اسکوئڈ گیم۔ نیٹ فلکس پر مقبول ترین کورین ڈرامہ


نیٹ فلکس پر پچھلے دو ڈھائی ہفتے سے اسکوئڈ گیم کا راج ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ سیریز مقبولیت کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دے گی۔ نو اقساط پر مبنی اس ڈرامے میں جنوبی کوریا کے انتہائی نامراد اور مجبور چار سو چھپن افراد کو ایک ملین کورین ون یعنی ڈیڑھ لاکھ پاکستانی روپے انعام کا لالچ دے کر ایک ایسے کھیل کا حصہ بنایا جاتا ہے جس کے ہر راؤنڈ میں ناکام ہونے والوں کو بقیہ تمام امیدواروں کی نظروں کے سامنے انتہائی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے  اور ختم eliminate ہونے والوں کی رقم کو بچے کھچے شرکاء کے ممکنہ انعام میں شامل کر کے تحریص دی جاتی ہے کہ جیسے جیسے شرکاء مرتے جائیں گے جیت کی رقم اور بھی پرکشش ہو جائے گی۔

پہلی قسط میں ایک دیو ہیکل گڑیا کے منہ سے نکلے الفاظ ”ریڈ لائٹ، گرین لائٹ“ نے سوشل میڈیا پر مذاق کا طوفان برپا کر دیا حالانکہ ریڈ لائٹ پر رکنے اور گرین لائٹ پر چل پڑنے کی کمانڈ کی خلاف ورزی کرنے پر آدھے کھلاڑیوں کو خودکار اسلحہ سے بھون دیا جاتا ہے۔

پلاٹ

نفسانفسی اور بقا کے اس خونیں کھیل میں بظاہر اپنی مرضی سے لیکن درحقیقت حالات کے جبر کے تحت شرکت کرنے والوں میں کچھ کردار بہت نمایاں ہیں۔ ایک غریب محلے میں ساتھ بچپن گزارنے والے دو نوجوان ہیں جن میں سے ایک جواری ہے جس کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے جبکہ دوسرا اس محلہ سے نکلنے والا سب سے ہونہار طالب علم ہے۔ اپنی قسمت آزمانے کے لئے ایک پیشہ ور مجرم بھی میدان میں اترا ہے، شمالی کوریا سے بھاگ کر آنے والی ایک لڑکی ہے جو گزر بسر کے لئے جیب تراشی کرنے پر مجبور ہے۔

جبکہ ڈیمینشیا کا مریض ایک بوڑھا شخص بھی اس مقابلے میں حصہ لینے آیا ہے اس کے دماغ میں موجود رسولی ہر روز اسے موت کے قریب لاتی جا رہی ہے۔ سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ ایک پاکستانی نوجوان علی عبدل بھی موت کے اس کھیل کا حصہ ہے۔ ان سب مختلف کرداروں میں ایک قدر مشترک ہے۔ یہ سب جنوبی کوریا کے معاشی اور مالیاتی نظام کا اگلا ہوا کچرا ہیں جن کے پاس کوئی راہ فرار نہیں۔

آپ اربوں روپے جیت کر کیا کریں گے؟

ان میں سے ہر شخص کے ذاتی اہداف مختلف ہیں۔ جواری نوجوان انعام کی خطیر رقم حاصل کر کے اپنی دس سالہ بیٹی کی سرپرستی حاصل کرنا چاہتا ہے جو اس کی سابقہ بیوی اور اس کے شوہر کے ساتھ مستقلا ”امریکہ جانے والی ہے۔ اسے اس رقم سے اپنی بوڑھی ماں کا علاج بھی کرانا ہے۔ اس کے اعلی تعلیم یافتہ دوست کی خواہش ہے کہ یہ رقم حاصل کر کے وہ ان بینکوں سے جان چھڑا سکے جن سے سود پر قرضہ لے کر کی جانے والی سرمایہ کاری میں اس کی اپنی اور انویسٹرز کی ساری رقم ڈوب چکی ہے۔

وہ انعام جیت کر اپنی بوڑھی ماں کو سپر مارکیٹ میں دکان بھی خرید کر دینا چاہتا ہے جو اب تک فٹ پاتھ پر مچھلی کا اسٹال لگاتی ہے اور سمجھتی ہے کہ بیٹا امریکہ میں بڑی کامیاب زندگی گزار رہا ہے۔ دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ یہ شخص جنوبی کوریا کے سب سے بہترین تعلیمی ادارے سیؤل نیشنل یونیورسٹی سے پڑھ کر نکلا ہے بالکل سیریز کے خالق ہوانگ ڈوک ہائیک کی طرح۔

پیشہ ور بدمعاش کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے اس سے بڑے بدمعاش لگے ہوئے ہیں جن سے وہ چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ شمالی کوریا سے بھاگی ہوئی لڑکی کو اس رقم سے والدین کو جنوبی کوریا واپس لانا ہے اور ساتھ ہی یتیم خانے میں پلتے اپنے چھوٹے بھائی کو حاصل کرنا ہے۔ ڈاکٹر کا معمہ یہ ہے کہ اس پر طبی غفلت کے مقدمات قائم ہیں جن کی وجہ سے اس کی پریکٹس بند ہو چکی ہے۔ رہا بوڑھا شخص وہ تو اپنا نام اور زندگی کی داستان بھی بھول چکا ہے۔ وہ اس کھیل میں حصہ ضرور لے رہا ہے لیکن جب اس پر خوف سوار ہوتا ہے تو اس کا پیشاب خطا ہوجاتا ہے۔

علی عبدل اور پاکستانی سٹیریو ٹائپ

علی عبدل کا کردار بہت دلچسپی کا حامل ہے اور اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جنوبی کوریا میں پاکستانیوں کے بارے میں عام تاثر کیا ہے۔ علی عبدل ایک غیر قانونی پناہ گزین ہے جو جنوبی کوریا میں سخت استحصال کا شکار ہے۔ اس کا آجر یعنی کفیل بغیر معاوضہ دیے اس سے مسلسل محنت لئے جا رہا ہے۔ علی کی بیوی اور ننھا بچہ بھی جنوبی کوریا میں تنگدستی کی زندگی جی رہے ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ انعام کی رقم ہاتھ لگے تو وہ خاندان کے ساتھ واپس پاکستان چلا جائے۔ اس کردار کو ایک بھارتی نژاد اداکار نے نبھایا ہے۔ علی کو جسمانی طور پر طاقتور، نیک نیت، ہمدرد اور انتہائی مؤدب دکھایا گیا ہے۔ اس کی ”خوبیوں“ میں کورین زبان اور ثقافت سے نابلد ہونا، جذباتیت اور بنیادی علم ریاضی یعنی حساب سے ناواقفیت شامل ہیں۔

وہ افراد جو نیٹ فلکس پر اس دلچسپ سیریز کو دیکھ رہے ہیں یا دیکھنے والے ہیں ان کے سسپنس کو برقرار رکھتے ہوئے ہم سکوئڈ گیم کی کہانی کو یہیں چھوڑ کر ذرا کوریا کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔

کوریا کی مختصر تاریخ
کوریا کی کہانی میں برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کی بہت سی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔

کوریا صدیوں تک ایک متحدہ قوم رہی۔ 1905 ء میں جاپان نے اس پر قبضہ کر لیا جو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جاپان کی مکمل تباہی تک جاری رہا۔ پاک و ہند سے ٹھیک دو سال قبل 15 اگست 1945 کو کوریا آزاد ہوا لیکن اس طرح کہ ایک طرف شمال میں سوویت یونین نے قبضہ جما لیا جبکہ جنوبی حصے میں امریکی افواج آ دھمکیں۔ دونوں حصوں کے درمیان آگ اور خون کے دریا کو اڑتیس ویں متوازی کہتے ہیں 1950 ء۔ 53 ء کے دوران ہونے والی ہولناک کوریائی جنگ میں کم و بیش پچاس لاکھ افراد لقمۂ اجل بنے۔

اس جنگ میں امریکی فوج نے شمالی کوریا کی باقاعدہ اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ آج شمالی کوریا دنیا میں کمیونزم کا آخری مورچہ سمجھا جاتا ہے جہاں اظہار و افکار کی کوئی آزادی نہیں۔ پچھلے ستر سال سے ایک ہی خاندان اقتدار میں ہے۔ جگہ جگہ ان رہنماؤں کے بت نصب ہیں ہر آتے جاتے شخص پر لازم ہے کہ ان دیوقامت مجسموں کے سامنے سے گزرتے ہوئے تعظیما ”سر کو جھکائے۔ شمالی کوریا کی معیشت اب تک زرعی اور پسماندہ ہے۔

جنوبی کوریا کا شمار دنیا کے ان حرماں نصیب ملکوں میں ہوتا ہے جہاں امریکہ کے اتحادی فوجی افسروں نے طویل آمریتیں قائم رکھیں۔ ان ہی میں سے ایک جنرل پارک چنگ ہی جو قریبا ”20 سال اقتدار سے چمٹے رہے نے جنوبی کوریا کے امیر خانوادوں کو ریاستی سرپرستی میں زیادہ مزدوروں والی لیبر انٹینسو Labour intensiveبرآمدی صنعتکاری پر راغب کیا اسی پالیسی کے نتیجے میں ہونڈائی، ڈائیوو، سیمسنگ اور ایل جی جیسی بڑی اجارہ داریاں قائم ہوئیں اور بہت تیز رفتار ترقی کر کے جنوبی کوریا دنیا کی دس اولین معیشتوں میں شامل ہو گیا۔

بدقسمتی سے سرمایہ دارانہ نظام سے منسوب جمہوری اور شخصی آزادیوں سے عام جنوبی کوریائی محروم ہی رہے۔ قومی سلامتی اور حب الوطنی کے نعرے جن سے ہمارے کان بہت زیادہ آشنا ہیں کی بنیاد پر ایک بہت طویل عرصے تک میڈیا پر سخت پابندی رہی۔ ٹی وی پر صرف منظور شدہ پروگرام جو سرکاری اخلاقیات کے مطابق ہوں دکھائے جاتے اور صرف اور صرف ملی نغمے گانے کی اجازت ملتی۔ ابھی حال تک یہ صورتحال تھی کہ جنوبی کوریا سے نکلے سائی، بی ٹی ایس اور بلیک پنک جیسے دنیا کے مقبول ترین میوزک بینڈ جنہیں کے پاپ کہا جاتا ہے کے کچھ نغمے خود ان کے وطن میں پابندی کی زد میں آئے۔

جنوبی کوریا کے بدلتے معاشرے میں نسبتاً حال میں کم ڈے جنگ جیسے رہنماؤں کا کردار بہت اہم ہے جنہیں 386 جنریشن کہا جاتا ہے جو کوریا کے اتحاد کے حامی رہے ان صاحب کو فوجی آمر پارک چنگ ہی پر تنقید کی پاداش میں فوج سے منسلک خفیہ ایجنسی نے اغوا کیا اور قتل کرنے کی سازش کی۔ پھر آمروں کی لے پالک عدلیہ کے ذریعے ان کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جو بین الاقوامی مداخلت پر عمر قید میں بدل دی گئی۔ بالآخر ایک دن وہ ناصرف تمام الزامات سے بری ہوئے بلکہ انہیں نوبل امن انعام بھی ملا۔ وہ ملک کے صدر بھی بنائے گئے۔ یہ تمام کہانیاں کس قدر سنی سنی لگتی ہیں۔

سکوئڈ گیم اور ڈسٹوپیا

یہ سیریز ایک جبر زدہ معاشرے کی تصویر پیش کرتی ہے۔ کہا جا رہا پے کہ گرین لائٹ ریڈ لائٹ سے مراد ستر سالہ زبان بندی کا وہ دستور ہے جس کے تحت ہر قسم کے ظلم اور زیادتی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو شمالی کوریا کا ایجنٹ، کمیونسٹ اور وطن دشمن قرار دے کر دبا دیا جاتا رہا۔ لالچ اور حرص کو بھی نمایاں کیا گیا ہے جس نے ہر انسان کو دوسرے انسان کا گلا کاٹنے پر تیار کر دیا پے۔ ہر چند سیریز میں انسانیت کے مثبت پہلو بھی دکھائے گئے ہیں بالخصوص پاکستانی علی عبدل کو اچھے انسان کی علامت دکھایا گیا ہے۔

جیسے یوٹوپیا خیالی جنت ہوتی ہے ویسے ہی ڈسٹوپیا ایک ڈراؤنے خواب میں نظر آنے والی بستی کو کہا جاتا ہے۔ جارج آرویل کا شہرہ آفاق ناول 1984 ادب میں ڈسٹوپیا کی عمدہ مثال سمجھا جاتا ہے۔ سکوئڈ گیم میں جنوبی کوریا کو ایک ڈسٹوپیائی ملک دکھایا گیا ہے۔ اس سیریز کی جنوبی کوریا اور پوری دنیا میں مقبولیت بہت معنی خیز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments