تاریخ میں ڈھلتی ہوئی داستان


پاکستان میں جبر کی طاقتیں، جو حضرت قائداعظم کی رحلت اور قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد اقتدار پر قابض ہو گئی تھیں، انہوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی راستے سے ہٹ گئے ہیں۔ عمر قید کی سزا کاٹنے کے لیے انہیں دس پندرہ سال جیل میں گزارنا ہوں گے اور ان کی غیرموجودگی میں جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھیرنا قدرے سہل ہو جائے گا۔ حکمران طبقہ جو بڑے بڑے زمینداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں پر مشتمل تھا اور جس کے سول اور ملٹری بیوروکریسی سے بھی مراسم قائم تھے، وہ پاکستان میں اسلامی نظام اور جمہوری طرز زندگی سے بہت خائف تھا۔ اس کے برعکس بانیان پاکستان مسلمانوں کے لیے ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتے تھے جس میں اسلام کے مطابق کاروبار زندگی سرانجام پائے۔ مولانا ظفر احمد انصاری جو آل انڈیا مسلم لیگ کے جائنٹ سیکرٹری تھے، انہوں نے راقم الحروف کو ایک اہم انٹرویو دیا جو ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں نومبر 1966 میں شائع ہوا۔

اس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ مسلم لیگ نے قرارداد لاہور کی منظوری کے فوراً بعد اسلامی حکومت کے واضح تعین کے لیے 1940 ہی میں علما کی کمیٹی مقرر کی تھی جس میں سید سلیمان ندوی، سید مودودی، مولانا عبد الماجد دریا آبادی، مولانا آزاد سبحانی اور مولوی اسحٰق سندیلوی شامل تھے۔ اس تعلق کی بنا پر سید ابوالاعلیٰ مودودی پاکستان میں اسلامی حکومت اور اسلامی دستور کے خد و خال واضح کرنے میں شب و روز مصروف ہو گئے۔ قرآن کے مفسر اور اسلام کے ممتاز مفکر کی حیثیت سے حکومت پاکستان نے انہیں ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب کرنے کی دعوت دی۔

انہوں نے 1948 کے اوائل میں پانچ تقریریں کیں جن میں اسلام کے اخلاقی، سیاسی، معاشرتی، اقتصادی اور روحانی نظام کے تصورات عصری محاورے میں پیش کیے گئے تھے۔ فروری میں پنجاب یونیورسٹی میں وائس چانسلر ڈاکٹر عمر حیات ملک کی سربراہی میں ”اسلامی قانون اور پاکستان میں نفاذ کی تدابیر“ پر سیمینار منعقد ہوا۔ وہ عناصر جو اسلام کے نام ہی سے الرجک تھے اور پاکستان کو ایک لا دینی ریاست دیکھنا چاہتے تھے، وہ اس پروپیگنڈے کو ہوا دیتے رہے کہ مودودی تو جہاد کشمیر کو حرام قرار دیتا ہے۔ اس شر کے نتیجے میں حکومت پنجاب اور جماعت اسلامی کے تعلقات کشیدہ ہو گئے اور مولانا پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بیس ماہ نظربند رہے۔ یہی بے دین طبقے ان پر تخلیق پاکستان کی مخالفت کا الزام بھی لگاتے رہے۔

راقم الحروف 1950 میں مرالہ ہیڈ ورکس پر سگنیلر کے طور پر تعینات تھا۔ خبر پہنچی کہ ابوالاعلیٰ مودودی جولائی 1950 کے وسط میں سیالکوٹ میں جلسۂ عام سے خطاب کریں گے۔ خاکسار مرالے سے سیالکوٹ پہنچا۔ میرا ان کی تقریر سننے کا یہ پہلا موقع تھا۔ وہ دھیمے اور سنجیدہ لہجے میں تقریر اس انداز میں کر رہے تھے جیسے لکھی ہوئی تحریر پڑھ رہے ہوں۔ یہ ایک سراسر جداگانہ طرز تقریر تھا جو جذبات کے بجائے دماغ کے اندر اترتا جا رہا تھا۔

انہوں نے اس تقریر میں چند ایسی باتوں کا اعلان کیا جو انقلاب آفریں تھیں۔ وہ بیس ماہ جیل کاٹ کر آئے تھے، لیکن ان کے لہجے میں تلخی کے بجائے مل جل کر پاکستان کو دو تین سالہ خانہ جنگی کے اثرات سے نکالنے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا جذبہ کارفرما تھا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم پاکستان کی سرزمین کو مسجد کی طرح محترم سمجھتے ہیں۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ ہمارے نزدیک منصب کا طلبگار ہر عہدے کے لیے نا اہل ہو گا اور انتخابات میں جماعت اپنے امیدوار کھڑے نہیں کرے گی بلکہ حلقے کے ووٹرز اپنے نمائندے نامزد کریں گے۔ اس نکتے کی وضاحت بھی کی کہ 23 مارچ 1940 کی آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد کے بعد انہوں نے اسی کو اپنا نصب العین قرار دے دیا تھا۔ دراصل مولانا ایک یکسر مختلف اور باوقار انداز سیاست کے موجد تھے۔

ایک دینی جماعت ہونے کی حیثیت سے عوام جماعت اسلامی کا رشتہ مذہبی جماعتوں سے جوڑ رہے تھے جن میں وہی شخص سب سے زیادہ متقی ہوتا ہے جس کے بال الجھے ہوئے ہوں اور داڑھی بے ترتیبی سے بڑھی ہوئی ہو اور اس کا لباس میلا کچیلا ہو۔ سید مودودی نے اس غلط تصور کے برخلاف متقی کے لیے ایک دین دار شخص کا اچھا نمونہ پیش کیا۔ عملی طور پر انقلابی تبدیلی پیدا کی۔ خود بھی وضع قطع سے ایک معزز شخص نظر آتے تھے اور ان کے ہاں غیرمعمولی نفاست، صفائی ستھرائی اور نظم و ضبط کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے تمام ارکان سلیقے اور شائستگی کے پیکر دکھائی دیتے تھے۔

ان کا دوسرا عظیم کارنامہ ایک ایک پیسے کا حساب رکھنا اور وسائل جمع کرنے کا ایک قابل اعتماد اور باوقار نظم قائم کرنا تھا۔ ان سے پہلے عام طور پر سیاسی اور مذہبی جماعتیں بڑے بڑے جلسے کرتیں جن میں دھواں دھار تقریریں ہوتیں اور اس کے بعد چندے کی اپیل کی جاتی۔ جمع ہونے والی رقوم کا عوام کو پتہ چلتا نہ ان کا کوئی حساب کتاب رکھا جاتا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے قائداعظم کی مثال سامنے رکھتے ہوئے اس امر کا بطور خاص اہتمام کیا کہ وہ جماعت پر مالی بوجھ نہیں بنیں گے نہ اپنے کارکنوں کو مسکینوں کی سی زندگی بسر کرنے کے لیے چھوڑ دیں گے۔

انہوں نے مالی اعانت کا باقاعدہ اہتمام کیا کہ جماعت کے کارکن اور منتظمین اپنی حیثیت کے مطابق اعانت دیں گے اور انہیں اس کی باقاعدہ رسید دی جائے گی۔ قائداعظم دو آنے کی رقم وصول کر کے رسید پر اپنے دستخط ثبت فرماتے تھے۔ جماعت اسلامی نے غریبوں کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے شہروں اور قصبوں میں شفاخانے کھول دیے تھے اور محلوں میں لائبریریاں قائم کر دی تھیں۔ ذہن سازی کے لیے تعلیمی اداروں کا ایک سلسلہ چل نکلا تھا جن میں اسلامی جمعیت طلبہ کی داغ بیل ڈال دی گئی جس کا اولین مقصد طلبہ کی ذہنی اور اخلاقی صلاحیتوں کو جلا دینا تھا۔

اس کے ساتھ وہ طلبہ بھی وابستہ ہوئے تھے جنہوں نے آگے چل کر پاکستان کی مضبوطی اور تعمیر میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جمعیت سے گہرا تعلق رکھنے والے ایک اساطیری کردار کا ذکر ہم اگلی نشست میں کریں گے جو زندہ جاوید ہیں اور جن کی یادوں کا سلسلہ ماہ و سال پر محیط ہوتا جائے گا، کیونکہ وہ محض ایٹمی سائنس دان ہی نہیں تھے، ہماری نظریاتی سرحدوں کے محاذ پر بھی بڑے سرگرم تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments