بھٹو کی بے گناہی جنرل (ر) اسلم بیگ کی زبانی


سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے اپنی زندگی میں پیش آنے والے اہم واقعات کو ایک کتابی شکل میں جمع کر کے اس کتاب کا نام اقتدار کی مجبوریاں رکھا۔ جنرل (ر) اسلم بیگ چونکہ لکھاری نہیں ہیں تو اس لیے انہوں نے کتاب کو سوال جواب کی صورت میں لکھا ہے۔ کتاب میں ان کی زندگی میں پیش آنے والے اہم واقعات سے متعلق سوالات کیے گئے ہیں جس کا انہوں نے جواب دیا ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 298 پر جنرل صاحب سے سوال کیا گیا کہ ”عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے حزب اختلاف نے پی ڈی ایم کے نام سے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ کچھ سیاسی عناصر اس تحریک کو 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو گرانے کے لیے قائم ہونے والی تحریک پی این اے کا دوسرا جنم کہہ رہے ہیں۔ آپ اس تحریک کے بارے میں کیا کہیں گے؟“

اس سوال کا جو جواب جنرل (ر) اسلم بیگ نے دیا وہ بہت توجہ طلب ہے۔ ایک سابق آرمی چیف کا جواب بہرحال کسی بھی آدمی کے جواب کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ”اس تحریک یعنی پی ڈی ایم کا موازنہ 1977 میں قائم ہونے والے پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے ) سے کرنا نا انصافی ہوگی کیونکہ پی این اے اور حال ہی میں 2020 میں آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ترتیب پانے والی پاکستان ڈیمو کریٹک تحریک (پی ڈی ایم ) میں ایک اہم فرق ہے۔ پی این اے سیاسی جماعتوں کے درمیان طے پانے والا ایک اتحاد تھا جبکہ پی ڈی ایم ایک جمہوری تحریک ہے۔ یہ باریک فرق ماضی میں قائم ہونے والے اتحاد میں سازشی کھیل اور حالیہ ترتیب پانے والی تحریک کے مقاصد کا فرق بھی ظاہر کرتا ہے۔ پی این اے کو پس پردہ بیرونی ہاتھوں نے تشکیل دیا تھا جو بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کے خواہاں تھے :”

کیونکہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی تھے، انہوں نے پاکستان میں اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس بلا کر مسلم امہ کے مابین اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی تھی جس کا کوئی قائد نہیں تھا مگر سعودی عرب کے شاہ فیصل اس تنظیم کی قیادت کرنے پر رضا مند ہوئے تھے اور یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے چین کے ساتھ ہمارے تذویراتی تعلقات کی بنیاد رکھی۔“ سیاسی طور پر بھٹو کی پوزیشن نہایت مضبوط تھی اور انہیں صرف غیر سیاسی ہتھکنڈوں ہی کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا جاسکتا تھا۔

لہذا یہ کھیل کھیلنے کے لئے دینی جماعتوں اور سیاسی موقع پرستوں کا ایک گروہ تیار کیا گیا۔ ان سیاسی قائدین میں کچھ ایسی شخصیات بھی تھیں جنہیں آرمی چیف کو اقتدار سنبھالنے کی ترغیب دیتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوئی کیونکہ امریکہ کے ایجنڈے کی تکمیل فوج کے مضبوط ہاتھوں کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ ان کا مقصد منصوبے کے عین مطابق پورا ہوا۔ بھٹو اور شاہ فیصل کو یکے بعد دیگرے قتل کر دیا گیا۔

پی این اے اور پی ڈی ایم کے مابین مماثلت کے حوالے سے کیے گئے سوال کا یہ جواب تھا جو جنرل (ر) اسلم بیگ نے وضاحت کے ساتھ دیا۔ کسی بھی سابق آرمی چیف کی طرف سے دیا جانے والا یہ جواب جہاں بھٹو کی بے گناہی کو ثابت کرتا ہے وہاں پر یہ جواب بھٹو سے متعلق تمام تر جھوٹے پروپیگنڈے کی نفی بھی کرتا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ کوئی سپر پاور کب چاہتی ہے کہ کوئی اور طاقت اس کے سامنے پروان چڑھے اور اس کی دنیا پر حکمرانی کو چیلنج کرے اور یہی کچھ امریکہ نے کیا۔ تیل کی دولت سے مالا مال، زرخیز زمینوں اور بہترین وسائل سے آسودہ حال مسلم امہ کا اتحاد کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں تھا۔ اس لیے اس اتحاد کی کوشش کرنے والوں کا انجام بھی سب کے سامنے ہے۔

امریکی سازشوں کا سلسلہ یہاں پر رکا نہیں بلکہ تواتر کے ساتھ جاری رہا۔ جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد اپنے روایتی حریف روس کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے فوجی آمر کا دامے، درہمے، سخنے ساتھ دیا۔ اسلام اور کفر کی جنگ کا شوشہ چھوڑ کر جہادیوں کے کیمپ بنائے گئے۔ ڈالروں کی ابر رحمت برسی اور نہانے والے اس میں خوب نہائے۔ یوں سرخ ریچھ کی گرم پانیوں تک رسائی کو روکنے کے لیے لاکھوں جوان ڈالر جہاد میں کود پڑے۔ معصوم ذہن جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر جنت کے حصول کی خاطر اس جنگ کا ایندھن بن گئے اور یوں بالآخر امریکہ نے یہ جنگ جیت لی۔

روس معاشی ابتری کے سبب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر جنگ ہار گیا دنیا نے سپر پاور امریکہ بہادر کو تسلیم کر لیا۔ امریکی مفادات کی جنگ لڑتے لڑتے ہماری کئی نسلیں منشیات کا شکار ہو گئیں۔ ناجائز اسلحہ نے امن کے دور کو خواب بنا دیا۔ مگر ہم خوش تھے کہ ہم نے جنگ جیت لی مگر امریکہ کی سازشیں بند نہیں ہوئیں۔ اس عظیم جنگ کے فاتحین کی ضرورت ختم ہو گئی تھی لہذا جس جہاز میں افغان جہاد کے فاتحین سوار تھے اس کو ہی ماضی کی طرح نشان عبرت بنا دیا گیا۔ اور وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ کل جس کافر، لادین، ملحد روس کے خلاف فتح حاصل کی تھی اسی کو ہم نے سی پیک میں شامل ہونے کی دعوت دے دی۔ سی پیک میں شمولیت کا مطلب روس کو گرم پانیوں تک رسائی کا موقع دینا ہے۔

اب روس گرم پانیوں تک پہنچے یا پھر امریکہ چینی سمندر کی حدود میں ناکے لگائے یہ سپر پاورز کا کھیل ہے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کے کردار کا تعین کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی جنگ لڑنی ہوگی یہ جنگ غربت، افلاس، بھوک اور بدامنی کے خلاف ہے۔ ہمیں نا صرف یہ جنگ لڑنی ہے بلکہ ہر قیمت پر جیتنی بھی ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس یہ جنگ ہارنے کا کوئی چانس نہیں ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کو ذاتی مفادات سے ہٹ کر عوام کے لیے سوچنا ہو گا عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی۔ ہم مستحکم، پرامن، معاشی طور پر آسودہ ہوں گے تو دنیا کا مقابلہ کرسکیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments