این آر او اپوزیشن نے دیا ہوا ہے یا وہ مانگ رہی ہے


وزیراعظم عمران خان اپنے اقتدار کے پہلے دن سے اپنی ہر تقریر میں فرماتے ہیں کہ اپوزیشن ان سے این آر او چاہتی ہے۔ خان صاحب نے امریکہ میں بھی پاکستانیوں کے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی کرپٹ اپوزیشن ان کی زبان سے تین الفاظ سننے کی خواہاں ہے ”این آر او“ اب اس این آر او کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون کس کو این آر او دینے کی پوزیشن میں ہے اور کون کسے این آر او دے رہا ہے۔

عمران خان صاحب کے اگر تین سالہ دور حکومت کا جائزہ لیں اور ان کی کارکردگی کو میرٹ کی بنیاد پہ پرکھنے کی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ کوشش کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ عمران خان صاحب پہلے دن سے کسی کو بھی این آر او دینے کی نہ تو پوزیشن میں ہیں نہ ہی وہ اس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خان صاحب کی حکومت کو سیاسی خانہ بدوشوں کا ایک گروہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا، مختلف جماعتوں سے اڑا کر لائے گئے موسمی پرندے، ضمیر فروش آزاد اراکین، پنجاب کے ڈاکو، سندھ کے دہشتگرد سب مل کر ایک جگہ اکٹھے ہو کر سرکار چلا رہے ہیں۔

اختر مینگل صاحب کی جماعت خان صاحب کو داغ مفارقت دے کر اپوزیشن کے ساتھ مل چکی ہے، ان کے اپنے ایم این اے عامر لیاقت مستعفی ہو چکے، کئی اشاروں کے منتظر ہیں، ایسی صورتحال میں خان صاحب اپوزیشن کو کس طرح این آر او دے سکتے ہیں یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اب تک کے اگر سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو یہ صاف ظاہر ہے کہ این آر او تو دراصل اپوزیشن نے عمران سرکار کو دیا ہوا ہے جو محض دو تین ووٹوں کی اکثریت کے باوجود بلا خوف و خطر ہر وہ غیر آئینی غیر قانونی اقدام اٹھائے جا رہی ہے جسے اٹھانے کے لیے دو تہائی اکثریت والی حکومتیں بھی ڈگ مگا جاتی ہیں۔ خان صاحب اپوزیشن کی ناچاقیوں، اختلافات اور منتشر ہونے کا فائدہ اٹھاتے آ رہے ہیں، اپوزیشن کی بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور جے یو آئی ف نجانے کیوں متحد نہیں ہو پا رہی ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ عمران خان صاحب کی حکومت صرف ان کے متحد نہ ہونے کی وجہ سے اب تک مسند اقتدار ہے۔

پاکستان کی عوام ملک کی تمام چھوٹی بڑی اپوزیشن جماعتوں سے یہ آس لگائے بیٹھی ہے کہ اپوزیشن اپنے باہمی اختلافات، اپنی سیاسی، ذاتی رنجشوں کو پس پشت رکھ کر ان کے دکھوں تکالیف کا مداوا کرے گی، بھوک، بدحالی، مہنگائی اور بیروزگاری کے عذاب اور اس نا اہل، نالائق، ظالم و بے انصاف حکومت سے نجات دلانے کے لیے میدان عمل میں اترے گی مگر افسوس کہ ہر اپوزیشن جماعت اپنا اپنا راگ الاپنے میں مصروف ہے، عملاً اور خالصتاً عوام کے لیے سوائے بیانات داغنے کے کوئی کچھ بھی نہیں کر رہا۔

پیپلز پارٹی کی کوششوں سے متحدہ اپوزیشن کا اتحاد پی ڈی ایم کے نام سے قائم ہوا مگر اس اتحاد کو مولانا فضل الرحمان کی ضد اور ہٹ دھرمی اور کچھ نون لیگی رہنماؤں کے بغض پیپلز پارٹی کی نظر لگ گئی اور وہ اتحاد ایک سال بھی نہ چل پایا، نون لیگی اور جے یو آئی ف کے رہنماؤں کے غیر سیاسی، بچکانہ رویوں اور نفرت انگیز بیانات نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کی راہیں پی ڈی ایم سے جدا کیں تو عمران خان حکومت کو گھر بھیجنے اور پاکستان کی عوام کو حکومت کی ناقص کارکردگی اور بدترین انداز حکمرانی سے نجات کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا، ایک وقت میں جب سینٹ انتخابات کے موقع پہ قومی اسمبلی میں حکومت کو شکست دے کر سید یوسف رضا گیلانی سینیٹر منتخب ہوئے تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت چند ہفتوں کی مہمان ہے مگر سینیٹ چیئرمین کے انتخابات اور پھر سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے انتخابات نے اپوزیشن اتحاد کو ریزہ ریزہ کر دیا اور یوں اپوزیشن نے خود وزیراعظم عمران خان کو این آر او دے دیا۔

اپوزیشن اتحاد کے یوں بکھرنے کی وجہ کوئی بھی رہی ہو مگر میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ملک کی تینوں بڑی اپوزیشن جماعتوں نے چھوٹی چھوٹی باتوں کو گرہیں باندھ کر بہت بڑا بنا دیا اور پھر اپنی اپنی اناؤں کے خول میں ایسے پھنسے کہ جس کا خمیازہ اب قوم عمران خان صاحب کی ناقص، نا اہل اور نالائق حکومت کی صورت میں بھگت رہی ہے۔

ملک کی تینوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کو انتخابات میں ملنے والے ووٹوں کی تعداد حکمران اتحاد کو ملنے والے ووٹوں سے کہیں زیادہ ہے، اس کے علاوہ اپوزیشن اتحاد نے ملک میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکومت کو ہر حلقے میں یہاں تک کہ ان کی جیتی ہوئی نشستوں پہ بدترین شکست سے دوچار کیا مگر بدقسمتی سے اپوزیشن کا یہ اتحاد چار دن کی چاندنی ثابت ہوا اور اب تحریک انصاف حکومت واک اوور کے مزے لوٹ رہی ہے۔

اپوزیشن کی کم و بیش تمام جماعتیں اس بات پہ متفق ہیں کہ عمران خان صاحب کی حکومت مزید اقتدار میں رہنے کا سیاسی اخلاقی جواز کھو چکی ہے اور اب دوسرے نیب ترمیمی آرڈیننس کے بعد تو وزیراعظم اور صدر آئین سے انحراف کے مرتکب ہو چکے ہیں، عوام بے بس و لا چار ہیں تحریک انصاف کی مسلط کردہ حکومت مسلسل انہیں مہنگائی کی دلدل میں دھکیلتی جا رہی ہے، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ایسی صورت میں بھی اگر اپوزیشن جماعتیں اپنی اناؤں کے خول میں مقید رہیں گی تو خان صاحب کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہو گا اور اسی طرح مہنگائی کر کے عوام کے کس بل نکالتے رہیں گے، کیونکہ خان صاحب وہ حاکم ہیں جنہیں عوام کی تکالیف سے زیادہ اپنی ذاتی انا، اپنے مخالفین سے شدید نفرت، ان کی تباہی سے غرض ہے۔

خان صاحب خوابوں خیالوں میں تو شاید مدینہ کے طرز کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے خواہشمند ہو سکتے ہیں مگر ان کے رویوں ان کے طرز عمل اور انداز حکمرانی سے مدینہ منورہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے امیر والی عاجزی انکساری، اخلاص اور محبت، عوام کے لیے کچھ کرنے اور ان کی مشکل زندگیوں کو بدلنے کا جوش و جذبہ، عزم اور نیت کہیں نظر نہیں آتے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب سیاسی، معاشی، داخلی اور خارجی محاذوں پہ انتہائی نچلے درجے کی کارکردگی کے باوجود بھی اگر آج برسر اقتدار ہیں تو صرف اور صرف پاکستان کی مضبوط مگر منتشر و منقسم، بے ترتیب و بے ربط اپوزیشن کی وجہ سے اور اپوزیشن کو بھی یہ یاد رکھنا ہو گا کہ ان کے اس انتشار اور تقسیم کی وجہ سے اگر کسی تیسری قوت کو مداخلت کا جواز ملا تو اس کی ذمے دار تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ موجودہ اپوزیشن جماعتیں بھی ہوں گی، لہاذا اگر یہ کہا جائے کہ این آر او تو وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن کی طرف سے ملا ہوا ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments