زندگی حادثوں میں پلتی ہے


ہمارے قرب و جوار میں بعض واقعات و حادثات کی نوعیت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ انہیں نظر انداز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہر حساس اور باشعور انسان ایسے حادثات اور المیوں کا اثر ضرور لیتا ہے۔ اور اپنے کرب اور رنج کا اظہار اپنے اپنے انداز سے کرتا ہے۔ قدرتی آفات کے بارے میں تو کسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ اس میں رضائے خداوندی ہے۔ لیکن ایسے حادثات جن میں انسانی ہاتھ اور منشا ملوث ہوں ان میں الہیٰ رضا کو ڈھونڈنا ایک بے منطق اور احمقانہ خیال تصور کیا جائے گا۔

ابھی چند دن پہلے جب ہم 2005 ء اکتوبر میں آنے والے ہولناک زلزلے میں ہونے والے قیمتی انسانی جانوں اور مالی نقصانات اور اعداد و شمار پر غور کر رہے تھے تو ہرنائی، بلوچستان میں 5.9 شدت کا زلزلہ کی خبر آ گئی۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کے مطابق اندازہً 20 ہلاکتوں اور 300 افراد کے زخمی ہونے کی فی الحال اطلاعات ہیں۔ آج سے 16 برس قبل میں آزاد کشمیر میں خاص کر مظفر آباد اور اس کے قرب و جوار میں کہیں زیادہ جانی اور مالی نقصان دیکھنے میں آیا تھا۔

لیکن دیکھا جائے تو انسانی جان انتہائی قیمتی ہے اور ایک بھی فرد کی ہلاکت اہمیت رکھتی ہے۔ قیمتی انسانی جان تو رب کریم کا انمول تحفہ ہے۔ اگر بے مقصد اور بے کار یہ جان کھو دی جائے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار ہے۔ اس طرح کی آفت زدگی یقیناً مشکلات اور پریشانیوں سے عبارت ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں بجائے ذات الہٰی کے حضور گلہ شکوہ اور شکایت کرنے جوانمردی اور ہمت سے گر کے دوبارہ اٹھ کھڑا ہونا ہی کامیابی کی دلیل ہے۔

ہرنائی میں امدادی کاموں کا آغاز ہو چکا ہے۔ دور دراز متاثرہ علاقوں میں نامناسب انفرا اسٹرکچر اور زلزلہ کے باعث امدادی سامان پاک افواج زمینی اور ہوائی ذرائع سے پہنچا رہی ہیں۔ اس مشکل اور آزمائش کی گھڑی میں سویلین انتظامیہ، پاک افواج اور نجی فلاحی اداروں اور تنظیموں کا کردار قابل تحسین ہے۔ بلوچستان میں پاک چائنہ اقتصادی راہداری کا کام تیزی سے تکمیل کی طرف گامزن ہے۔ اس میگا پراجیکٹ کی تکمیل میں دشمن عالمی قوتیں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مشغول ہیں۔ ہمارے سکیورٹی ادارے ان خطرات کے خلاف برسرپیکار ہیں اور ملکی سالمیت کے لیے اپنے جان تک کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے مختلف شہروں خاص کر کوئٹہ میں آئے دن بم دھماکے ملک دشمن قوتوں کے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔

اکتوبر 2021 ء کے آغاز پر ہی دوسرا اندوہناک واقعہ پڑوسی ملک افغانستان کے شہر قندوز کی ایک مساجد میں پیش آیا ہے۔ دوران نماز بم دھماکے سے 100 ہلاکتوں اور متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ مساجد اور دوسری عبادت گاہوں میں اس طرح کے دل دوز واقعات نئے نہیں ہیں۔ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو سینکڑوں سالوں سے ہر دور میں طاغوت کے گماشتے، اقتدار کے حریص اور غاصبین حقوق اولیاء حق اپنے ایسے ہی بزدلانہ حملے کرتے اور کرواتے آئے ہیں۔

ہمیشہ ان مواقع پر ایسے حادثات ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہیں کہ حالیہ عبادت گاہوں اور مساجد پر بم حملوں اور عالمی سطح پر پاکستان مخالف پراپیگنڈہ کے تناظر میں یہ بات قا بل غور ہے کہ کیا آنے والا وقت پاکستان کے لیے امن و امان کی صورت حال اور مشکلات کا باعث ہو گا؟ یا کہ ہم اس آگ کو اپنے گھر تک پہنچنے سے روک سکیں گے؟

رب العالمین ملک خدا داد کو تمام بیرونی اور اندرونی خطرات سے محفوظ رکھے۔ اہل وطن کو اس موقع پر فرقہ واریت کی حامل سوچ سے اجتناب کرنا ہو گا تاکہ وہ اس انتہائی اندوہناک سانحہ کی مذمت کرسکیں۔ اللہ و تبارک تعالیٰ ہمارے ملک کی رونقیں بحال رکھے اور ہمارے دیس کا حامی و ناصر ہو، آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments