ڈپریشن کے تیس دن


جہاں تک مجھے معلوم ہے میں ایک خوش بلکہ خوش ترین جانور ہوں۔ یہ صرف میرا دعویٰ نہیں ہے بلکہ میرے دوست بھی اکثر اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ مشکل اور خشک ترین حالات میں بھی مجھے انہوں نے مسکراتا ہوا ہی پایا ہے لیکن وہ غالبٓ مرحوم کہتے ہیں ناں!

ع دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟

پچھلے ماہ میں قریباً قریباً کلینیکل ڈپریشن کے آس پاس بھٹکتا رہا ہوں۔ میرا خیال ابتدا میں تو یہی تھا کہ چلو اچھی بات ہے خوشی سے تھوڑی نجات مل گئی یا یوں کہیے کہ اب خوشی کا زیادہ مزا آئے گا لیکن اس ڈپریشن اور انگزائٹی نے جب معمول کی زندگی کو متاثر کرنا شروع کیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں اپنی عادت کے مطابق اس ڈپریشن کو بھی انجوائے کر رہا ہوں جو کہ ایک اچھی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بری علامت بھی ہے۔ گویا آپ کسی سستے نشے میں گرفتار ہو جائیں جو ایک طرف تو آپ کو سرور بخش رہا ہو اور دوسری طرف آپ کی سماجی زندگی کو بری طرح متاثر کر رہا ہو۔

ان تیس دنوں میں مجھے ایک دفعہ بھی یہ خیال نہ آیا کہ مجھے اس پریشانی سے نکلنا چاہیے۔ میں اداس تھا، پریشان تھا، ایک مسلسل اذیت سے دوچار تھا لیکن میں نے اس حالت سے محبت کرنا شروع کر دی تھی۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ جن لوگوں کو ہمارا آئیڈیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے وہ سارے کے سارے اداس روحوں کے حامل تھے۔ ویسے بھی تخلیقی کام زیادہ تر اداس لوگ ہی کرتے ہیں یا پھر شاید تخلیق لوگوں کو اداس کر دیتی ہے۔ خیر جو بھی ہو، میں دراصل اس موضوع پہ بات اس لیے کرنا چاہ رہا تھا کہ وہ معاملات سانجھے کر سکوں جنہوں نے مجھے اس حالت سے نکلنے میں مدد کی۔ یہ بات سو فیصد ٹھیک ہے کہ اگر آپ کبھی اس حالت میں جائیں تو یہ معاملات ذرہ بھی مفید ثابت نہ ہوں اور اس کے برعکس آپ بھی اس حالت سے ان معاملات کے بعد جادو کی طرح نکل جائیں۔

1) ۔ سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔

اور کچھ ہو نہ ان تین مشکل ترین سالوں میں ہماری قوم کو یہ خوبصورت جملہ ضرور مل گیا ہے کہ جسے آپ ہر طرح کی صورتحال میں استعمال کر سکتے ہیں اور خاص طور پر ان حالات میں جو معمول کے مطابق نہ ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ان حالات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم یہ قبول نہ کریں کہ ہماری یہ حالت ہے۔ میرا پہلا ہفتہ تو اس حالت کے انکار میں ہی گزرا ہے۔ میں بار بار خود کو ہی باور کرواتا رہا ہوں کہ میں بالکل ٹھیک ہوں، مجھے کچھ نہیں ہوا وغیرہ وغیرہ۔

جب آپ اس صورتحال کو قبول کر لیں تو پھر گھبرائیں نہیں کہ خدا جانے کون سی انہونی ہو گئی ہے۔ بے شک آپ نہایت بری حالت میں ہیں۔ آپ کی راتیں نیند کی نعمت اور پیٹ خوراک کی نعمت سے محروم ہے، آپ کی شام دوستوں کی محفل میں گزرنے کی بجائے اپنے بند کمرے میں گزرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ اگر یہ حالت آپ کا شیڈول نہیں ہے تو یہ ایک معمولی بات ہے۔ سال میں ایک، دو دفعہ چند دنوں کے لیے اس طرح ہونا ایک نارمل بات ہے۔ بجائے اس حوالے سے گھبرانے کے اس کو دور کرنے کے لیے مناسب اقدام کریں۔

2) ۔ مدد مانگیں

ان دنوں مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ آپ اپنے معمول کے دن کس طرح گزارتے ہیں۔ یہ طے کرتا ہے کہ آپ کے غیر معمولی دن کیسے گزریں گے۔ دوستوں اور پھر قریبی دوستوں کا سب سے بڑا فائدہ نفسیاتی طور پر یہی ہے کہ وہ اس طرح کی حالت میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں بجائے اس کے کہ آپ اپنی اداسی اور پریشانی چھپائیں، آپ کو اس کا اظہار کرنا چاہیے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ بہت قریبی دوست آپ کے لہجے اور رویے سے بھانپ لیتے ہیں کہ آپ مشکل حالات سے گزر رہے ہیں لیکن ممکن ہے کہ ان کا دماغ اپنی ذاتی الجھنوں میں الجھا ہو اور وہ آپ کے غمگین رویے اور پھیکی مسکراہٹ پہ غور نہ کر پا رہے ہوں۔ لہٰذا غالبٓ کے بالکل متضاد

میں بھی منہ میں زباں رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

آپ اپنی پریشانی اپنے دوستوں کو بتائیں اور پھر خاص طور پہ اگر آپ نے خوشی کے ایام ان کے ساتھ خوش ہو کر بتائے ہوں تو پھر ان کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ آپ کی بات سنیں اور ان حالات میں آپ کا ساتھ دیں۔ اس طرح یہ ہو گا کہ ایک تو وہ آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ آپ اس طرح محسوس کریں گے کہ آپ اکیلے نہیں ہیں اور دوسرا یہ کہ اس دوران وہ آپ سے ملاقاتوں اور دوسری توقعات کے زیادہ متقاضی بھی نہیں ہوں گے کیونکہ اس طرح کے حالات میں آپ کی توجہ اپنی ذات پہ مرکوز ہونی چاہیے۔

3) ۔ مناسب لوگوں سے مناسب مدد مانگیں۔

آپ کے حلقۂ احباب میں مختلف قسم کے لوگ موجود ہوں گے۔ کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہوں گے کہ اگر ان کو آپکی اس حالت کا علم ہو جائے تو وہ آپ کو مزید تنگ کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ بلاوجہ کے بے تکے سوالات کی بوچھاڑ سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ صرف ان لوگوں سے مدد مانگیں (یہاں مدد سے مراد قریباً ہر طرح کی مدد ہے۔ یہ آپ پہ منحصر ہے کہ آپ کیا پسند کرتے ہیں۔ مثال کے طور پہ اس دوران میں نے ایک قریبی دوست سے یہ مدد مانگی کہ وہ قریباً سارا دن میرے ساتھ گزارے لیکن اس شرط پہ کہ اس دوران ہم بالکل بھی گفتگو نہیں کریں گے ) ۔ جس کو آپ مناسب سمجھتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ معمول کے مطابق گزرے ہوئے دن غیر معمولی دنوں کا تعین کرتے ہیں۔ اگر آپ کی دوستی مناسب لوگوں کے ساتھ رہی ہے تو یقیناً آپ کو ان حالات میں مناسب مدد مل جائے گی۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments