گلگت۔ بلتستان میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے اسباب


گلگت۔ بلتستان میں آئے روز خودکشیوں کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ روز خود کشی کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔ ان خودکشیوں کی بہت سی وجوہات ہیں جن پر تفصیلی تحقیق کی ضرورت ہے۔ خودکشیوں کی کچھ نمایاں وجوہات درج ذیل ہیں

1۔ غربت: معاشرے میں دولت کا عدم توازن ہے، غریب غریب تر اور امیر امیر تر بنتا جا رہا ہے۔ غریب کے بچوں میں احساس محرومی بڑھتی جا رہی ہے اور روزمرہ کے کام سر انجام نہیں دے سکتے ہیں اور نہ ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ روٹی، کپڑا، چھت میسر نہیں۔ غربت کی وجہ سے احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے اور تعلیم سے محروم غریب افراد جینے کی بجائے مرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

2۔ غیر ضروری خواہشات: معاشرے میں دولت کی نمود و نمائش بڑھ رہا ہے۔ موبائل، لیپ ٹاپ، موٹر، کار، مہنگے کپڑے جوتے اور زیورات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امیر زادے ان تمام چیزوں کی نمائش کرتے ہیں اور غریب گھرانے کے بچے ان اشیا کا تقاضا اپنے غریب والدین سے کرتے ہیں جو کہ وہ یہ ضروریات/خواہشات پوری نہیں کر سکتے اور جذباتی بچے خود کشی کرتے ہیں۔

3۔ محبت/دوستی اور پسند کی شادی: نو عمر بچے (لڑکے اور لڑکیاں ) اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں یا محلے میں ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرتے ہیں اور جذباتی طور پر ایک دوسرے کے بہت قریب آ جاتے ہیں۔ وہ چونکہ جذباتی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر جینا محال سمجھتے ہیں۔ ایسے میں اگر لڑکا یا لڑکی کی طرف سے بیوفائی ہو جائے یا پھر وہ شادی کرنا چاہے مگر ان کے والدین راضی نہ ہوں تو ایسے جذباتی بچے محبت میں ناکامی یا پسند کی شادی نہ ہونے سے خود کشی کرلیتے ہیں۔ بعض اوقات جب کبھی ایسی دوستیوں کا دوسرے لوگوں کو یا رشتہ داروں کو پتہ چل جاتا ہے تو معاشرے میں بدنامی کے خوف سے خود کشی کی جاتی ہے۔

4۔ غیرت کے نام پر قتل: بہت سی خودکشیاں دراصل غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں اور خود کشی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ کام لڑکی کے رشتہ دار اور والدین لڑکے کو قتل کر کے سر انجام دیتے ہیں۔ بہت دفعہ لڑکی کے اپنے والدین معاشرے میں بدنامی سے بچنے کے لئے اپنی بیٹی کو قتل کر دیتے ہیں اور بعد میں خود کشی ظاہر کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں قتل کے ایسے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

5۔ گھریلو ماحول، حالات اور سماجی روایات: بہت دفعہ سخت گھریلو ماحول اور حالات بھی گھر کے بہو اور بعض اوقات بیٹی یا بیٹے کو خودکشی پر مجبور کرتے ہیں۔ میاں۔ بیوی میں ہم آہنگی کا نہ ہونا، سسرال یا والدین کا ظلم و ستم، انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ معاشرے کے اندر میاں بیوی میں علیحدگی کو بہت ہی معیوب عمل سمجھا جاتا ہے۔ اور بہت دفعہ والدین اپنی بیٹیوں کو کہتے ہیں کہ جتنا بھی ظلم ہو برداشت کرنا ہے اور طلاق لینے سے بہتر ہے کہ تم وہی پر مر جاؤ۔ ایسے حالات میں بہت سی شادی شدہ خواتین ظلم و ستم سے تنگ آ کر خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

6۔ گریڈ، نمبرات اور پوزیشنز کے لئے دوڑ: اکثر والدین اپنے بچوں کو تنبیہہ کرتے ہیں کہ وہ امتحان میں پہلی، دوسری یا تیسری پوزیشن حاصل کرے یا، 80، 90 % نمبرات حاصل کرے ورنہ وہ ان کو اسکول سے نکال دیں گے یا ان کا جیب خرچہ بند کر دیں گے یا کوئی اور سزا دیں گے۔ والدین کی ناراضگی اور غصہ بچوں پر بری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ ضروری بات ہے کہ ہر بچے کے سمجھنے کا اپنا الگ معیار ہوتا ہے۔ امتحانات میں نمبرات کی اس دوڑ کی وجہ سے بہت سے بچے خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

تعلیم کا مقصد صرف زیادہ نمبرات حاصل کرنا ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ تعلیم کا مقصد اچھی سمجھ، جائزہ لینا، پرکھنا اور اور پھر اس علم کا مثبت استعمال ہوتا ہے۔ اور تعلیم و تربیت کا بنیادی مقصد معاشرے کا ایک اچھا فرد بنانا اور بچے کی دلچسپی اور مہارت کے مطابق ایک کامیاب لیڈر بنانا ہونا چاہیے نہ کہ رٹا لگا کر زیادہ نمبرات لینا۔ اور ہاں وہ بچے لائق تحسین ہیں جو سمجھ کر پڑھتے ہیں اور نمبرات بھی زیادہ حاصل کرتے ہیں اور پوزیشنز بھی حاصل کرتے ہیں۔

لیکن وہ بچے جو کسی وجہ سے کم نمبرات حاصل کرتے ہیں وہ بھی برابر داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ آج نہیں تو کل وہ کسی نہ کسی شعبے میں اپنا لوہا منوا لیں گے۔ اس معاملے میں تعلیمی اداروں کو بھی اپنا رول ادا کرنا ہو گا۔ سال کے آخر میں یا سیمسٹر کے آخر میں سمیٹیو اسسمنٹ پر انحصار کم سے کم کر کے فارمیٹیو اسسمنٹ جس میں جامع شخصیت کی نشوونما کو جانچا جاتا ہے کے ماڈل کو اپنانا ہو گا۔ ہمیں بچوں کو صرف نمبرات حاصل کرنے کی مشین بنانے کی بجائے ان کو معاشرے کا سمجھدار، ذمہ دار اور کامیاب افراد بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

7۔ مذہبی اقدار سے دوری: آج کل کے اس مادیت پسند دور میں جہاں بچے موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال تعلیمی اور تعمیری مقاصد کے لئے کرتے ہیں وہاں پر بہت سے بچے ان کے غلط استعمال کی وجہ سے بے راہروی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اور وہ اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ بری صحبت اور منفی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ بے راہروی کا شکار ہو کر مذہب سے دور ہو جاتے ہیں۔ مذہب سے دوری اور غلط دوستوں کی صحبت ایسے بچوں کو خود پسند اور شر پسند بنا دیتا ہے۔

جب مشکل وقت آ جاتا ہے تو ایسے بچے نہایت پریشان ہو جاتے ہیں اور ان مشکلات کا مقابلہ سوچ سمجھ اور ہمت سے کرنے کی بجائے تنہائی کا شکار ہو کر خود کشی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ان بچوں کو اس بات کا علم و احساس نہیں ہوتا ہے کہ خودکشی حرام ہے۔ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے محنت، عزم، حوصلہ و ہمت کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت اور دعا و بندگی بھی ضروری ہے۔ والدین کی فرمانبرداری اور معاشرے میں آنریری خدمت، دوسروں کی مدد اور بھائی چارے کے ساتھ رہنے کا شعور اور جذبہ بھی ضروری ہے۔

8۔ عزیز و اقارب کے ساتھ خیالات کا تبادلہ: اس مادیت پسند دنیا میں آج کل قریبی رشتوں میں دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ بچے اور والدین اپنے اپنے کمروں میں مصروف رہتے ہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ نے اس دوری کو بہت بڑھا دیا ہے۔ بچے زیادہ تر وقت موبائل پر سوشل میڈیا، گیمز، موویز یا اور مواد دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے پاس والدین، بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے روزمرہ کے معاملات اور مشکلات پر بات چیت کرنے ان مسائل کا حل ڈھونڈنے اور ہنسی خوشی میں شریک ہونے کا وقت نہیں ہوتا ہے۔

جس کی وجہ سے والدین اور بچوں میں دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ اور بچے سوشل میڈیا کی دنیا میں گم رہتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے وقت کا زیادہ ہوتا ہے بلکہ وہ تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کمیونیکشن گیپ کی وجہ سے وہ اپنی اندر کی پریشانیوں کو اپنے قریبی عزیزو اقارب (والدین، بہن بھائی اور دوست ) تک نہیں پہنچا پاتے ہیں اور وہ مسائل کا حل ڈھونڈنے کی بجائے خودکشی کا انتہائی قدم اٹھاتے ہیں جو کہ نہایت ہی افسوسناک عمل ہے۔ رشتوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے۔

9۔ سماجی، ثقافتی اور کھیلوں کی سرگرمیاں : آج کل علاقائی رسم و رواج ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے گلگت۔ بلتستان کے ہر علاقے میں اپنے اپنے رسم و رواج اور تہوار لوگ بڑے شوق اور جذبے کے ساتھ مناتے تھے جس کی وجہ سے گاؤں میں لوگوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کی اقدار فروغ پا رہی تھی۔ آج کل یہ ثقافتی تہوار ختم ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو مثبت سرگرمیوں کا موقع نہیں ملتا ہے، بھائی چارے کی فضا کم ہو رہی ہے اور ساتھ ساتھ یہ ثقافتی تہوار بھی اپنا وجود کھو رہے ہیں۔

پرانے زمانے میں گاؤں میں مختلف قسم کے دیسی کھیل بچوں میں مشہور تھے جیسے گلی ڈنڈا، باسریا، رابٹ، ساپوک، قیردنگ، ڈوکے، چھارئے، بولہ، فٹ بال، والی بال وغیرہ ان میں سے بہت سے کھیل آج کل معدوم ہوچکے ہیں اور آج کل کے بہت سے بچوں کو ان کھیلوں کا علم بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ دیسی اور علاقائی کھیلوں اور تہوارات کو محفوظ کرنے کا انتظام نہ ہونا اور پھر ملکی سطح پر کرکٹ کی مشہوری کی وجہ سے بچوں کا رجحان تبدیل ہونا ہے۔

ان جسمانی ورزشی کھیلوں کی جگہ آج کل بچے ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں اور زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر یا پھر ویڈیو گیمز کھیلتے ہوئے صرف کرتے ہیں۔ جسمانی ورزشی کھیل نہ صرف جسمانی نشو نما کے لئے ضروری ہیں بلکہ ذہنی سکون، ورزش اور اندر کی مایوسی اور غصہ کو نکال پھینکنے کے لئے بھی ضروری ہیں۔ بچوں کو روزانہ ایک گھنٹہ کوئی جسمانی ورزشی کھیل کھیلنا چاہیے یا پھر ایک گھنٹہ دوڑ یا واک کو معمول بنانا چاہیے۔ ایک صحت مند جسم ایک صحت مند دماغ اور روح کے لئے ضروری ہے۔

10۔ خوراک اور ماحولیات کے اثرات: گلگت۔ بلتستان ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ یہاں کے باسی جہاں بہت مہمان نواز، بہادر، خوش اخلاق اور عزت دار ہیں وہاں یہ جذباتی بھی بہت ہیں۔ پہاڑوں کی اپنی خاصیت ہے یہ دھوپ پڑنے پر جلد گرم ہوتے ہیں اور رات کو ایک دم ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ پہاڑوں کی یہ خاصیت یہاں کے باسیوں میں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ گلگت۔ بلتستان میں سردیوں میں سخت ٹھنڈ اور موسم گرما میں گرمی بھی زیادہ ہوتی ہے۔

ان انتہائی موسمی عوامل کا بھی لوگوں کے طرز عمل پر اثر ہوتا ہے۔ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں /چیزوں پر بحث و تکرار، لڑائی چھڑ جاتی ہے۔ عدم برداشت کی وجہ سے بعض اوقات دوسروں کی جان لیتے ہیں اور بہت دفعہ اپنی ہی زندگی کا چراغ گل کر دیتے ہیں۔ پہاڑی علاقے کے رہنے والے لوگ گوشت زیادہ پسند کرتے ہیں جو کہ پروٹین کی مقدار اس میں زیادہ ہوتی ہے اور یہ گوشت، گھی اور مرغن غذائیں جسمانی نشو و نما میں تبدیلی کے ساتھ ہارمونز کے عمل کو بھی تیز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے جذباتی عدم توازن، برداشت میں کمی، غصہ میں زیادتی جیسے عوامل رونما ہوتے ہیں۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ یہاں پر عدم برداشت، بے چینی، ذہنی دباؤ، ہائی بلڈ پریشر، فالج، دل کا دورہ اور برین ہیمرج جیسی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ لوگوں کو متوازن غذائیں کھانے کی ضرورت ہے اور زیادہ سے زیادہ سبزیاں اور پھل فروٹ کھانے جبکہ نمک، چینی، تیل، گھی کا استعمال کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments