تے فیر چاء پی


کہتے ہیں کہ ایک بار ایک جاننے والا واصف علی واصف سے ملنے کے لیے آیا۔ واصف صاحب نے مہمان کا پرتپاک استقبال کیا۔ مہمان کے بیٹھتے ہی واصف علی واصف نے چائے بھی منگوا لی۔ مہمان کے چہرے پر پریشانی دیکھ کر واصف علی واصف نے پوچھا: خیر اے کی ہویا۔ تو جواب میں مہمان نے کہا کہ واصف صاحب آج کل ملک دے حالات بڑے خراب نے تو واصف علی واصف نے سوال کیا کہ ملک دے حالات توں خراب کیتے نے تو مہمان نے جواب دیا کہ نہیں۔ اسی دوران چائے بھی آ گئی اور واصف علی واصف نے مہمان سے دوسرا سوال کیا کہ کیا توں ایہہ خراب حالات ٹھیک کر سگدا ایں تو مہمان کا جواب نفی میں تھا تو اس پر واصف علی واصف نے مہمان سے بڑے پیار سے کہا تے فیئر چاء پی۔

ہمارے ساتھ المیہ یہی ہے کہ ہم ہر اس چیز کے لیے پریشان ہوتے ہیں جس کے بگڑنے اور ٹھیک ہونے میں ہمارا کردار ہی نہیں ہوتا۔ اب اسی حالیہ ڈٰی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کو ہی دیکھ لیں۔ ایک محکمانہ تعیناتی کا معاملہ ہے جو کہ محکمہ حل کرے گا کہ کس کو تعینات کرنا ہے کس کو نہیں کرنا۔ اور ہم ہیں کہ ایک طوفان اٹھا رکھا ہے۔ کوئی پوچھے بندہ خدا اتنا شور جو مچا رہے ہو کیا اس سے قبل جو تعیناتیاں ہوئی ہیں تم سے مشورہ کر کے ہوئی تھیں۔ کس فوجی افسر نے کس جگہ پر تعینات ہونا ہے یہ تمہارا سردرد کب سے بن گیا۔ کرنے دو ان کو جن کا یہ کام ہے۔ سارے محب وطن سپاہی ہیں جو تعینات ہو گا ملک کی خدمت ہی کرے گا اس میں ہمارا فیورٹ ازم کہاں سے آ گیا۔

مگر نہیں ہر چوک اور ہر چوارہے پر ایک ہی گفتگو کہ کیا ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹیفکیشن جاری ہو گا۔ کیا کورکمانڈر پشاور مقررہ تاریخ کو اپنی کور کی کمان سنبھالیں گے؟ ویسے کمال ہے کہ تیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے سفید پوش آدمی کی زندگی روزمرہ کے اخراجات کے سبب اجیرن ہو چکی ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کے عفریت نے ہر شخص کو جکڑ لیا ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے ماہانہ اخراجات کے گوشوارے بگاڑ دیے ہیں۔ ڈالر ہے کہ آسمان کو چھو رہا ہے اور قرضے ہیں کہ آبادی کی طرح بے ہنگم طریقے سے بڑھ رہے ہیں۔ مگر پریشانی ہے تو نئی تعیناتیوں کی کہ ان کا کیا ہو گا۔

سوال کرنے والے بھی کمال کرتے ہیں کل وزیر داخلہ بے چارے سے پوچھ لیا کہ سول ملٹری تعلقات کیسے ہیں تو اڑی ہوئی رنگت اور بے ربط جملوں میں شیخ رشید نے جواب دیا کہ اس کا جواب پرویز خٹک اور فواد چوہدری دے سکتے ہیں میں فی الحال یہ بتا سکتا ہوں کہ سب ٹھیک ہے۔ اب کوئی وزیر داخلہ سے پوچھے کہ بھائی اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو پھر پرویز خٹک اور فواد چوہدری سے کیا پوچھیں اور کیوں پوچھیں۔ وہ بھی تو تمہاری طرح ڈیوٹی کر رہے ہیں جب تمہیں نہیں معلوم تو ان کو کیسے علم ہو گا۔ ان کو چھوڑیں پتہ تو بنی گالہ کے سکونتی کو بھی نہیں تھا۔ اس لیے شاید دل پر لیے بیٹھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سچ میں ہی خود کو وزیراعظم سمجھ بیٹھا ہو اور سوچ رہا ہو کہ اب فیصلے میں نے کرنے ہیں۔

فیصلہ تو بلوچستان اسمبلی کے ناراض اراکین شاید کرچکے ہیں اور تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ نواب رئیسانی کے مطابق جام کمال اب کھجور اور پانی لیں اور تبلیغ پر چلے جائیں۔ اب جام کمال تبلیغ پر جاتا ہے یا ناراض اراکین کو اپنا مقتدی بناتا ہے اس کا فیصلہ آئندہ چند روز میں ہو گا۔ ویسے پوری بلوچستان اسمبلی سے سوال تو بنتا ہے کہ اگر جام کمال رہ جائے یا وزارت اعلیٰ چھوڑ جائے ہر دو صورتوں میں کیا بلوچستان کی عوام کے مسائل حل ہوں گے۔ اگر ہاں تو پھر یہ سب کچھ ٹھیک ہے اگر نہیں تو پھر یہ سب کس لئے ہو رہا ہے۔ خیر اس معاملے پر میں بھی چائے پینے کا ہی مشورہ دوں گا کیونکہ جو جام کمال کو لائے ہیں وہی فیصلہ کریں گے جام کمال نے جانا ہے یا نہیں جانا۔

ان ہی ہنگاموں اور شور شرابے میں محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان خاموشی سے رخصت ہو گئے۔ ایک ایسا شخص جس نے وطن عزیز کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا کے جانے کا دلی دکھ ہوا۔ سرکاری سطح پر پرچم سرنگوں رہا اور پوری قوم نے ان کو خراج تحسین پیش کیا۔ بلاشبہ ان کی خدمات کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے وہ ایک سچے اور محب وطن انسان تھے مگر ان کے وزیراعلیٰ سندھ کے کو لکھے گئے خط نے دکھی کر دیا۔ شاید یہ خلش دور نا ہو کہ محسن پاکستان اپنی زندگی کے آخری ایام میں کیا سوچ رہا تھا

سوچنا تو اس پر بھی بے کار سمجھیں کہ ہمارے معاشی ماہرین کا وفد آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے جا رہا ہے۔ اب ساہوکار کا کہنا ہے کہ تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کریں، غیر پیداواری اخراجات میں کمی کریں، مختلف اشیا پر سبسڈی ختم کریں، ریونیو کلیکشن میں اضافہ کریں اور خسارے میں چلنے والے اداروں کو فی الفور فروخت کر دیں پھر جا کر معاشی حالات میں کچھ بہتری کی امید ہے اور ان اقدامات کی صورت میں مزید قرض ملنے کی بھی توقع کی جا سکتی ہے۔

کیا یہ شرائط ایسی ہیں جن پر یہ حکومت فی الفور عمل کرسکے۔ کیا عام آدمی میں مزید سکت ہے کہ وہ مزید مہنگائی کو برداشت کرسکے۔ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور سبسڈی ختم ہونے سے مہنگائی کا جو طوفان آئے گا کیا اس طوفان کو عوام جھیل پائے گی۔ معاشی حالات میں بہتری کی امید، روزگار کی فراہمی کے دعوے، مہنگائی میں کمی کی دعویدار حکومت کیا عوام کو جواب دے پائے گی۔ یہ سارے سوالات پریشان کن ہیں مگر دوستو پریشان پھر بھی نہیں ہونا۔ کیا یہ معاشی حالات تم نے خراب کیے ہیں۔ کیا ان خراب معاشی حالات کو آپ ٹھیک کر سکتے ہیں اگر ان کا جواب نہیں ہے، تے فیئر چاء پیو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments