عمر شریف، ایک کامیڈین جو ماہر نفسیات تھا!


کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
(رحمان فارس)

زندگی کے شو کا پردہ گر چکا ہے۔ عمر شریف بیک اسٹیج جا چکا ہے۔ آج حاضرین اس شو کے اختتام پر ہنس نہیں رہے! ۔ آنکھیں سرخ ہیں، چہرے زرد ہیں اور دل بھاری ہیں! ۔ آج ہنس ہنس کر سر نہیں دکھ رہا، آج دکھ سے سر دکھ رہا ہے!

کراچی کے علاقے لیاقت آباد سے بہت سے فنکار ابھرے، اٹھے اور زمانے پر چھا گئے۔ لیکن اس علاقے سے کم عمری میں ہی فن کی دنیا میں قدم رکھنے والا عمر شریف نہ تو ہیرو بننے نکلا تھا اور نہ ولن بننا چاہتا تھا۔ یہ تو وہ کام کرنے نکلا تھا جو بہت سے فنکار نہیں کر سکتے تھے۔ عمر شریف کے پاس کچھ کمالات موجود تھے جو ہر فنکار کو عطا نہیں ہوتے۔ بجلی سی حاضر دماغی، برجستگی کی ہمت، غضب کی جملہ سازی اور اس پر قیامت کی حس مزاح!

عمر شریف نہیں چاہتا تھا کہ حاضرین مسکرائیں، ہاں! وہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ مسکرائیں! ۔ وہ چاہتا تھا لوگ قہقہے لگائیں! ۔ اور کئی دن تک لگائیں۔ وہ اس پر محنت کرتا تھا۔ بہت محنت کرتا تھا۔ وہ کبھی سنجیدہ رہتے جملہ دیا کرتا تھا، کبھی ہنستے ہنستے ہنساتا تھا، کبھی چیختا تھا، کبھی روتا تھا، کبھی غصہ کرتا تھا اور کبھی تو وہ چاروں صوبوں کے ثقافتی رقص کر کے پسینے میں شرابور ہو جایا کرتا تھا۔ آڈیٹوریم تالیوں سے گونج اٹھتا تھا! ۔ وہ اس اپنی محنت میں کامیاب رہا، لوگ کئی دہائیوں سے قہقہے لگا رہے ہیں!

عمر شریف اپنے فن میں اس درجہ مہارت رکھتا تھا کہ اسے ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی کہ کبھی کسی کا کوئی جملہ استعمال کرے۔ بلکہ اس کے تخلیق کردہ مزاحیہ جملے اور اصطلاحات اس قدر زرخیز کھاد کی مانند ثابت ہوئیں کہ ایک ایک جملے نے مزید مزاحیہ اداکار پیدا کیے! وہ پاکستان کا لیاقت سولجر ہو، شکیل صدیقی ہو، سکندر صنم ہو یا روف لالا ہو۔ یا پھر وہ بھارت کا کپل شرما ہو، یہ سب کے سب عمر شریف کے پیروکار ہی تو ہیں! ۔ کپل شرما تو یہاں تک کہہ گیا کہ عمر شریف کو دیکھ کر ہی میں اس میدان میں آیا!

میرا بچپن عمر شریف کو دیکھتے سنتے گزرا، ہنستے گزرا۔ لیکن جب میں نے بحیثیت ماہر نفسیات عمر شریف کو پرکھنا شروع کیا تو دنگ رہ گیا۔ میں نے عمر شریف کا انسانی نفسیات پر مشاہدہ کسی بھی بہترین ماہر نفسیات جیسا پایا۔ وہ اپنے مقابل کو بغور دیکھتا تھا، اس کے تاثرات کو پڑھتا تھا، اپنی تمام تر حس مزاح اور ذہانت کو یکجا کر کے دیکھتا تھا اور پھر اپنے مقابل کا اگلا لائحہ عمل جانچ کر اپنے مقابل کی عمر، اس کے پروفیشن اور اس کی زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے چند ہی سیکنڈوں ایک مزاحیہ جملہ یا سوال تخلیق کر کے نہایت ہی اعتماد کے ساتھ اس پر پھینک دیا کرتا تھا۔ پھر وہ چاہے کوئی سیاستدان ہو، اداکار ہو، کوئی کھلاڑی ہو یا کوئی بھی شخص ہو، اس کے لیے عمر شریف سے بچ نکلنا اور جواب ڈھونڈنا ممکن نہیں ہو پاتا تھا! یہ سب کچھ چند سیکنڈ میں کرنا عمر شریف کی خداداد صلاحیت اور لگن تھی۔

انسانی نفسیات کے ماہرین کی دنیا میں باؤنڈری اور بیریئیر، دو اہم موضوعات ہیں، اس میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آپ کو اگلے انسان کے ساتھ کس حد تک کہاں تک کس چیز میں حد رکھنی ہے اور حد پار کرنی ہے، عمر شریف اس بات کو نہایت ہی اچھی طرح جانتا تھا۔ یہ بات سمجھنا ہر عام انسان کے بس کی بات نہیں اور یہیں سے معاملات یا تو اچھے ہو جاتے ہیں یا برے ہو جاتے ہیں۔ پھر یا تو انسان کوئی گمنام سا جگت باز بن جاتا ہے، یا پھر عمر شریف جیسا ذہین، حاضر دماغ جملہ ساز اور انسانی نفسیات پر کھیلنے والا بین الاقوامی شہرت یافتہ مزاحیہ اداکار! عمر شریف صاحب، بہت شکریہ، ہم آپ کے جملے اور مزاح یاد کر کے یہ قہقہے اب رہتی دنیا تک لگائیں گے لیکن آنکھیں نم ہوں گی !

الوداع، رب مغفرت کرے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments