میرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے


ربیع الاول کا آغاز ہو چکا ہے، حکومت نے 13 ربیع الاول تک ملک بھر میں ”عشرہ رحمت للعالمینﷺ“ منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران پورے ملک میں پروگرامز اور کانفرنسز منعقد کی جائیں گی، اور ہونی بھی چاہیے۔ مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آپﷺ کی شخصیت فقط ایک دن یا مہینے کی نہیں بلکہ ہر روز اور ہر لمحے کی ہے۔ انسانی زندگی کا وہ کون سا ایسا پہلو ہے جس کے بارے میں آپ ﷺنے اپنی سیرت و کردار سے قیامت تک کے لیے نمونہ بھی انسانیت کے لیے قیمتی اثاثے کی شکل میں نہ چھوڑا ہو۔

آپ ﷺ کی سیرت کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ آپﷺ بہ حیثیت ایک پیغمبر کے اپنے پیرؤں کو جو نصیحت فرمائی اس پر سب سے پہلے خود عمل کر کے دکھایا۔ آپ ﷺ کے شب و روز میں شاید ہی کوئی ایسا لمحہ ہو جب آپ کا دل خدا کی یاد سے اور آپ کی زبان ذکر خدا سے غافل ہوئی ہو۔ آپ ﷺ کے سوا ازل سے لے کر ابد تک کوئی شخصیت ایسی نہیں گزری ہے نہ آئے گی جس نے یہ کہا ہو کہ ( اے قریشیو! ) میں اس (دعوی نبوت ) سے پہلے تمھارے درمیان ایک عمر رہا ہوں کیا تم نہیں سمجھتے۔ ( سورہ یونس 10/ 16) ۔

بارہ ربیع الاول کے مہینے کی برکت میں کیا کلام کہ عالم کے پروردگار نے قیامت تک کے لیے اپنی مکمل ہدایت کے لیے حضرت محمد ﷺ کو دنیا میں بھیجا۔ خالق کائنات نے خود آپ ﷺ کو رحمت العلمین قرار دیا۔ اس ماہ میں اس ہستی کا ظہور ہوا جس کے لیے تمام زمین کو مسجد بنا دیا گیا۔ یہ اسی شخصیت مبارکہ کا فیض ہے کہ ظلمات فروشوں کی رات کو شکست ہوئی اور آپ کے عدل اور میزان کا سورج طلوع ہوا اور سورج بھی وہ جو قیامت تک کے لیے روشن اور قائم ہے۔

انسانیت کو وہ شرف اور سہارا بخشا جو اسے کسی شر، ظلم اور جبر کے سامنے جھکنے نہیں دیتا۔ گرامی قدر غامدی صاحب بتاتے ہیں کہ آپ ﷺکی شرف اور اعزاز کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں آپ کو اصل نام احمد کی بجائے محمد کے نام سے مخاطب کیا جو معنوی اعتبار سے لقب ہے۔ صرف سورۂ صف میں جہاں حضرت مسیح کی بشارت آپ کے بارے میں نقل ہوئی ہے، اس میں آپ کا نام احمد آیا ہے۔ ویسے تو بطور مسلمان اور آپ ﷺ کا امتی ہونے کے ناتے ہمیں ہر وقت سیرت مبارکہ کو جاننے اور اس پر عمل کرتے رہنا چاہیے۔ مگر جس طرح ہم رمضان کے مہینے میں اپنے رب سے عام دنوں کی نسبت زیادہ تعلق استوار کرتے ہیں اسی طرح ربیع الاول کے مہینے میں ہمیں چاہیے کہ سیرت کا مطالعہ کریں اور اپنی زندگیوں کو اس روشنی سے منور کریں۔

اس حوالے سے خاکسار نے اپنے عظیم تر پیمبر کی مدح میں کہے گئے معروف شعراء کے چند اشعار کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ مگر اس میں بھی کیا کلام کہ بقول غالبؔ:

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
نجیب ؔ احمد صاحب کی نعت کے چند اشعار:
آپ کا عہد اگر ملا ہوتا/ میں بھی ہمعصر کعب ہوتا
میرے ہاتھوں کا مخملیں رقبہ/ آپ کے گھر کا راستہ ہوتا
کاش میں بھی لحد کی مٹی میں / آپ کے ہاتھ سے ملا ہوتا
آپ کا ہاتھ مجھ کو دفنا کر / بن کے ابر دعا اٹھا ہوتا
ایک انسان دیکھتا میں نجیبؔ / اور قرآن پڑھ لیا ہوتا
احمد ندیم ؔقاسمی صاحب کے اشعار کہ :
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم / مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
دستگیری میری تنہائی کی، تونے ہی تو کی/ میں تو مر جاتا، اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا/ میں تو کہتا ہوں، جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے /رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم /مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی/ اب جو تا حشر کا فردا ہے تنہا تیرا
سلیمؔ کوثر صاحب کی نعت کے اشعار :
جو آپ ﷺ کی صدا پہ آئے اور آپ ﷺ کے ہوئے / انہی کا عشق ہے جسے دوام لکھ دیا گیا
سوال عدل، امن، آشتی کے ہر جواب میں /ریاست مدینہ کا نظام لکھ دیا گیا
عطا کیا خدا نے کیا مقام و مرتبہ مجھے / میں ان کا امتی ہوں اور غلام لکھ دیا گیا
احمد فرازؔ صاحب کے اشعار:
مرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے / میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
نہ میری نعت کی محتاج ہے ذات تیری / نہ تیری مدح ہے ممکن میرے خیالوں سے
مظفر وارثی صاحب کے کلام ”تو کجا من کجا“ کے چند اشعار:
ڈگمگاؤں جو حالات کے سامنے / آئے تیرا تصور مجھے تھامنے
میری خوش قسمتی، میں تیرا امتی/ تو جزا میں رضا، تو کجا من کجا
دوریاں سامنے سے جو ہٹنے لگیں / جالیوں سے نگاہیں لپٹنے لگیں
آنسوؤں کی زباں ہو میری ترجماں / دل سے نکلے سدا، تو کجا من کجا
لاکھوں درو و سلام حضرت محمد مصطفی ﷺ پر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments