گہرے حلقے


بھڑکتی ہوئی آگ، چمکتے ہوئے بلب، اور ان سب کی آغوش میں سہمے ہوئے بابا جی، آپ ڈیرے کی اس کوٹھڑی میں اپنے تمام تر حواس سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے جہاں اگر کوئی بھولے سے بھی آ جائے تو حواس کھو بیٹھتا ہے۔ دسمبر کی یخ بستہ رات تاریکیوں میں ڈھلتی جا رہی تھی۔ وہ آگ جو پہلے بھڑک رہی تھی معدوم ہوتے انگاروں کی شکل اختیار کر گئی۔ وہ کوٹھڑی جو کچھ سمے پہلے خوب گرم تھی اور اپنی آغوش میں لیے انسانوں کو بھی گرم رکھے ہوئے تھی، اب ٹھنڈی پڑ رہی تھی۔

چونکہ بابا جی نے ابھی تک کھانا بھی نہیں کھایا تھا، تو میں اور قاسو خود چادروں میں لپٹے اور کھانے کو لحافوں میں لپیٹے ڈیرے کی انگیٹھی والی کوٹھی جہاں بابا جی بیٹھے ہوئے تھے

وہاں آن پہنچے۔ اندر جاتے ہی ہم نے یہ بھانپا کہ ایسا شخص جو لوگوں کے لیے باعث مسرت ہے رات کے پچھلے پہر اکیلا نہایت ہی بے مروت ہوئے بیٹھا ہے۔ قاسو نے دوسرے کمرے میں کھانا لگا دیا۔ میں ان کی حالت دیکھ کر پریشان سا ہو گیا، مجھے دیکھ کر اپنی افسردگی میں کمی لانے کی کوشش کی اور آمد کی وجہ پوچھی۔ دل تو بہت کیا کہ پریشانی کی وجہ پوچھوں مگر چمکتے چہرے کے رعب کی وجہ سے صرف کھانے کی دعوت دینے تک ہی اکتفا کیا، اور ان کی جواب کا انتظار کرنے لگا۔

مجھے تاثرات بتاتے تھے کہ وہ اب بھی کھانے کے لیے نہیں آئیں گے۔ اور میرا شک درست نکلا، انہوں نے قاسو کو بلایا اور کہا کی کھانا واپس لے جاو اور تین کپ چائے بنوا لاؤ۔ بابا جی جیسے ہی معدوم ہوتے انگاروں کی طرف دیکھتے تو ان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ میں نے صورت حال دیکھتے ہی پھونکوں سے آگ بھڑکانا چاہی تو انہوں نے روک دیا۔ میں نے پوچھا کی انگیٹھی سے

مزید آگ لاؤں تو بھی سر نفی میں ہلا دیا۔ آخر کار میں نے پوچھ ہی ڈالا کہ تمام معاملات تو ٹھیک ہیں، مگر آپ اتنے پریشان ہیں کی جیسے بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو۔

پیشانی پر انگوٹھا اور انگلیاں ملتے ہوئے ہونٹوں کو جنبش دی کہ وہ کچھ مسکراہٹ کا اظہار کر سکیں۔ کافی دیر چپ رہنے کے بعد کہنے لگے مٹھو! آج کوئی نقصان تو نہیں ہوا مگر کچھ ایسا دیکھ بیٹھا ہوں کی جو نہایت خوشی کا باعث تھا لیکن وہی نہایت پریشان بھی کر گیا۔ اب میری پریشانی میں بھی مزید اضافہ ہو گیا کہ ایسا کیا دیکھ بیٹھے ہیں، اس کے بارے میں جاننے کا میرا تجسس بڑھنے لگا۔ اتنے میں قاسو آ گیا اور کہا لؤ میاں جی چاہ!

قاسو کو شاباشی کا تھا پڑا مارا اور تھوڑے توقف کی بعد بولے کہ ابھی جب ادھر کو آ رہا تھا تو حویلی والوں سے تیرا پوچھا، پتا چلا کہ پڑھائی کر رہا ہے اور تیری بے بے نے ساتھ یہ بھی کہے دیا کہ ”کم بخت کہتا ہے کہ زندگی ملک و ملت کے لیے رکھ چھوڑی ہے، اس میں برا تو نہیں! مگر گھر والوں کا کیا ہو گا اکیلا وارث ہے آخر“ ۔ میں ہنسا اور تیرے کمرے کی طرف گیا تو دیکھا کہ دیوار پر آپ نے لکھ رکھا تھا

”خواب پورے کر لو یا نیند پوری کر لو“

تمھاری لکھی اس عبارت نے خوش اور عین وقت ہی پریشان بھی کر دیا۔ چائے کی سڑکی لگا کر بولے تمھارے اگلے سوالوں کا جواب ہے کہ جب میں لڑکپن میں تھا تو خوابوں، ولولوں اور ہمتوں میں بہت ہی آگے۔ ایک آگ سی لگی تھی سینے میں جو بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ سننے کو ملنے لگا کہ کوئی نہیں، کچھ نہیں، ملک کے لیے کچھ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی کرتا ہے، بس یہ نوجوان خون ہے اور بہت جوش مارتا ہے۔ پہلے تو یہ الفاظ بہت ناگوار گزرتے تھے۔

لیکن رفتہ رفتہ اس انگیٹھی میں پڑی آگ کی طرح جذبات کی آگ بھی ان بجھتے انگاروں کی طرح ماند پڑ گئی۔ اور معاشرے کی منفی سوچ دل میں گھر کر گئی۔ اور آج میں نکما دل میں تمام دکھ درد لیے حکومت اور لوگوں کو کوستا رہتا ہوں مگر کچھ نہیں کر سکتا۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سے دلوں میں سے لڑکپن کی آگ کو بجھتے دیکھا۔

چائے کی سرکی لگاتے ہوئے بولے مٹھو یاد رکھیں خواب اگر پورے نہ ہوں تو آنکھوں کے گرد گہرے حلقے بن جاتے ہیں جو تمام معاشرے میں ہماری بد صورتی عیاں کیے پھرتے ہیں۔

اس لیے پریشان تھا کہ کہیں تیری آنکھیں بھی گہرے کنؤوں کی زد میں نہ آ جائیں اور اس قوم کا ایک اور سپوت غم کی وادی میں نہ گم ہو جائے۔ بابا جی کی باتوں کے طاری کردہ ایسے سحر میں تھا کہ چائے کی ایک بھی سرکی نہ لے سگا۔ کہنے لگے کہ اس گرم چائے اور اور گرم سینے کا فائدہ اٹھاؤ اور کچھ کر ڈالو، یوں ٹھنڈی پڑی چائے اور ٹھنڈے پڑے جذبات تو انسان کو جیتے جی مار دیتے ہیں۔

خالد جنید
Latest posts by خالد جنید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments