راجہ گدھ کا فکری پہلو



بانو قدسیہ کو اردو ادب میں خاص مقام حاصل ہے۔ وہ ناول نگار ہونے کے علاوہ افسانہ نگار بھی تھیں۔ ناولوں میں بازگشت، موم کی گڑیا اور راجہ گدھ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ادبی زندگی کا آغاز ناولٹ سے کیا۔ راجہ گدھ بطور خاص آپ کی پہچان بنا۔ آپ مشہور افسانہ نویس اشفاق احمد کی زوجہ بھی ہیں۔

ناول کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ زندگی کی روشن کتاب ہے۔ ایک ایسا ارتعاش ہے۔ جو انسان کے اندر گردش پیدا کرتا ہے۔ اک ایسی چیز ہے جو شاعری، فلسفے یا کسی اور کتابی ارتعاش کے بس کی بات نہیں۔ راجہ گدھ بھی اسی سلسلے کی ایک اہم ترین کڑی ہے۔ یہ معاشرے کا عکس ہے۔ معاشرے میں پھیلنے والی برائیوں اور بے راہ رویوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ ناول انیس سو اکاسی میں شائع ہوا اور ایک عرصے تک متنازع بنا رہا اس کی ایک وجہ وہ کڑوا گھونٹ ہے جسے میں اور آپ پینے سے کتراتے ہیں۔ بانو صاحبہ نے اس میں معاشرے کی تلخ حقیقت بیان کی ہے۔ حقیقت کا سامنا کرنا ایک مشکل امر ہے۔ جب یہ ناول شائع ہوا تو اس پر اشفاق احمد کی یہ تحریر درج تھی۔

”راجہ گدھ اردو زبان میں ایک اور طرح کا ناول ہے جو آئندہ لکھنے والوں کے لئے سوچ کی نئی راہیں کھولے گا“

بانو صاحبہ نے ایک مخصوص نفسیاتی فلسفے مختلف کرداروں کے ذریعے پیش کیا۔ ان کے مطابق ہماری زندگی بہترین المیہ ہے۔ جب انسان اپنے بنیادی اقدار سے منہ موڑتا ہے۔ اخلاقی ہولناکیوں بے مقصدیت اور بے سمت گڑھے میں جا گرتا ہے۔ انھوں نے اس خاص نقطے کو مختلف کرداروں اور واقعات کے ذریعے پیش کیا انھوں نے روحانیت اور تصوف کے ذریعے اپنے نظریات کا پرچار کیا۔ انھوں نے اپنے آپ کو اسلامی فلسفے تک محدود نہ رکھا بلکہ تبت کے فلسفے کو بھی ہوا دی۔

اس کے علاوہ نروان اور گیان کے مطلق مثالیں دیں۔ فنا اور بقا کی مثالوں کو بھی بڑے منطقی انداز میں پیش کیا ناول کا بنیادی نقطہ رزق حرام کھانا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جب انسان گدھ جاتی کی طرح حرام کھانے لگتا ہے تو اس میں دیوانہ پن پیدا ہو جاتا ہے اس میں انھوں نے انسانوں اور گدھ کی مشترکہ خصوصیات کو بیان کیا ہے۔ انھوں نے بوڑھے گدھ کو استعاراتی طور پر پیش کیا ہے۔ دور حاضر میں حرام اس قدر فروغ پا رہا ہے کہ اس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

اس حرام نے انسان کے اندر کی ہوس بڑھا دی ہے وہ مذہبی۔ و اخلاقی ہر طرح کی حدود و قیود سے آزاد ہے۔ مصنفہ نے اپنے مخصوص لب و لہجے کو تمثیلی پیرائے میں بڑی عمدگی سے بیان کیا ہے اور انسان کے رزق حرام کو ہابیل و قابیل کے واقعے کے ذریعے ہمارے سامنے رکھا۔ جب انسان گدھ کی طرح مردار کھانے لگتا ہے تو وہ چوری رشوت اور زنا جیسے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔ رزق حرام بہروپیے کا روپ دھار کر حرام خانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس سلسلے میں فرزانہ نیلم کہتی ہیں کہ مغرب کی آزاد روی اور اس کے حلال و حرام کے تصور سے نا آشنا ہونا ہے۔

جس کی تقلید اہل مشرق تیزی سے کر رہا ہے۔ اس پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے اور اس لا حاصل کو مثبت و منفی دونوں معنوں میں ابھارنے کی کوشش کی گئی۔ اس لاحاصل کو وہ دیوانگی سے تعبیر کرتی ہیں۔ اگر عشق لاحاصل سچا جذبہ ہو تو انسان دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو چھو سکتا ہے۔ ناول میں اس کی مثال چوٹیوں کو سر کرنے اور فرہاد کی دودھ کی نہر نکالنے سے دی گئی ہے۔ شرط یہ ہے کہ انسان کا قوت ارادہ آہنی دیوار کی طرح ہو۔ اگر عشق لاحاصل کو منفی پہلو سے دیکھا جائے تو اس کا جواب سیمی شاہ کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے جو آفتاب کے عشق میں مبتلا ہے۔

اس کردار کے ذریعے بانو نے انسانی نفسیات کو لکھا۔ انسان خود پسند اور خود غرض واقع ہوا ہے اپنی ہار برداشت نہیں کر سکتا اور یہ سب کچھ سیمی کے ساتھ ہوا وہ عشق لاحاصل کی وجہ سے پاگل پن کا شکار ہوئی اور حرام موت کی مرتکب ہوئی۔ عشق لاحاصل نے اسے طبعی موت مرنے پر مجبور کیا۔ طبعی موت کی معراج خودکشی اور دیوانہ پن ہے۔

اس طرح زنا بھی رزق حرام کی اہم کڑی ہے۔ اس ضمن میں ایک اور اہم کردار قیوم کا ہے جو ذہنی جذباتی اور روحانی اضطراب کا شکار ہے۔ جو بظاہر تو سیدھا سادہ ہے۔ لیکن اتنا ہوس پرست ہے کہ اس نے سیمی سے نہیں اس کے جسم سے محبت کی اور وہ لقمہ حرام کا مرتکب ہوا۔

پروفیسر سہیل جو قیوم کو جنسی دباوٴ سے نکالنے کے حربے بتاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ عابدہ سے تعلقات قائم کرتا ہے۔ تاکہ وہ دیوانے پن سے بچ سکے۔ اس ناول میں جس قسم کے نظریات پیش کیے ان سے پتہ چلتا ہے کہ بانو فرائیڈ سے متاثر تھیں۔ ان کے خیال میں جنسی قوت صرف نسل انسانی بڑھانے تک محدود نہیں بلکہ یہ قوت دنیا اور دین کے بیچ کے سفر کو بھی کم کرنے میں مدد دیتی ہے اگر انسان اس قوت پر عمل درآمد کرے تو عرفان تک پہنچتا ہے اگر ذرا بھی اس کے پائے استقلال میں لرزش ہو تو دیوانہ بن جاتا ہے اور پاگل کہلاتا ہے۔

دنیا کا عرفان ہو تو موسیقی، مصوری، شاعری بن جاتی ہے یہ قوت ذرا مقبض ہو تو لقمہ حرام بن جاتی ہے۔ امداد نظامی کردار سہیل کے بارے میں کہتے ہیں دانشور مشرقی اقدار روحانیت تصوف اور مذہبی اخلاقیات کا علمدار ہے۔ بلکہ مغرب میں کچھ عرصہ گزار کر وہاں کی مادی ترقی کے پس منظر پھیلے ہوئے کھوکھلے پن، بے سکونی اور خلفشار کا مشاہدہ بھی کر چکا ہے۔ اس کی تھیوری خوف، دہشت اور تنہائی جیسے عوارض اس کے وجود پر ہلا بول دیتے ہیں۔

وہ تنہائی خود کشی اور دیوانے پن کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس پورے ناول میں بانو نے قیوم کو اپنا اور گدھ جاتی کو انسانی برادری کے مماثل قرار دیا ہے۔ جس کا کام مردار کھانا ہے۔ قیوم خارجی دباؤ کم کرنے کے لئے امتل اور عابدہ جیسے کرداروں کا استعمال کرتا ہے۔ ہر شخص کسی خاص فلسفے سے وابستہ ہے۔ راجہ گدھ سوچ کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ایک سوچ علم کا بلند ترین درجہ اور دوسری سوچ وجدان ایک سوچ وہ ہے جو انسان کو مجنوں کی طرح صحرا میں بھٹکنے پر مجبور کرتی ہے اور اس کا نتیجہ صحرا میں دفن ہونا ہے اور دوسری سوچ انسان کو شعور دیتی ہے۔

اسے آگاہی دیتی ہے۔ پہچان کرواتی ہے۔ بانو نے سہیل کی غلطی کو انسان کی اس پہلی غلطی سے ملایا جو اسے شجرے میں ملی تھی۔ یہ وہ غلطی ہے جو آدم سے ہوئی تھی جو انسانوں کے اندر اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔ یہ ناول فکری ہونے کے ساتھ ساتھ مقصدی بھی ہے۔ دنیا مکافات عمل ہے۔ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا بھی ہے۔ قیوم نے جس رنگ ڈھنگ سے زندگی گزاری۔ اس رنگ ڈھنگ کی لڑکی باکرہ اس کی زندگی میں آ گئی۔ عابدہ کا کردار غیرت کے ٹھیکیداروں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔

ہر قوم کا اپنا نصب العین ہونا چاہیے۔ اس کی ایک مثال روشن ہے۔ یہ ناول پاکستان بننے کے بعد لکھا گیا۔ اس کی بنیاد مادیت پرستی ہے۔ جب یہ ناول لکھا گیا اس وقت جاگیرداروں اور نوابین کی جگہ سرمایہ دار طبقہ ابھرنا شروع ہو گیا تھا۔ مادیت اور ظاہر پرستی میں دن با دن اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ناول کے آخری صفحات میں آفتاب کے بیٹے افراہیم کا ذکر ہے۔ اسے بانو نے اہل عرفان بتایا ہے۔ مگر وہ اس کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں دے سکیں۔ اور اس کے علاوہ دیوانگی کے بارے میں بھی خاص دلیل موجود نہیں ہے۔ بہرحال ان کے رزق حرام والی تھیوری بڑی مضبوط ہے۔ گدھ پر الزام ہے کہ وہ حرام کھانے کی وجہ سے پاگل پن کا شکار ہو گیا ہے۔ اس لئے اسے جنگل بدر کیا گیا۔ گیدڑ جب گدھ کی وکالت کرتا ہے تو کہتا ہے حرام کھانا اس کی عادت ہے۔ اس سارے فلسفے کو بانو بے بڑی باریکی سے پیش کیا ہے۔ ناول کا بنیادی مقصد عوام کو رزق حلال کی ترغیب دینا ہے۔ یہ ناول پوری انسانیت کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ فکری ناول ہے۔ اس کے اسی رجحان کو دیکھتے ہوئے اسے کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments