فیاض الحسن چوہان اور جئے بھٹو کا نعرہ


سب سے پہلے قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ایک بار مل کر فاتحہ پڑھ لیں کیونکہ پنجاب کے صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان کو ترجمان پنجاب حکومت کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، فاتحہ پڑھنے کی گزارش فیاض الحسن چوہان کو حوصلہ دینے اور ان کی دلجوئی کے لئے کر رہا ہوں، بے چارے تیسری بار بہت ہی زیادہ رسوا ہو کر ”کوچہ بزدار“ سے نکلے ہیں

اس سے قبل دو بار ان کو پنجاب کا وزیر اطلاعات بنا گیا اور کچھ عرصہ بعد ان کو ہٹا دیا جاتا رہا، اب تیسری بار ان کو وزرات اطلاعات تو نہیں دی گئی بلکہ ان کو صوبائی وزیر جیل خانہ جات کے ساتھ ترجمان پنجاب حکومت کا اضافی چارج دیا گیا مگر فیاض الحسن چوہان ”نیلے کے نیلے“ ہی نکلے اور تیسری بار وہ اپنا عہدہ نہ بچا سکے، فیاض الحسن چوہان نے شاید یہ بھی ریکارڈ بنالیا ہے کہ وہ پنجاب کے واحد حکومتی عہدیدار ہیں جن کو تین بار عہدے سے فارغ کیا گیا، یوں انہوں نے بے آبرو ہو کر نکلنے کی ہیٹ ٹرک کر کے کم ازکم پنجاب کا ریکارڈ ضرور بنالیا ہے

فاتحہ کے بعد فیاض الحسن چوہان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ وہ پنجاب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ”دوستانہ“ کرکٹ میچ کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، میچ بھی نہیں بیسٹ آف تھری سیریز کرا دی، گورنر ہاؤس پنجاب میں کرکٹ ٹاکرے کے بیسٹ آف تھری میں حکومتی ٹیم کو شکست فاش ہوئی، پہلے میچ میں حکومتی ٹیم نے 97 رنز بنائے جو اپوزیشن نے آسانی سے ہدف حاصل کر لیا، دوسرے میچ میں حکومتی ٹیم نے 86 رنز بنائے، اپوزیشن نے یہ ہدف بھی آسانی سے حاصل کر لیا، تیسرے میچ میں حکومت نے اپوزیشن کو 98 رنز کا ہدف دیا، اپوزیشن ٹیم حکومتی ہدف پورا نہ کر سکی اس طرح سیریز دو ایک سے اپوزیشن کے نام رہی

میچ کے اختتام پر صوبائی وزیر اور حکومتی ٹیم کے کپتان فیاض الحسن چوہان نے پیپلز پارٹی کا شکریہ ادا کیا اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید حسن مرتضی کی فرمائش پر جئے بھٹو کا نعرہ لگا دیا، دوستوں کا کہنا ہے کہ فیاض الحسن چوہان نے جئے بھٹو کا نعرہ جذبہ خیر سگالی کے تحت سید حسن مرتضی کی فرمائش پر لگایا مگر میرا خیال ہے کہ فیاض الحسن چوہان نے نعرہ مستانہ یوں ہی نہیں بلند کیا بلکہ یہ ایک دل جلے کا نعرہ بھی ہو سکتا ہے، اس میں تین بار بے آبرو کر کے کوچہ بزدار سے نکالنے کا غصہ بھی شامل ہو سکتا ہے اور یوں ان کے دل سے آواز نکلی ہو۔ نعرہ بھٹو

گزشتہ بلاگ میں پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی اپوزیشن مسلم لیگ نون کے پنجاب حکومت کے ساتھ دوستانہ میچ کھیلنے سے انکار کی وجہ بیان کرچکا ہوں، مسلم لیگ نون کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کو علم تھا کہ اس بار امپائر ان کے ساتھ نہیں، اس لئے مسلم لیگ نون نے کھیلنے کا رسک ہی نہیں لیا مگر بیسٹ آف تھری میں جس طرح پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے چند اپوزیشن ارکان نے پنجاب کی بھاری بھرکم حکومت کو چاروں شانے چت کر دیا ہے اس سے میرا خیال ہے کہ مسلم لیگ نون نے انکار کر کے غلطی کی، اگر مسلم لیگ نون حقیقی معنوں میں اپوزیشن بن کر پنجاب حکومت کے ساتھ میچ کھیلتی تو شاید اس سے بھی زیادہ مارجن سے جیت جاتی اور پنجاب حکومت کو کم ازکم کرکٹ کے میدان میں دھول چٹا دیتی مگر مسلم لیگ (ن) کی مجبوری واضح تھی کہ وہ امپائر کو ساتھ ملائے بغیر کبھی بھی نہیں کھیلتی وہ چاہے سیاست کا میدان ہو یا کرکٹ کا

بات ہو رہی تھی فیاض الحسن چوہان کے جئے بھٹو کا نعرہ لگانے کی، عمران خان اور سردار عثمان بزدار کو فیاض الحسن چوہان کے نعرے کو سمجھنا ہو گا کہ اس نعرے کے پیچھے ان کا پیغام بھی ہو سکتا ہے کہ اگر ایسا ہی کیا جاتا رہا تو اگلے الیکشن میں نعرہ بھٹو بھی لگا سکتا ہوں، ممکن ہے کہ فیاض الحسن چوہان نے سید مرتضی حسن کو پہلے ہی کان میں کہہ دیا ہو آپ فرمائش کرنا، میں میڈیا کے سامنے جئے بھٹو کا نعرہ لگا دوں گا ورنہ نقار خانے میں فیاض الحسن چوہان جیسے طوطی کی آواز کون سنتا ہے

تحریک انصاف کی حکومت نے ساڑھے تین برسوں میں عوام کا جس طرح تیل نکالا ہے اور بھوک، ننگ کی دلدل میں پھینک دیا ہے اس کا تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ کو بخوبی ادراک ہے، پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی پارٹی اجلاسوں اور میڈیا کے سامنے متعدد بار اس کا برملا اظہار بھی کرچکے ہیں، عمران حکومت کی جتنی بری کارکردگی ساڑھے تین برسوں میں رہی ہے اتنی شاید پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی کسی حکومت کی نہیں رہی

عمران خان کو مسلم لیگ ق کے انجام کو یاد رکھنا چاہیے کہ کس طرح 2008 ءکے انتخابات میں مسلم لیگ ق تنکا تنکا ہو گئی تھی حالانکہ پنجاب میں چودھری پرویز الہی کی کارکردگی بطور وزیراعلی بہت اچھی رہی تھی مگر اس کے باوجود 2008 کے انتخابات میں آدھی سے زیادہ مسلم لیگ ق نے جئے بھٹو کا نعرہ لگا دیا تھا، اس کے برعکس عمران خان کے وسیم اکرم پلس نے پنجاب میں جو گل کھلائے ہیں اس سے پی ٹی آئی کا کم ازکم پنجاب میں تتر بتر ہوجانا کوئی بعید نہیں ہے، عمران خان ساڑھے تین برسوں میں ناکام ترین حکمران ثابت ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے کہ امپائر 2023 ءکے الیکشن میں ان کے ساتھ نہ ہو اور پوری تحریک انصاف ”جئے بھٹو“ کا نعرہ لگا دے اور میدان میں عمران خان اور سردار عثمان بزدار تنہا رہ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments