کالعدم ٹی ٹی پی سے بار بار مذاکرات


ملکی سالمیت کے وسیع تر داخلی اور خارجی تناظر میں انتہائی ہولناک اور افسوس ناک سانحات پر سنجیدہ غور و فکر متقاضی ہے کہ عوام کے تحفظات و تشویش کو دور کرنے کے لئے ریاستی حکمت عملی کو واضح کیا جائے۔ شدت پسندوں کے ہتھیار ڈالنے پر معافی کے اعلان اور کالعدم تنظیموں سے مذاکرات کی خبروں سے ایک بے یقینی پائی جا رہی ہے، اس پر عوام، سول سوسائٹی اور حزب اختلاف کے خدشات سامنے آئے ہیں کیونکہ عوام (پارلیمنٹ) کو اعتماد میں لئے بغیر ایک بار پھر وہی عمل دوہرایا جا رہا ہے جس کے نتائج ماضی میں توقعات کے برخلاف نکلے اور ملک میں دہشت گردی اور شدت پسندی کا خاتمہ نہیں ہوسکا لیکن جب بھی ایسے علاقوں میں فوجی آپریشن کیا گیا تو بیشتر سیاسی جماعتوں کی تائید اور مکمل حمایت کی تھی جس کے نتیجے میں مسلح افواج نے شدت پسندی کے خلاف بے رحم آپریشنز کیے، آپریشن کامیاب بھی ہوئے اور کالعدم تنظیموں کے سرکردہ شدت پسند جنگجو افغانستان فرار ہو گئے اور افغان سرزمین مملکت کے خلاف استعمال کیے جانے سے ناقابل جانی و مالی نقصان کا سلسلہ نہ رک سکا۔

وزیراعظم عمران خان نے ترک نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ کچھ ٹی ٹی پی گروپس سے، افغان طالبان کے تعاون سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق ’حکومت جانتی ہے کہ کون اچھے ہیں اور کون برے، اس لئے مذاکرات کیے جا رہے ہیں‘ لیکن وزیردفاع پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ’ٹی ٹی پی سے افغانستان یا پاکستان میں کوئی خفیہ مذاکرات نہیں کیے جا رہے‘ ۔ اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کا متضاد بیانیہ ہی دراصل عوام میں تحفظات کا سبب بنا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ’وہ حکومت کو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حق میں نہیں، معاملے پر بحث کے لئے ایوان کا اجلاس بلایا جائے۔ ‘ واضح رہے کہ ماضی میں شدت پسندوں کے ساتھ مذاکراتی عمل میں کوشش کی گئی تھی کہ وہ غیر مسلح ہوجائیں اور مذاکرات کے نتیجے میں بعض گروپس کے مطالبات بھی تسلیم کیے گئے۔ 2004 میں سب سے پہلے مذاکرات نیک محمد گروپ سے کیے لیکن چند مہینوں بعد ہی معاہدہ ختم ہو گیا۔

2006 میں ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود سے معاہدہ بھی ناکام رہا، 2008 اور 2009 میں ٹی ٹی پی سوات کے ملا فضل اللہ سے معاہدہ بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ 2014 میں ایک بار پھر ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہوئے لیکن یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ غور طلب پہلو ہے کہ ٹی ٹی پی سے قیام امن کے لئے اس وقت کی سیاسی حکومتوں نے ہی مذاکرات کیے، پی ایم ایل ن، پی پی پی اور اے این پی کی وفاقی و صوبائی حکومتوں نے ان کے مطالبات بھی مانے لیکن کالعدم تنظیم نے غیر مسلح ہونے کے بجائے خود کو مزید منظم اور مضبوط کیا اور عوام کے لئے شدید تکالیف کا سبب بنے۔

پی ٹی آئی اس بار افغان طالبان کے تعاون سے جن گروپس سے مذاکرات کر رہی ہے ان کے نام تو ظاہر نہیں کیے گئے لیکن ذرائع کے مطابق یہ وہ گروپس ہیں جو منظم و مستحکم نہیں رہے اور شدت پسندی کے ان گنت واقعات میں انہوں نے براہ راست کسی دہشت گردی کے واقعے کی ذمے داری بھی قبول نہیں کی۔ کالعدم ٹی ٹی پی، پاکستان میں بدترین شدت پسند کارروائیوں میں ملوث رہی اور افغانستان میں داعش خراساں کے ساتھ، اتحادی بننے کے بعد شمال مغربی علاقوں میں مسلح افواج کے خلاف مسلح کارروائیاں کرتے اور اس کی ذمے داری بھی قبول کرتے رہے۔

افغان طالبان تو کہہ چکے کہ ٹی ٹی پی، پاکستان کا مسئلہ ہے لیکن انہوں نے یہ بھی یقین دہائی کرائی تھی کہ ان کی سرزمین سے پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاک۔ افغان بارڈر پر باڑ لگنے کے بعد شدت پسندی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی لیکن پاک۔ ایران سرحد اور افغان۔ ایران سرحد کو ابھی تک محفوظ نہیں بنایا جا سکا اس لئے آئے روز دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ مسلح افواج کے خلاف رونما ہوتا رہتا ہے۔

شدت پسندی کو جڑ سے ختم کرنے میں شاید کئی برس لگ سکتے ہیں کیونکہ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں شدت پسند مختلف بہروپ میں نہ پائے جاتے ہوں، لہذا اس ضمن میں یہ تصور کرنا کہ بھارت جیسے ملک کے ہوتے ہوئے اور اس کے پھیلائے ہوئے زہر سے افغانستان میں اثر ختم ہو چکا تو یہ ہماری غلط فہمی ہوگی کیونکہ ناسور کا علاج کرنا بڑا کٹھن اور وقت طلب کام ہے۔

قریبا ہر متشدد جنگ کا اختتام مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے افغانستان کی جیتی جاگتی مثال موجود ہے، اس سے قبل ایران و عراق کے درمیان برسوں کی جنگ کا خاتمہ بھی مذاکرات کی ٹیبل پر ہوا تو پاک۔ بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگیں بھی مذاکراتی میز پر ہی ختم ہوئیں، بدتر حالات کے تناظر میں اگر کوئی ایسی یقین دہانی عوام (پارلیمنٹ) کو مطمئن کر سکتی ہے کہ مسلح گروپ، ہتھیار ڈالنے کے بعد نارمل زندگی بسر کرنے لگیں تو ماضی کے تجربات اچھے نہیں رہے، تاہم اگر ہم یہ سوچ رکھتے ہیں کہ افغان طالبان انہیں روک دیں گے تو یہ بھی دشوار گزار مرحلہ ہو گا کیونکہ ٹی ٹی پی کے جو مطالبات ہیں وہی افغان طالبان کے رہے ہیں، اس لئے ممکن نظر نہیں آتا کہ شدت پسندوں کے ساتھ، قربانیوں دینے والے عوام گلے لگنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوجائیں گے۔

مسلح افواج نے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن بلیک ٹھنڈر سٹورم، آپریشن خیبر، آپریشن راہ راست، آپریشن راہ حق، آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کیا، جس کے نتیجے میں مملکت میں بڑے پیمانے میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ورنہ اس سے قبل عوامی مقامات، مساجد، بارگاہوں، مزارات اور سرکاری املاک سمیت حساس و مرکزی فوجی مراکز کو بھی نشانہ بنایا جاتا تھا جس کو سیکورٹی فورسز نے قربانیوں کے بعد روکا۔

ریاستی ادارے اس امر کی اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کریں لیکن حکومت کی رٹ کیوں کمزور نظر آ رہی ہے اس پر غور کی ضرورت ہے، کیونکہ گروپس خود کو منظم کرنے کے لئے مذاکرات کے نام پر مہلت چاہ رہے ہیں تاکہ ماضی کی طرح وہ فائدہ اٹھا کر ایک بار پھر ریاست کو چیلنج کریں اور ملک بھر میں بے خوف پھیل جائیں۔ عوامی تحفظات کو دور کرنا حکومت کی ذمے داری ہے جو اسے پارلیمان کی کھلی بحث میں حصہ لے کر دور کرنا چاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments