کوہ ندا پر آوارہ بشارتیں


فیض صاحب نے شب غم کے چاند کو یہ کہہ کر قریب بلایا تھا کہ ’نظر پہ کھلتا نہیں کچھ اس دم…. کہ دل پہ کس کس کا نقش باقی ہے کون سے نام بجھ گئے ہیں‘۔ علی گڑھ میں ریاضی کے مایہ ناز استاد ڈاکٹر ضیا الدین احمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کسی شوخ چشم طالب علم کی فرمائش پر ’طول شب فراق‘ کا تختہ سیاہ پر حساب پھیلا کر جواب نکالا تھا ’لامحدود‘۔ صاحبان نظر جانتے تھے کہ قریب ایک صدی بعد لاہور کا ایک شاعر اپنے مہ و سال کا المیہ کچھ یوں رقم کرے گا، ’لگتا ہے مرے گھر میں بہت دیر رکے گی…. اس رات کی آنکھوں میں شناسائی بہت ہے‘۔ اردو شعر کی روایت میں رات تو ابتدا ہی میں چلی آئی تھی۔ فرخ سیر نے 1713 ءمیں جعفر زٹلی کی زبان گدی سے اکھاڑی تو معلوم ہو گیا کہ اختیار کو شعر کی تاب نہیں رہی۔ میر کے ہاں رات ’وقت فغان‘ ٹھہری۔ غالب نے رات کے بیان میں شمع اور بنات النعش کی جگل بندی سے کام لیا۔ بیسویں صدی میں فراق گورکھ پوری پہلے شاعر تھے جنہوں نے رات کو اپنے شعری اثاثے میں کلیدی جگہ دی۔ فراق قوم پرست ہندوستانی تھے لیکن ان کا شعر اپنی ذات کی حکایت تھا۔ ’پچھلے کو بھی وہ آنکھ کہیں جاگ رہی ہے‘۔ اجتماعی واردات کے بیان میں رات کے تلازمات کو فیض، ناصر اور منیر نے متعارف کرایا۔ جدید اردو شعر کی اس تثلیث کی نمود تک فارسی اس زمین سے مٹ چکی تھی لیکن اردو جاننے والے ابھی موجود تھے۔ سو ان کے شعر کا ابلاغ بھی ممکن تھا۔ ہم بے ہنروں کا زمانہ لگتے لگتے پارلیمنٹ میں دشنام، اخبار میں پھکڑ اور سوشل میڈیا پر براہ راست گالی گفتار کا چلن پھیل گیا۔ کیا خاک جئے کوئی، شب ایسی سحر ایسی….

شب اور سحر کے بیچ کہیں دن کی دھوپ کا وقفہ بھی پڑتا ہے لیکن کیفیت یہ ہے کہ پنڈی اور شاہراہ دستور میں مراسلت کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں۔ افواہ کی چپاتی البتہ بٹ رہی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے ورود پر دو مہینے گزرنے کو آئے، حکومت کا اونٹ ابھی کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکا۔ عالمی برادری کی منت و زاری میں اتنا جوش و خروش خود طالبان نے نہیں دکھایا، جس تندہی سے پاکستان کے زعما طالبان حکومت کو تسلیم کروانے اور ممکنہ انسانی المیے کی دہائی دے رہے ہیں۔ انسانی المیے کا لفظ کہیں سے پڑھ لیا ہے۔ کسی سے سن لیا ہے کہ پاﺅں اکھڑنے کی نوبت آئے تو انسانی حقوق، انسانی ہمدردی اور داخلی خود مختاری کے سفید جھنڈے نکال لانا مفید ہوتا ہے۔ یہ نہیں بتاتے کہ طالبان کے سفید جھنڈے پر جو عبارت کندہ ہے، داعش کے سیاہ جھنڈے پر بھی وہی کلمات لکھے ہیں۔ طالبان کے عذر خواہ برسوں سوال اٹھاتے رہے کہ دہشت گردی کی ’تعریف‘ کی جائے۔ اب دنیا پلٹ کر پوچھ رہی ہے کہ طالبان اور داعش کے تصور سیاست میں مابہ الامتیاز کیا ہے؟ ایک گروہ قیدیوں کو پنجرے میں بند کر کے آگ لگا دیتا ہے، دوسرا فریق قیدیوں کو کرین سے لٹکا کر پھانسی دیتا ہے۔ ایک فریق نوجوان لڑکیوں کی خرید و فروخت کی منڈیاں سجاتا ہے اور دوسرا رات کی تاریکی میں دستک دے کر ناکتخدا بچیاں اٹھا لے جاتا ہے۔ دونوں گروہ ایک ہی مذہب کا نام لیتے ہیں اور باہم دست و گریباں ہیں۔ کچھ مغرب زدہ راندہ درگاہ ایک مدت سے عرض دار تھے کہ سیاست دلیل کا نام ہے اور عقیدہ تسلیم کی اقلیم ہے۔ عقیدے کی بنیاد پر سیاست کا اصل مقصد تقدیس کی آڑ میں مخالف دلیل کو خاموش کرنا ہوتا ہے۔ مذہب کے نام پر سیاست سے عقیدے کا احترام مجروح ہوتا ہے اور سیاسی عمل کے معاشی اور تمدنی امکانات تاریک ہو جاتے ہیں۔ صاحبان اختیار ہوں یا اہل جنوں کا بے ہنگم انبوہ، کسی کو گوش شنوائی نہیں تھا۔

اب اس غفلت کا مآل دیکھ لیجئے۔ دنیا نے ہم سے منہ موڑ لیا اور ہمیں غرہ ہے کہ ہم نے دنیا کو تنہا کر دیا ہے۔ مشکل اس میں یہ ہے کہ دنیا کا روزگار ہماری نگہ التفات کا محتاج نہیں۔ ہمیں آئی ایم ایف سے لے کر ایف ٹیف تک نظر کرم کی طلب ہے۔ یورپین پارلیمنٹ میں جی ایس پی پلس اور خلیج سے موخرہ ادائی پر تیل کی خریداری کی فکر لاحق ہے۔ دنیا ہمارے انتظار میں نہیں۔ کہیں صنعتی اقوام کا جی ایٹ ہے تو کہیں یورپین یونین سمیت بیس ممالک کا جی ٹونٹی معیشت، ماحولیات اور پائیدار ترقی کے مسائل حل کرنے میں باہم تعاون کر رہا ہے۔ کہیں جنوب مشرقی اقوام کے تعاون کا ادارہ آسیان ہے تو کہیں شنگھائی تعاون تنظیم ہے۔ ابھی امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے مشرقی بحرالکاہل میں دفاعی تعاون کی بنا رکھی ہے تو امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت نے ممکنہ چینی اثر و نفوذ کا مقابلہ کرنے کے لئے قواڈ کے عنوان سے چار فریقی اتحاد قائم کیا ہے۔ ہم ایسے بلوان ہیں کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے متنازع جموں کشمیر کی حیثیت ہی زیر و زبر کر دی اور ہم اسلامی سربراہ کانفرنس کا اجلاس تک نہیں بلا سکے۔ یاد رہے کہ یحییٰ خان کے احتجاج پر رباط کانفرنس سے بھارتی مندوب کو اٹھا دیا گیا تھا۔ اب بھارتی مندوب اسی پلیٹ فارم پر مبصر کے طور پر بیٹھتا ہے۔ اس تصویر کا اصل پس منظر یہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک میں عوام اور ریاست میں مناقشہ چھیڑ رکھا ہے۔ یہ جو لندن میں بیٹھے میاں نواز شریف نے ’حقیقی احتساب‘ کا نعرہ بلند کیا ہے تو اس شیر کی کھال میں طوفان ایسی تازہ توانائی کے دو منابع ہیں، ملکی معیشت کی بدحالی اور دنیا کا بدلتا ہوا نقشہ۔ ہم ایک فالٹ لائن پر بیٹھے ہیں۔ اس سے آگے یا تو ہمہ گیر بحران ہے یا شفاف پانیوں کا پرسکوت خرام۔ کوہ ندا پر آوارہ بشارت خوشی کی نوید بھی ہو سکتی ہے اور طول شب غم بھی۔ ابھی نوٹی فیکشن کا انتظار ہے۔ ابھی بات کھلنے میں دیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments