علم کی ترقی میں رکاوٹ: مذہب نہیں، سیاسی استبداد


پنجابی زبان کا ایک محاورہ ہے: جیہدی کوٹھی دانے، اوہدے کملے وی سیانے۔ اس طرح کا اردو زبان کا ایک مصرع بھی ہے حسن اور نزاکت کے حوالے سے لیکن اسے لکھنے پر میرا ذوق آمادہ نہیں ہوتا۔ حقیقت البتہ یہی ہے کہ مال، دولت، طاقت، اختیار اور حسن کا نشہ کچھ ایسا ہوتا ہے جو سر کو چڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ اس حال میں اپنے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔

انیسویں صدی کے مغربی یورپ کا کچھ ایسا ہی حال تھا۔ گزشتہ تین صدیوں کے دوران میں ہونے والی علمی، سائنسی، تکنیکی اور معاشی ترقی نے انھیں اس غرور میں مبتلا کر دیا کہ وہ باقی بنی نوع انسان سے برتر اور اعلیٰ مخلوق ہیں۔ سفید فام نسل میں کچھ ایسے اوصاف و خصائص ہیں جو بس انھی کے ساتھ خاص ہیں۔ یہی دور ہے جس میں نسل پرستی کے فلسفے نے جنم لیا۔ مشرق و مغرب کی تقسیم وضع کی گئی۔ مذہب کو توہمات و رسومات کا مجموعہ، خرد دشمن اور سائنس کا مخالف قرار دیا گیا۔ انسانی تاریخ کو مختلف ادوار میں  تقسیم کرتے ہوئے قرون وسطی کو تاریک دور قرار دیا گیا۔

یہ وہ فکری سانچہ تھا جس کی بنیاد پر نصابی کتب تحریر کی گئیں اور تاریخی تحقیق کا قصر تعمیر کیا گیا۔ یورپ میں چونکہ مذہبی جنگوں کی ایک تاریخ تھی۔ جس وقت رومی سلطنت نے مسیحیت کو سرکاری مذہب قرار دیا تو اس کے ساتھ  گمراہ فرقوں کی بیخ کنی کرنے کا فریضہ بھی اپنے سر لے لیا۔ چنانچہ نیسیہ عقیدے کو تسلیم نہ کرنے والوں کی ایذا رسانی کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

 حرف مکتوبہ اور اس کے بعد حرف مطبوعہ کو ایسا تقدس حاصل ہو گیا ہے کہ اس کو جھٹلانا اگر ناممکن نہیں تو از حد مشکل ضرور ہے۔ سکول کے نصاب میں بیان کردہ معلومات اور حقائق ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں اور پتھر پر لکیر بن جاتے ہیں۔ کسی طالب علم کو یہ سمجھانا ممکن نہیں ہوتا کہ نصابی کتاب میں لکھی ہوئی بات غلط ہے یا حقائق کے منافی ہے، اس کے علاوہ کوئی اور تعبیر بھی ہو سکتی ہے۔ ذہنوں پر کندہ کاری کا یہ عمل زیادہ تر اساتذہ ہی سرانجام دیتے ہیں۔ جب میں ایم اے کے طلبہ و طالبات سے کہتا کہ کتاب میں لکھی ہوئی یہ بات غلط ہے یا میں اس سے اتفاق نہیں کرتا تو وہ بہت پریشان ہو جایا کرتے تھے۔

انیسویں صدی کے دوسرے نصف کا غالب بیانیہ یہ تھا کہ جہاں سائنس ہو گی وہاں مذہب سے تصادم ناگزیر ہو گا۔ چنانچہ یورپ میں تصادم برپا ہوا۔ بیسویں صدی میں جب یہ انکشاف ہوا کہ مسلمانوں نے بھی سائنس کے میدان میں کافی کام کیا ہے تو فرض کر لیا گیا کہ یہ تصادم مسلم تہذیب میں بھی برپا ہوا ہو گا۔ چنانچہ مسلمان سائنس دانوں اور فلسفسیوں کی ایذا دہی کی داستانیں مرتب کی جانے لگیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ یہ تصادم بھی تمام مسیحی دنیا میں نہیں بلکہ سائنس اورکیتھولک چرچ کے مابین برپا ہوا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ کیتھولک چرچ کے پاس سیاسی اختیار بھی تھا، اس کی اپنی عدالتیں تھیں۔ کتاب کی اشاعت سے پہلے چرچ کے ادارے سے منظوری لینا پڑتی تھی کہ اس کے مندرجات میں کوئی بات چرچ کی تعلیمات کے منافی نہیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے عہد حکومت میں سیاست ہمیشہ مذہب پر غالب رہی ہے۔ حکمران فیصلے اپنی سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں کے تحت کرتے تھے۔ بغداد پر جب آل بویہ کو غلبہ حاصل ہو گیا تو شیعہ ہونے کے ناتے انھیں عباسی خلافت سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن انھوں نے اسے ختم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ اسی طرح مصر میں جب فاطمی خلافت قائم ہوئی تو انھوں نے عام آبادی پر اپنے عقائد مسلط کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

مسلم عہد میں حکمران مطلق العنان تھے۔ تمام اختیار بادشاہ، سلطان کی ذات میں مرتکز ہوتا تھا۔ وہ کسی سے مشورہ کر سکتا تھا لیکن کسی مشورے کا پابند نہیں ہوتا تھا۔ مغل شہنشاہ اکبر کے دین الٰہی ایجاد کرنے پر بہت کچھ لکھا گیا ہے جو زیادہ تر افترا پردازی پر مبنی ہے۔ اکبر نے والی ترکستان عبد اللہ خان کے نام ایک خط میں اپنے علمائے دربار کی شکایت کرتے ہوئے لکھا کہ “وہ نہ صرف عقل و خرد سے خالی تھے، بلکہ کلام مجید کی غلط ترجمانی کرتے تھے اور اس کی بنا پر شاہی اختیارات میں شرکت چاہتے تھے۔” (شیخ محمد اکرام، رود کوثر، ص 111 )

درباری کلچر کے مسائل

دربار کی ثقافت خوشامد، چاپلوسی، حرص، کینہ اور سازش سے ترکیب پاتی تھی۔ صدق جائسی نے اپنی کتاب “دربار دربار” میں دربار کا بہت عمدہ نقشہ کھینچا ہے۔ حالانکہ وہ دربار عثمانی ریاست کے ایک شہزادے کا تھا لیکن دربار داری کی تمام تر قباحتیں اس میں موجود تھیں۔ فانی بدایونی بھی اس دربار کا حصہ تھا۔ وہ صدق جائسی کو ایک ہی نصیحت کرتا تھا کہ یہاں کبھی کسی کو اپنا مخلص نہ سمجھنا اور نہ کسی سے اپنے دل کی بات بیان کرنا۔

حکمران وقت کی مدح و توصیف کرنا دربار داری کی شرط اولین تھی۔ جس شخص کو بادشاہ کا ہم نشین ہونے کی سعادت میسر ہو، نظام الملک طوسی کے الفاظ میں “اسے چاہیے کہ بادشاہ کے خیال کی موافقت کرے۔ ادھر بادشاہ کے منہ سے لفظ نکلے ادھر یہ “واہ” اور “کیا خوب” کہہ اٹھے۔ اسے معلم نہ بن بیٹھنا چاہیے کہ یہ کرو، وہ نہ کرو، یوں کیوں کیا ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ طرز عمل بادشاہ پر گراں گزرتا ہے اور ناگواری پیدا کرتا ہے۔ (سیاست نامہ۔ اردو ترجمہ از محمد منور۔ ص103)

اس کی ایک مثال پوپ کے دربار سے بیان کی جا سکتی ہے۔ پوپ اربن ہشتم کا ایک سیکریٹری تھا جو گیلی لیو کا بھی دوست اور حمایتی تھا۔ وہ محض اس وجہ سے راندہ درگاہ ہو گیا کہ اس نے پوپ کی لکھی ہوئی عبارت میں اصلاح کرتے ہوئے اسے ذرا زیادہ فصیح لاطینی میں بدل دیا تھا۔

درباری کی زندگی کس بے یقینی کا شکار ہوتی تھی اس کا ایک نمونہ نظامی عروضی سمرقندی نے البیرونی کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ محمود غزنوی نے البیرونی کی علم نجوم میں مہارت کی آزمائش کی۔ جب البیرونی آزمائش میں کامیاب نکلا تو سلطان محمود نے برہم ہو کر اس کو چھ مہینے کے لیے قید میں ڈال دیا تھا

جب محمود غزنوی سے کسی نے کہا کہ البیرونی کی دونوں باتوں درست نکلنے پر آپ نے اسے انعام و اکرام دینے کے بجائے قید میں ڈال دیا تو اس نے جواب دیا: مجھے معلوم ہے کہ سوائے بوعلی سینا کے اس آدمی کا عالم میں نظیر نہیں ہے لیکن اس کے دونوں حکم میری رائے کے خلاف ہوئے اور بادشاہ چھوٹے بچے کی طرح ہوتے ہیں۔ انھی کی رائے کے موافق بات کرنا چاہیے تاکہ ان سے مستفید رہیں۔ اس دن اس نے دو حکم لگائے اگر اس کے دونوں حکموں سے ایک خطا ہوتا تو اس کے لیے بہتر ہوتا۔۔۔۔ سلطان نے اس کو انعام و اکرام دے کر رہا کر دیا اور کہا اے ابو ریحان اگر مجھ سے مستفید رہنا چاہتا ہے تو میرے مقصد کے موافق بات کہا کر نہ اپنے علم کی سلطنت کے موافق۔ ابو ریحان نے اس دن سے اپنی عادت بدل دی۔ اور بادشاہ کی شرائط خدمت میں سے ایک یہ ہے حق و باطل میں اس کے ساتھ رہنا چاہیے اور اس کے مقصد کے موافق تقریر کرنا چاہیے۔

ویسے کیا کمال مشاہدہ بیان کیا ہے کہ ” بادشاہ چھوٹے بچے کی طرح ہوتے ہیں۔” یہ واقعی چھوٹے بچے ہی ہوتے تھے لیکن بگڑے ہوئے۔

مسئلہ یہ تھا کہ اس زمانے میں آزادانہ روزگار کے کوئی مواقع نہیں ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ اہل علم و فن کے پاس دربار کے علاوہ زندگی گزارنے کا اور کوئی وسیلہ نہیں ہوتا تھا۔ نظامی نے ایک دلچسپ شعر درج کیا ہے:

سبزہ نشود مگر ز باران
شعر از کرم کرم گزاران
(جس طرح بارش کے بغیر سبزہ نہیں اگتا، اسی طرح شاعری کا فن بھی سرپرستی کے بغیر نشوونما نہیں پاتا)

اب اگر شاعر کو بھی زندگی گزارنے کے لیے کسی سرپرست کی ضرورت پڑتی تھی تو ان علوم کے ماہرین کے لیے، جنھیں عام طور پر غیر مفید قرار دیا جاتا تھا، گزر بسر کے لیے دربارداری کی ذلت سہنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا تھا۔ اگر حکمران کو ان علوم میں کچھ دلچسپی ہوتی تو ان کا طالع عروج پر ہوتا لیکن جونہی حکمران تبدیل ہوتا ان کی شامت آ جاتی۔ یہ اس زمانے کا عام قاعدہ اور دستور تھا کہ جب نیا حکمران آتا تو پرانے درباریوں کا برا وقت شروع ہو جاتا تھا۔ ان درباری سازشوں میں مذہبی اور غیر مذہبی سبھی شامل ہوتے تھے۔ الکندی، ابن سینا، عمر خیام وغیرہ سرپرست تبدیل ہو جانے کے بعد انھی سازشوں کا شکار بنے تھے۔ اہل علم کو ان کے مقام و مرتبہ سے گرانے کے لیے ان پر مجوسی، یہودی، فلسفی، ملحد، دہریہ، کافر، معتزلی، رافضی وغیرہ ہونے کا الزام عائد کر دیا جاتا تھا۔

سیاسی جبر استبداد کی اس فضا میں کسی آزادانہ فکر کا جنم لینا اور نشو و نما پانا ممکن ہی نہیں تھا۔ یورپ میں بھی جب تک یہ صورت حال رہی علمی ترقی جمود کا شکار رہی۔ اہل علم کا زیادہ وقت دربار کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششوں میں صرف ہوتا تھا۔ یورپ میں صحیح معنوں میں علمی اور سائنسی انقلاب اس وقت برپا ہوا جب علم و تحقیق کے ادارے سرپرستی کے نظام سے آزاد ہو گئے اور انھیں آزاد و خود مختار اداروں کی صورت مل گئی۔ برطانیہ میں رائل سوسائٹی کا قیام اور اس کے کچھ عرصہ بعد پیرس میں سائنس اکادمی کا قیام اس انقلاب کے اہم سنگ ہائے میل ہیں۔

اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ علمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ مذہب نہیں بلکہ دنیوی اختیار و اقتدار رہا ہے۔ البتہ یہ معاملہ اس وقت زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے جب سیاسی اور مذہبی اقتدار ایک ہی فرد یا ادارے میں مجتمع ہو جائے۔ علمی ترقی کے لیے لازم ہے کہ ایسے آزاد اور خود مختار اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں کام کرنے والے مختلف مسائل پر تحقیق کریں اور اس تحقیق کے نتائج کو کسی خوف اور ڈر کے بغیر بیان کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments