افغان طالبان کے کابل دروازے تک پہنچنے کے بعد غنی انتظامیہ کے ہاتھ پیر پھول گئے اور وہ اپنے قابل اعتماد رفقا ء و اتحادیوں سے مشاورت کے بعد اور کچھ رہنماؤں کو اندھیرے میں رکھ کر فرار ہو گئے۔ امریکہ سمیت تمام نیٹو اتحادیوں نے اپنے اہلکاروں و شہریوں کو نکالنے کا عمل شروع کر دیا اور 15 اگست سے 31 اگست تک انخلا کا آپریشن شروع کیا، جس میں مشکلات بھی انہوں نے اپنے لئے خود پیدا کیں جب پرائیویٹ کنٹریکٹرز سمیت افغان شہریوں کو نکالنے کا بھی اعلان کیا گیا اس وقت کابل عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم تھا اور امریکی حصے میں ان گنت افغانیوں نے ڈیرے ڈال دیے تھے، دوحہ میں امریکی فوجی حکام نے افغان طالبان سے ضمانت لی کہ وہ انخلا کے اس مرحلے میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں۔ امریکہ نے کمرشل فلائٹ پر پابندی عائد کر کے فوجی پروازوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، اگر اس وقت امریکہ کمرشل فلائٹس پر پابندی عائد نہ کرتا تو ممکن تھا کہ وہ سانحات جنم نہ لیتے جو کابل ائر پورٹس میں دیکھے گئے۔ امریکہ کو اصولی طور پر اپنے 7500 اہلکاروں کو کابل سے لے جانا تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ امریکہ نے اپنے تمام جنگی ساز و سامان کو تباہ کر دیے۔ 31 اگست کو جب امریکہ کا آخری فوجی افغانستان کی سرزمین سے نکل رہا تھا تو اس وقت تک نیٹو کے تمام ممالک اپنے اہلکاروں کو واپس بلا چکے تھے، بعد ازاں علم ہوا کہ افغان شہریوں کو نکالنے کے آپریشن میں 100 امریکی پھر بھی افغانستان میں رہ گئے۔ نیٹو ممالک نے انخلا کے لئے پاکستان کا سہارا لیا اور تعاون کا شکریہ بھی ادا کیا۔ خیال رہے کہ اس وقت امریکی انتظامیہ نے تمام صورت حال و شکست کا ذمے دار اشرف غنی اور اس کی انتظامیہ کو قرار دیا تھا۔

پاکستان نے امریکہ کا ساتھ نان نیٹو اتحادی ہونے کے ساتھ دیا اور قیام امن کے لئے ہر ممکن وہ کردار ادا کیا جو اس کے بس میں تھا۔ افغان طالبان کا اثر رسوخ عالمی سطح پر بڑھ چکا تھا اور سفارتی محاذ پر روس، چین، ایران اور قطر جیسے ممالک کی ہمدردیاں وہ حاصل کرچکے تھے۔ پاکستان، افغانستان میں بھارتی کردار کی وجہ سے تحفظات رکھتا تھا اور اس کے خدشات غلط نہیں تھے کیونکہ بھارت افغان سرزمین کابل انتظامیہ و خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر استعمال کر رہا تھا۔ بھارت، پاکستان کی سلامتی و بقا کے خلاف ہر گھناؤنی سازش میں سرفہرست رہا ہے اس لئے پاکستان کا اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے بچانے کے لئے افغانستان کے امن عمل میں کردار فطری تھا۔ بھارت نے وادی پنچ شیر کو مرکز بنا کر افغانستان میں خانہ جنگی و گوریلا وار کا گڑھ بنانے کی کوشش کی، لیکن افغان طالبان جانتے تھے کہ ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے، کیونکہ انہیں اس کا چالیس برس کا تجربہ تھا۔ پھر افغانستان میں ماضی کے مقابلے میں بڑی مزاحمت کے بغیر انہیں فتوحات ملی تھی، خاص کر کابل ایک پکے ہوئے پھل کی طرح جب ان کی جھولی میں گرا تو ان کے حوصلے کافی بلند ہوچکے تھے اور ان کے پاس مفتوحہ علاقوں سے جدید جنگی ساز و سامان اور نقل و حرکت کے لئے ہیوی مشینری بھی مل چکی تھی، رستم دوستم، عطا نور جیسے جنگجو پہلے ہی فرار ہوچکے تھے۔ ء افغان طالبان نے احمد مسعود اور امر صالح کی ضد کی باوجود پہلے مذاکرات کیے جو ناکام رہے، شمالی مزاحمتی اتحاد غلط فہمی کا شکار تھا کہ بھارت اس کی مدد کرے گا، لیکن بادیئی النظر ایسا کچھ نہیں ہوا اور جب افغان طالبان نے عبوری حکومت کا اعلان کیا تو وادی پنچ شیر کا آخری مورچہ بھی ان کے قبضے میں آ چکا تھا اور بغیر شراکت افغان طالبان نے اپنے بل بوتے پر سرزمین افغانستان پر اپنی معزول حکومت بحال کرنے کا اعلان کر دیا۔

ریپبلکن پارٹی کے گروپ نے مخصوص مقاصد کے تحت امریکہ کو دوبارہ جنگ میں جھونکنے کی ہے، پاکستان کے کردار پر سابق صدر ٹرمپ بھی جنوبی ایشیائی پالیسی میں سخت زبان استعمال کرچکے ہیں لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وہ غلطی پر تھے۔ ماضی میں پاکستان کا جو بھی کردار تھا وہ امریکی ڈومور پالیسیوں کی وجہ سے ہی رہا، اب حکومت نے امریکی جنگ کا حصہ بننے کے بجائے امن کا ساتھ دینا کا فیصلہ کیا تو عملی طور پر ثابت بھی کیا، درحقیقت امریکی سینیٹرز بل کی آڑ میں ایران، چین اور روس کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں جنہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کے تعاون سے اہم کردار ادا کیا، خیال کیا جا رہا ہے بل کو اکثریت حمایت حاصل نہیں ہوگی، کئی ارکان نے و زیر دفاع لائیڈ آسٹن، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف چیئرمین جنرل مارک ملی، اور سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ فرینک میکنزی سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ امریکہ میں ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں افغان جنگ کے خاتمے پر فوج کی اعلیٰ قیادت کو سخت سوالات میں تنقید و تعریف کا سامنا بھی کرنا پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments