نکتہ نظر کا اطلاق۔ اجتماعی یا انفرادی


کچھ دن قبل احقر العباد کی نظر سے ایک پوسٹ گزری جس میں سورۃ یوسف کا خلاصہ یہ دیا گیا تھا کہ بچھڑے ہوئے مل جاتے ہیں، جن کو چاہا جاتا ہے ان سے وصل ہوجاتا ہے اگر اللہ چاہے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر اس سورۃ کے اندر جو اتنا اہم موضوع زیر بحث لایا گیا ہے، اور جس سے ہمیں بہت ہی عمدہ معلومات ملتی ہیں، اس کا ذکر ندارد تھا۔ جس کی بایں وجہ ہماری سوچ کا کل مطمح نظر انفرادیت یا اپنی ذات کی تسکین و فلاح تک محدود ہو کر رہ جانا ہے۔ وگرنہ ہمارے اندر اجتماعی فلاح و بہبود کے واسطے کہیں کوئی گنجائش اگر باقی رہتی تو سورۃ کا وہ اہم حصہ ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہوتا۔

قرآن مجید بنیادی طور پر اخلاق، کردار، معاملات اور افکار کی درستگی کی جانب رہنمائی کرنے والی کتاب ہے۔ جس کا اطلاق انفرادی سطح کے ساتھ ساتھ اجتماعی سطح پر بھی ہوتا ہے۔ تاہم اس کتاب کے افکار کو محض انفرادی سطح تک محدود کرنے کا مطلب، اس کی افادیت کو کم کرنا نہیں بلکہ کھونا ہے۔ لہذا اس سورہ کی ہی جانب اگر ہم متوجہ ہوں، تو وہاں ہمیں اجتماعی فلاح و بہبود کا ایک ایسا جامع نکتہ ملتا ہے، جو ہمارے آج کے دور کے سب سے بڑے مسئلے بھوک کو حل کرنے میں ہماری معاونت فراہم کرتا ہے۔

چنانچہ سورۃ یوسف کے اندر حضرت یوسف علیہ السلام کی سیرت کا وہ پہلو جس میں وہ بطور وزیر خزانہ سات برس تک نہ صرف اپنی قوم، بلکہ اردگرد کی دوسری اقوام کو بھی شدید قحط سالی میں ہلاکت سے بچاتے ہیں اور اپنی عمدہ بصیرت کی بدولت غلے کو اس انداز سے استعمال کرتے ہیں کہ ان سات برس میں نہ تو غلے کی قلت پیدا ہوتی ہے، اور نہ ہی قوم بھوک سے مرتی ہے اس کی جانب ہماری سوچ متوجہ نہیں ہوتی۔ یہاں ہر دوسرا خطیب ٹسوے بہاتا حضرت یوسف علیہ السلام کے بے مثال حسن کی تعریف میں رطب اللسان تو نظر آتا ہے، مگر بطور حاکم انہوں نے اپنی ذمہ داریاں کیسے نبھائیں، ان سے دانستہ یا نادانستہ طور پر غافل ہے۔ وہ اس بات کو بالکل سوچنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ حسن، خدا کی عطا ہے کوئی فضیلت نہیں ہے۔ لہذا حضرت یوسف علیہ السلام کی فضیلت بطور نبی، منصف، ایک تجربہ کار وزیر خزانہ اور امانت دار کے ہے، جس کی جھلک ہمیں سورۃ یوسف کے اندر نظر آتی ہے۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو اپنے اردگرد کو متاثر بھی کرتا ہے، اور خود متاثر ہوتا بھی ہے۔ تاہم اگر آج کا مسلمان اس سوچ کا مالک ہے کہ محض انفرادی سطح پر چند رسمی عبادات کو بجا لاکر، ایک بڑے حصے کو دین اسلام سے متاثر کر سکتے ہیں، تو اس کا یہ موقف اصولی طور پر غلط ہے۔ اس لئے کہ اسلام ایک مذہب کا نام نہیں بلکہ یہ ایک دین ہے۔ جس کا اپنا سیاسی اور معاشی نظام ہے۔ اور یہ نظام محض کتب میں پڑھنے اور حظ اٹھانے کے واسطے نہیں، بلکہ نافذ کرنے اور اس کے ذریعے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچانے کی خاطر محمد عربی ﷺ پہ نازل ہوا تھا۔ لہذا اگر اسلام سے کلی استفادہ حاصل کرنا مقصود ہے، تو وہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کا عادلانہ سیاسی اور معاشی نظام نافذ العمل ہو گا۔

قرآن مجید نے جو اس امت کو خیر امت کہا ہے، تو اس کی وجہ ٹیکنالوجی میں سبقت اور خلا کی تسخیر نہیں ہے۔ بلکہ اس امت کا وہ کردار ہے، جس کے ہر عمل سے اجتماعی فلاح و بہبود کی جھلک محسوس ہو۔ لہذا مسجد کا مقام ایک ایسے دربار کا تھا، جہاں اجتماعی فلاح و بہبود کے واسطے سوچ و بچار ہوتی تھی، اور شوری ان تمام معاملات کو زیر بحث لاتی تھی، جس کا تعلق پوری قوم کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس کی عملی جھلک ہمیں خود نبی اکرم ﷺ کی مبارک زندگی میں بھی نظر آتی ہے، کہ اپ ہر اہم کام کے لئے شوری کا اجلاس مسجد ہی میں بلاتے تھے، اور احباب سے رائے طلب کر کے اپنے لائحہ عمل کو واضح کرتے تھے۔ اس امت کی ہر اہم عبادت کو بھی اسی لئے اجتماعیت کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے، کہ اس کے پیش نظر یہ بات ہر آن واضح رہے، کہ اس کی انفرادی حیثیت، اجتماعیت سے مربوط اور اس میں ضم ہے۔

ہمارے اندر یہ سوچ اس قدر پختہ طور رچ بس چکی ہے کہ اسلام محض عبادات کا نام ہے۔ لہذا موجودہ سیاسی و معاشی نظام جو ظالم کے ہاتھ مضبوط اور کمزور کو سزا دینے پر مستعد رہتا ہے، مگر چونکہ مجھے اپنی انفرادی عبادات و اذکار کے واسطے مکمل آزادی ہے، سو مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں کہ میرے اردگرد کیا ہو رہا ہے، اور کون نظام کو چلا رہا ہے۔ تو سوچئے اگر یہی سوچ جماعت الصحابہ کی بھی ہوتی، تو وہ سیاسی و معاشی نظام جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے، وہ کہیں ہمیں عملی طور پر نظر آتا؟ یقیناً وہ قرآن کے اوراق ہی میں دب کر رہ جاتا، اگر قرن اول کی وہ جماعت بھی اس مغالطے کا شکار ہوجاتی، اور خانقاہ تک اپنے آپ کو محدود کر کے صبح شام کے اوراد و اذکار کے بجا لینے کو ہی اسلام جانتی۔

لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم خدا اور اس کے رسولﷺ کے آگے اس بات کے جوابدہ ہیں، کہ بطور امت ہم جو اجتماعی فلاح و بہبود کی جدوجہد کے واسطے جو ذمہ داری عائد کی گئی تھی، اس کی بجا آوری میں ہم نے اپنا حصہ کتنا ڈالا۔ کیونکہ یہ دین وہ دین ہے جو صرف اپنے متبعین کے واسطے نہیں بلکہ کل انسانیت کے واسطے خیر اور بھلائی چاہتا ہے۔ اور قرآن میں بھی خدا نے اپنا تعارف عالمین کے رب سے اور نبی مکرم ﷺ کا تعارف بھی کل جہانوں کے واسطے رحمت کے حوالے سے کروایا ہے۔

اور ہم بطور امت ان کے نائب ہونے کے، ہماری بھی سوچ اور فکر اگر کل انسانیت کی فلاح نہیں بلکہ اپنی انفرادی ذات تک محدود ہے، تو گویا ہم نبوت محمدیﷺ کے اس اہم حصے کی تکذیب کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ اس دین کا بانی اپنا تعارف بطور اجتماعی مصلح کے کروائے، اور ہم ان کی اس سوچ سے رو گردانی کرتے ہوئے، محض انفرادی سطح تک اپنے آپ اس طرح محصور کر دیں، کہ اجتماعی سوچ کا نظریہ ہی یکسر قلم مٹ جائے، تو اس سے بڑی زیادتی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے۔

آج جب دنیا میں بھوک اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے، اور پوری امت ظلم کا شکار ہے۔ ایسے عالم میں ہمارے پاس ایک مکمل فلاحی سیاسی اور معاشی نظام بھی موجود ہو، جو اس ظلم کا تدارک کرنے میں تریاق کا درجہ بھی رکھتا ہو، مگر ہم پھر بھی بے حسی کے انداز میں اس ظلم کو نظر انداز کیے رکھیں، اور اپنی دنیوی اور عقبیٰ کی فلاح کو ہی کار مقصود رکھیں، تو کیا اس سے بڑا ظلم، اس سے بڑی خیانت اور اس سے بڑا کوئی اور عذاب ہو سکتا ہے؟

یہ دین سرتاپا اجتماعیت اور کل انسانیت کی فلاح چاہتا ہے۔ تاہم اس کے فوائد جبھی ثمر آور ہوسکتے ہیں جبکہ اس کو بطور نظام مانا جائے اور اس کے اجتماعی تقاضوں کو سمجھا جائے۔ اگر عبادات اسلام کے طور پر مگر سیاسی نظام ظلم والا اور معاشی نظام سود والا ہو گا، اور اس پہ ہماری یہ سوچ کہ محض انفرادی تزکیہ سے تمام مسائل حل ہوجائیں گے، تو یہ وہ واہمہ ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ کیونکہ معاشرے پہ ظلم ہو رہا ہو اور اسلام اس پہ چپ رہے، یہ اجتماع ضدین ہے جو محال ہے۔

ہمارے نبی اکرم ﷺ نے تو مکہ میں بھی جب آپﷺ کے پاس کچھ نہ تھا، اس وقت بھی مظلوم کی حمایت میں کھڑے رہے، حتیٰ کہ ایک مرتبہ آپﷺ نے یہاں تک فرمایا تھا کہ انہیں آج بھی حلف الفضول معاہدے کی جانب کوئی دعوت دے، تو وہ بلا جھجک اس کی دعوت قبول فرما لیں گے۔ اور یہ حلف الفضول وہی معاہدہ ہے جس میں مکہ کے باسیوں نے یہ اقرار کیا تھا کہ وہ ظالم کے مقابلے میں مظلوم کا ساتھ دیں گے۔ مگر آج ہم اسی نبی کے امت کے دعویدار، اغیار کی سازشوں سے اس قدر نچلی سطح پہ اتر آئے کہ ہمارا کل دین اسلام انفرادیت تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، اور اجتماعی بہتری کے حوالے سے ہمارے اذہان و قلوب مقفل ہوچکے ہیں۔

اس کی ایک وجہ ہمارے یہاں ہر دوسرے دن ایک نئے صوفی با صفا کی دریافت ہے، جو اپنی طرف متوجہ انسانوں کو محض اپنی ذات کے گنبد میں محصور ہو جانے اور انفرادی فلاح و بہبود کے سوا دوسرا کچھ نہ دیکھنے کا درس دیتا ہے۔ لہذا ایسے ماحول میں افراد انسانی میں اجتماعی فلاح و بہبود کا کوئی لائحہ عمل کہاں سے پنپ سکتا ہے۔ اور وہ تمام رویے اور عادات جو سابقہ امم کا خاصہ تھے، وہ اس امت میں بھی اس طور سرایت کر گئے ہیں کہ فی زمانہ اجتماعی فلاح و بہبود کی سوچ رکھنے والے انسان کی ذہنی کیفیت کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments