مسجد کا مولوی اور برائن لارا


جس مذہب کا آغاز اقراء کے لفظ کے ساتھ ہوا ہو جس کے معنی ہیں پڑھ (to read) ، اس مذہب کے ماننے والوں کی تعلیمی پستی حیران کن ہے۔ ہم مسلمان اس حال تک کیسے پہنچے یہ ایک لمبی داستان ہے۔

جب مسلمان علم اور سائنسی تحقیق کے لیے کوشاں رہتے تھے تو مشرق اور مغرب دونوں پر مسلمانوں کا غلبہ تھا۔ مسلمان حکمراں خاص طور پر تعلیم و تربیت پر زور دیتے۔ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک اس زمانے کے بہت ہی مشہور بزرگ سے درخواست کی۔ بزرگ نے حامی بھر لی۔

ہارون الرشید نے اپنے محل کا ایک حصہ مامون اور بزرگ کے لیے مختص کر دیا۔ ایک دن ہارون الرشید چلتا ہوا محل کے اسی حصے کی طرف پہنچ گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ بزرگ وضو کرتے ہوئے اپنے پاؤں دھو رہے ہیں اور مامون لوٹا پکڑ کر ان پر پانی ڈال رہا ہے۔ یہ دیکھ کر ہارون الرشید کو غصہ آ گیا اور اس نے بزرگ سے مودبانہ عرض کی کہ حضور میں نے آپ کو اپنے بیٹے کی تربیت کے لئے بلایا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مامون ایک ہاتھ سے لوٹا پکڑتا اور ایک ہاتھ سے آپ کے پاؤں دھوتا۔

یہ تھا وہ مسلمانوں کا کردار اور حکمرانوں کا طرز عمل جس کے طفیل مسلمان غالب آتے گئے۔ مسلماں حکمراں جمعہ کا خطبہ خود دیتے تھے۔ لیکن اگر جمعہ کا خطبہ آج کے حکمراں دینا شروع کر دیں تو سوچیں زرداری، شریف اور ارمان خان کس منہ سے ایمانداری، اخلاقیات اور کردار سازی کی بات کریں گے۔ سب نے چوری اور مال بنانے کے لئے اپنے فرنٹ مین رکھے ہوئے ہیں۔

اور جن مولوی حضرات کے پاس یہ منبر ہے، ان کی علمی قابلیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ میرے ایک کینیڈا میں مقیم دوست پاکستان تعطیلات گزارنے گئے۔ ان کا گاؤں پنجاب کے اندرونی علاقے میں ہے۔ جمعہ کا دن آیا اور میرے دوست پینٹ شرٹ پہن کر جذبہ ایمانی کے تحت پہلی صف میں بیٹھ گئے۔ میرے دوست بتاتے ہیں کہ مسجد چھوٹی سی تھی۔ امام صاحب تشریف لائے اور ان کی نظر میرے اوپر پڑی اور پینٹ شرٹ پر رک گئی۔ ایک ناگواری ان کے چہرے پر آئی۔

خطبہ شروع ہوا۔ حوروں کی آنکھیں اور گداز بدن سے ہوتا ہوا جہنم کے عذاب پر آ کر وقفہ لیا۔ وقفہ کے بعد اب ان کا موضوع انگریزی لباس تھا۔ امام صاحب نے فرمایا کہ فرنگی لباس پہن کر مسجد میں آنا مناسب نہیں ہے۔ میں شرمندہ سا ہو گیا لیکن میری نظریں امام صاحب کی کلائی میں پہنی انگریزوں کی بنائی ہوئی گھڑی کی طرف گئی۔ پھر اس مائک پر گئی جس کے ذریعے وہ خطبہ دے رہے تھے۔ یہ مائک بھی کافروں کا بنایا ہوا تھا۔ یقیناً امام صاحب کے پاس موبائل فون بھی ہو گا۔ میری دلچسپی خطبہ میں اور بڑھ گئی۔ کئی اور بے تکی باتیں کرتے ہوئے امام صاحب نے فرمایا ”اور اللہ اپنے بندوں سے کہتا ہے کہ رب زدنی،“ تو مجھ سے ضد نہ کر ”۔ یہ ترجمہ سن کر مجھے جھٹکا سا لگا لیکن لوگ بڑے انہماک سے امام صاحب کے خطبہ پر تعریفی انداز میں گردن ہلا رہے تھے۔

آپ لوگوں کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ منبر کن ہاتھوں میں ہے اور منبر سے کیا پیغام جا رہا ہے۔ ہمیں ثواب و عذاب سے نکل کر اجتماعی اخلاقیات اور کردار سازی کی بات کرنی ہو گی۔ ہمیں اپنے لوگوں کو شعور دینا ہو گا اور ہمیں یہ بات عام کرنی ہو گی اسلام صرف چند سجدوں کا نام نہیں ہے۔ آگر ہم حوروں کے چکر میں عبادت کرتے ہیں تو یہ ایک کاروبار ہو گا۔ محشر آفریدی کا شعر ہے کہ

کوئی جنت کا طالب ہے کوئی غم سے پریشاں ہے
غرض سجدے کراتی ہے عبادت کون کرتا ہے

اسکولوں میں ناظرہ قرآن پڑھانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ ہم پہلے ہی بہت نماز روزہ حج عمرہ کے پابند ہیں لیکن معاشرہ اس کا عکاس نہیں ہے۔ کرکٹر برائن لارا پاکستان کے دورے پر تھا۔ انضمام الحق، محمد یوسف اور سعید انور لارا کو کھانے پر لے گئے اور اسلام کی اچھی باتیں بتانے لگے اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دے دی۔ واپسی میں لارا کو ہوٹل چھوڑتے ہوئے راستے میں لارا  نے سوال کیا کہ ”انضمام، یہ باتیں تھیں تو بہت اچھی لیکن ایسے مسلمان ہیں کہاں؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments