کلیوپیٹرا، زلیخا۔ لگا ہے مصر کا بازار، دیکھو!


ایسا بہت دفعہ ہوتا ہے کہ ہوا کے دوش پر کہیں بہت دور سے کسی بھولے بسرے گیت کے ٹوٹے پھوٹے بول ہم تک آ پہنچیں تو ہم اپنے آپ کو ایک ایسے گھر میں محسوس کرتے ہیں جہاں کم و بیش چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے ریڈیو بجتا تھا۔ ہمیں نہیں علم کہ ابا کی ریڈیو سے محبت کی داغ بیل کیسے اور کس عمر میں پڑی؟ لیکن ہم نے ابا اور ریڈیو کو لازم و ملزوم دیکھا۔

گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اپنے کمرے میں جا کر ریڈیو کا سوئچ گھما دیتے۔ جو کوئی جہاں ہوتا، جان لیتا کہ ابا کی واپسی ہو گئی۔ اب چاہے نور جہاں نغمہ سرا ہوں، یا خبروں کا بلیٹن، صابری برادران کی قوالیاں ہوں یا کوئی مذاکرہ، سب اپنا اپنا کام کرتے رہتے اور پس منظر میں مسلسل کچھ نہ کچھ بجتا رہتا۔

شام کے سرمئی جھٹپٹے میں جب دن بھر کے تھکے ہارے پرندے گھونسلوں کو لوٹ رہے ہوتے، ابا کی پالی ہوئی ڈھیروں چڑیاں بھی چھت پہ سے دانا دنکا چگ کر واپس جا رہی ہوتیں، ریڈیو کمرے سے نکل کر برآمدے میں رکھی ہوئی اونچی میز پہ سج جاتا اور پھر نصف شب تک ہمکلام رہتا۔ نہ وہ تھکتا نہ ہم!

مصر کا نام پہلی دفعہ ہم نے ریڈیو پہ ہی سنا، کوئی گلوکارہ اونچے سروں میں گا رہی تھیں،
” لگا ہے مصر کا بازار، دیکھو“

ہم جو بازار جانے کے انتہائی شوقین تھے، فوراً اس فکر میں پڑ گئے کہ کہاں ہے یہ بازار جس کا چرچا اتنے ذوق و شوق سے ہو رہا ہے۔

لیکن ارمانوں پہ فوراً ہی اوس پڑ گئی جب علم ہوا کہ مصر کا بازار پہنچ سے بہت دور ہے۔ خیر اس فہرست میں مصر کا نام ہم نے فوراً لکھ لیا جو چپکے چپکے دل میں بنتی رہتی تھی۔

اگر آپ نے مصر کے بازار کی جھلک دیکھنی ہو تو انگلش پیشینٹ نامی فلم دیکھ لیجیے۔ ایک سین میں گھائل ہیرو صاحب حسین و جمیل ہیروئن کے تعاقب میں قاہرہ کے بازار میں گھومتے ہیں اور ہیروئن کو دیکھتے ہی یوں ظاہر کرتے ہیں کہ کیا ہی حسین اتفاق ہے؟ اس گھسے پٹے سین سے قطع نظر کمال کی فلم ہے، ہم تو دیکھتے نہیں تھکتے۔

خیر ہم بات کر رہے تھے مصر کی، تو مصر سے دوسرا تعارف تب ہوا جب ہم سکول کوئز ٹیم کے کپتان بنے اور جنرل نالج کا رٹا لگانا شروع کیا۔ دنیا کے آٹھ عجوبوں میں اہرام مصر کا نام تو آنا ہی تھا۔ بھئی کمال کی جگہ ہوگی یہ بھی، جہاں ایسے ایسے کمالات ان فرعون لوگوں نے دکھا ڈالے، ٹنوں وزنی پتھر اور صحرا میں بنے یہ قد آدم مقبرے۔ لیکن سوچا جائے تو ہزار ہا مجبور غلام ابن غلام کی ہڈیاں سرمہ اور گوشت قیمہ بنا ہو گا۔ اور مزید سوچا جائے تو صدیوں کے اس پھیر میں کہاں یہ کام رکا؟ نہ حاکموں نے عبرت پکڑی اور نہ ہی بھوک کے عفریت نے مجبوروں کو اپنے شکنجے سے رہا کیا۔ برج خلیفہ کی بنیادیں نہ جانے کتنوں کا لہو سے پی کر کھڑی ہوئی ہیں۔ بیسویں صدی کے جدید اہرام ہی تو ہیں یہ بلند و بالا عمارات!

کوئز کے بعد تقریری مقابلوں کی باری آ گئی۔ اچھا مقرر بننا ہو، سامعین کے دلوں پر زور بیان کی دھاک بٹھانی ہو اور ہر دوسری تقریر میں اقبال کے شعر ہاتھ ہلا ہلا کر نہ پڑھے جائیں، سوچیئے ایسا ہو سکتا ہے بھلا؟ اقبال کے شاہین، خودی، مسلم جواں، ماضی کی پر شکوہ حکایتیں و شکایتیں۔ اور۔ اور۔ نیل کے ساحل سے لے کر۔ لیجیے بھڑکا دی نا پھر آتش شوق!

ہمارے محلے میں دس بیبیوں کا معجزہ بہت ذوق و شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ اماں تو جاتیں ہی اور ہم بھی اماں کے پلو سے بندھ جائے۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہمیں ساتھ لانے کی تاکید ہر گھر سے ہونے لگی جب ہماری بلند آواز سے فر فر اردو پڑھنے کے جوہر کھلے، کیا کیجیے کہ قصہ گوئی کا شوق ان دنوں بھی پال رکھا تھا۔ ہم پہنچتے اور عقیدت و احترام سے دس بیبیوں کی کہانی کہتے۔ ان بیبیوں میں حضرت آسیہ بھی ہوتیں جنہوں نے موسی کو فرعون کے گھر رہتے ہوئے اس کی ناک کے نیچے پالا۔

ویسے کیا بی بی تھیں بھئی، وقت کے حاکم سے ٹکر لے کر بیٹھ گئیں۔ عورت ہو تو ایسی، حق کی خاطر باطل سے ٹکرا جانے والی، ہم سوچتے۔ موسی اور نیل کا تعلق ہمیں بہت اسرار بھرا لگتا۔ شاید ماں جیسا، شیر خوارگی میں اپنی لہروں میں سمیٹ کر آسیہ تک پہنچانے والا اور اک عمر بیت جانے کے بعد ایک بار پھر اپنے دامن میں جگہ دے کر فرعون سے محفوظ رکھنے والا۔

اسی زمانے میں قرآن پڑھا اور قصص الانبیاء بھی، لیجیے پہلے برادران یوسف سے آشنائی ہوئی اور پھر زلیخا سے۔ اس وقت تو ان بھائیوں پہ کبھی حیرت ہوتی اور کبھی غصہ آتا کہ لو بھائی ہی بھائی کی جان کے درپے؟ بہت بعد میں sibling rivalry کے بارے میں جانا تو یہ قصہ بھی سمجھ میں آ گیا۔ اپنے سے بہتر انسان کو برداشت کرنا ازحد مشکل ہے، چاہے ایک ماں کی کوکھ سے ہی کیوں نہ جنم لیا ہو۔

اور زلیخا۔ کیا جی دار عورت تھی بھئی! محبت کے لئے نظر کس پہ ٹھہری، عالم میں جو اک انتخاب تھا۔ اور محبت بھی کیسی کہ پھر کچھ اور باقی ہی نہ رہا۔ یوسف پہ پروانہ وار نثار ہوتے ہوئے اپنے آپ کو بھسم کر بیٹھی۔ صدیوں پہلے کی عورت اور ایسا عزم، ایسی مستقل مزاجی ایسی والہانہ محبت کہ ذکر الہامی کتاب میں ہوا۔ ہم نے زلیخا کو ایک مدت اپنی سوچوں کا محور بنائے رکھا اور اس کے بعد ہماری ملاقات اس دوسری عورت سے ہو گئی۔

کتابوں اور فلموں کا چسکا ہو اور اس بے مثال عورت کے بارے میں ہم کیسے نہ جانتے جس نے سیزر جیسے گھاگ کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔ کلیو پیٹرا کو بچپن میں ہم نے الزبتھ ٹیلر کی شکل میں دیکھا اور پرشکوہ حسن و جمال دل پہ مجسم نقش ہو گیا۔

تخت و تاج کی مطلق العنان مالک، نہ رعب و دبدبے میں کوئی کمی نہ فیصلہ سازی میں، حسن ایسا کہ بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہوا جائے۔ زمانہ ساز ایسی کہ ہاری ہوئی بازی پلٹ کر رکھ دے۔ کیا چشم فلک نے ایسی شاندار عورتیں بھی دیکھیں اس زمیں پر؟ ہم نے سوچا۔ کیا ہی ہوتا اگر ہم بھی اس زمانے میں ہوتے۔ آج عورت کی بے کسی پہ جتنا جی کڑھتا ہے، اس سے تو بچ گئے ہوتے۔

مصر کو کتابوں کہانیوں اور فلموں کے حوالے سے ہم اس وقت جانتے رہے جب تک ہم تبوک نہ پہنچ گئے۔ تبوک کے ملٹری ہسپتال میں ہمیں مصری ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ گوری چٹی، نک سک سے درست، میک اپ اور جدید مغربی ملبوسات، ہاتھوں کے اشاروں، کاجل لگی آنکھوں کے بدلتے زاویوں اور زبان کی تیز دھار سے بیک وقت کشتوں کے پشتے لگاتی خواتین۔ ( بقول ہماری اماں کے، وارے نہ آننڑ والیاں ) ۔ واللہ ہمیں کلیو پیٹرا اور اس کے ناز و انداز کچھ زیادہ سمجھ میں آنے لگے۔

مصری مرد و عورتیں باتیں کرنے کے شوقین، کم تو ہم بھی نہیں تھے سو قصے کہانیوں سے نہ وہ بیزار ہوتے نہ ہم۔ سیاست کے داؤ پیچ البتہ ہمارے کافی کمزور تھے کہ گوجرانوالہ کی مٹی کا فرعونوں سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا اور ہمارے مصری ساتھی تو بات بات میں فرعونی دانش کا نہ صرف حوالہ دیتے بلکہ ان سے تعلق داری پہ علی العلان فخر بھی کرتے۔ ہمیں مصری سٹائل میں دھوبی پٹڑے تو کافی پڑے لیکن اس سے ہمارے مصر جانے کے شوق میں کوئی کمی نہ آئی۔

انہی دنوں ہمیں علم ہوا کہ بحیرہ احمر سے بذریعہ کشتی تبوک سے مصر باآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ رگ سیاحت ابھی پھڑک ہی رہی تھی کہ ایک کشتی ڈوبنے کی خبر آ گئی۔ لیجیے جناب، ہم نے اپنے دیے خود ہی بجھا کے طاق پہ رکھ دیے کہ ابھی زندگی یہ خطرہ مول لینے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔

تبوک قصہ پارینہ بنا اور تبوک میں رہنے والے مصری ساتھی بھی، زندگی کچھ اور راستوں پہ چل پڑی۔ مصر ایک بار پھر سے زندہ ہوا جب ہماری ملاقات مصری انیستھٹسٹ ڈاکٹر ابو اوعد سے ہو گئی۔ ہماری قدر مشترک ماضی کا تبوک اور حال میں دوسرے ملکوں میں تعلیم حاصل کرنے والی بیٹیاں تھیں۔ بیٹیاں کیا کر رہی ہیں؟ کیا کرنا چاہتی ہیں؟ پہ باتیں کرتے ہم نہ تھکتے۔ وہ ہمیں اکثر کہتے، آپ آخر کب مصر جائیں گی؟ آپ کو مصر یاد کرتا ہے۔ مصر کی یادوں کا تذکرہ کرنے والے ڈاکٹر ابو اوعد خود ایک یاد بن گئے جب وہ کرونا کی بھینٹ چڑھ گئے اور دور دیس میں رہنے والی بیٹیوں نے اپنے باپ کا آخری دیدار فون پہ کیا۔

مصر کا غائبانہ ذکر ادھورا رہے گا اگر ایک مصری مریضہ کا ذکر ہم نہ کریں۔ آپریشن کامیاب ہونے پہ وہ اتنی خوش تھیں کہ بضد ہو گئیں کہ ہم ان کے مہمان بنیں۔ جانے وہ کیسے بھانپ گئیں تھیں کہ موسیقی ہمیں بے خود کرتی ہے چاہے سر تال اجنبی سرزمین سے ہی پھوٹ رہے ہوں۔ وہ شام کبھی نہیں بھولے گی جب ان کے شوہر وائلن پہ پرجوش دھنیں بجاتے ہوئے عربی میں گیت سناتے تھے اور وہ اور بیٹیاں تالیاں پیٹتی تھیں۔

نیویارک کا میٹرو پولیٹن میوزیم ہو، یا ایڈن برا کا نیشنل میوزیم، فرانس کا لوو ہو، یا بروکلین میوزیم، مصر کے فراعین کی باقیات اور تہذیبی آثار ہر میوزیم کا اثاثہ ہیں۔ میٹروپولیٹن نے تو ایک مقبرہ عین مین ایک بڑے ہال میں سجا رکھا ہے۔ سنا ہے کہ اس مقبرے کی ایک ایک اینٹ اکھاڑ کر اس پہ نمبر لگایا گیا اور پھر اسی ترتیب سے اسے دی میٹ میں جوڑا گیا۔ اس ہال کی بیرونی دیوار شیشے کی بنی ہے جس کے متعلق کہانیاں مشہور ہیں کہ اس دیوار کے پار سڑک پہ ایک پرتعیش فلیٹ میں رہنے والی جیکولین کینیڈی نے زر خطیر کے عوض میوزیم انتظامیہ کو راضی کیا تھا کہ اس کے فلیٹ سے نظر آنے والی میوزیم کی دیوار شیشے کی رکھی جائے۔

ہمیں علم نہیں کہ اس نے ایسا کیوں چاہا؟ شاید شام ڈھلے اپنے شاہانہ گھر کی کھڑکی میں بیٹھی ہاتھ میں کافی کا پیالہ تھامے قدیم مصر کی اس نشانی کو ٹمٹماتی روشنی میں دیکھنا اسے زمان و مکان سے بے نیاز کرتا ہو؟ یا شاید مقبرے کا فسوں اسے کسی اور دنیا میں لے جاتا ہو؟ یا شاید قدیم مصر کا جادو اس کے دل پہ اثر انداز ہوتے ہوئے یہ احساس بیدار کرتا ہو کہ اگر زندگی کا انجام ایسی نشانی سے وابستہ ہو تو ایسی رومانوی موت سے کیا ڈرنا؟

دیکھئے مصر کی قدیم رومان بھری سرزمین کا خیال ہمیں بھی بھٹکائے دے رہا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ خواہشات کی وہ پوٹلی جو ہم نے بچپن سے باندھ رکھی ہے، وہ کبھی کبھار اچانک ایسے کھل جاتی ہے کہ ہمیں خود یقین نہیں آتا۔

لیجیے جناب سرزمین مصر پر ہم کچھ دن سرکاری کام کریں گے اور شام کو ان کے تعاقب میں نکلیں گے جنہوں نے دماغ میں کب سے سیندھ لگا رکھی ہے۔ اہرام مصر، نیل کا ساحل، ابوالہول، اور۔ کیلوپیٹرا۔ اور۔ لگا ہے مصر کا بازار دیکھو۔

ابا کا ریڈیو زور زور سے بج رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments