پرامن ناروے میں خوں ریزی کا افسوسناک واقعہ


جمعرات 14 اکتوبر کو ملک میں حکومت کی تبدیلی سے محض 18 گھنٹے پہلے ناروے کے دارالحکومت اوسلو سے جنوب مغرب میں 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کونگسبرگ کے چھوٹے سے شہر میں ایک 37 سالہ شخص نے تیر کمان سے حملہ کرکے پانچ افراد کو ہلاک اور دو کو زخمی کردیا۔ اس اچانک خوں ریز واقعہ نے پورے ملک کو دہشت زدہ کردیا اور اس بے مقصد و ناقابل فہم سانحہ پر حیرت، افسوس، پریشانی و حیرانی کا اظہار کیا جارہا ہے۔

حملہ آور شخص کو مجرمانہ حملوں کے نصف گھنٹہ بعد ہی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ رات گئے تک پولیس اور دیگر اداروں کے سینکڑوں کارکن اور درجنوں صحافی اس غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے اور اسے سمجھنے کے لئے 30 ہزار نفوس کی آبادی کے اس چھوٹے سے شہر میں جمع تھے ۔ قومی ٹیلی ویژن اور تمام بڑے اخبارات لمحہ بہ لمحہ عوام کو اس صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ ناروے میں پولیس عام طور سے ہتھیار لے کر نہیں چلتی لیکن اس سانحہ کے فوری بعد پولیس ڈائیریکٹوریٹ کی جانب سے ملک بھر میں پولیس کو مسلح رہنے کا حکم دیا گیا۔ اگلے ہی دن ناروے میں حکومت تبدیل ہونے والی تھی لیکن پولیس اور متعلقہ اداروں نے وزیر اعظم ارنا سولبرگ اور وزیر انصاف کو اس سانحہ کی تفصیلات اور حملہ آور کے بارے میں معلومات فراہم کیں ۔ وزیر اعظم نے رات گئے ایک پریس کانفرنس میں قوم کو یقین دلایا کہ نہ تو حکومت کی تبدیلی کا عمل متاثر ہوگا اور نہ ہی محض اس بنا پر کہ چند گھنٹے بعد نیا وزیر اعظم ذمہ داریاں سنبھلانے والا ہے، اس معاملہ کی تحقیقات اور عوام کی سیکورٹی کے حوالے سے کوئی کوتاہی دیکھنے میں آئے گی۔

ارنا سولبرگ نے بتایا کہ ملک میں ایسی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے نظام موجود ہے اور پولیس اور متعلقہ ادارے کونگسبرگ میں خوں ریزی کی اطلاع ملتے ہی تحقیق و جستجو میں لگے ہوئے ہیں اور تمام مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔ اس لئے مرکزی سطح پر حکومت کی تبدیلی بھی معمول کے مطابق عمل پذیر ہوگی اور نئی حکومت کو تمام صورت حال سے پوری طرح مطلع بھی کیا جائے گا۔ کل شام ہی سبکدوش ہونے والی وزیر انصاف مونیکا مالاند نے جمعرات کو عہدہ سنبھالنے والے وزیر اعظم آربائیدر پارٹی کے لیڈر یوناس گار ستورے کو بھی اس واقعہ کی تفصیلات سے آگاہ کردیا تھا۔ گار ستورے نے جمعرات کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد پریس کانفرنس میں کونگسبرگ میں ہونے والی ہلاکتوں پر گہرے ملال اور دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ اس موقع پر پورا ملک اس شہر کے لوگوں اور سانحہ میں ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان کے ساتھ کھڑا ہے۔

یہاں یہ بات نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ ناروے پچاس لاکھ آبادی کا ایک چھوٹا سا پر امن ملک ہے۔ یہاں پر کسی بھی قسم کی مجرمانہ کارروائی کو نہایت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ سرکاری حکام کے علاوہ میڈیاایسے واقعات پر کڑی نگاہ رکھتا ہے اور ہر سانحہ کے بعد یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایسے جرم کی روک تھام کے لئے کیا اقدام کئے جاسکتے ہیں۔ اور ایک ایسا واقعہ جس میں ایک شخص نے اچانک تیر کمان سے مسلح ہوکر ایک چھوٹے سے شہر میں گھوم کر پانچ افراد کو ہلاک کیا ہو، ناروے جیسے ملک کے لئے بے حد سنگین اور پریشان کن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ میڈیا اور تمام متعلقہ ادارے کونگسبرگ کے سانحہ پر شدید بے چینی کا اظہار کررہے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ چھوٹا ملک ہونے کے باوجود یہاں کا سیاسی و انتظامی طریقہ کار ٹھوس بنیادوں پر استوار ہے اور کوئی ادارہ محض اس بنا پر کسی سستی کا مظاہرہ نہیں کرتا کہ حکومت تبدیل ہونے والی ہے، اس لئے نئی حکومت کا مزاج دیکھ کر اقدام کیا جائے گا۔ نہ ہی پولیس یا دیگر اداروں کو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ حکومت تبدیلی کے بعد انہیں تبدیل کردیا جائے گا یا کسی قسم کی دوسری پریشانی کا سامنا ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ ارنا سولبرگ اگرچہ چند گھنٹے بعد اقتدار سے دست بردار ہونے والی تھیں لیکن انہوں نے وزیر اعظم کے طور پر آخری چند گھنٹوں کے دوران پیش آنے والے اس سانحہ پر کسی تساہل کا مظاہرہ کرنے کی بجائے قوم کو اعتماد میں لینے اور میڈیا کے ذریعے رات گئے یہ بتانا ضروری سمجھا کہ کسی پریشانی کی ضرورت نہیں ہے ،تمام متعلقہ حکام صورت حال سمجھنے اور کسی بھی قسم کی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں۔ بالکل اسی طرح نئی حکومت نے ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد یہ نہیں سوچا کہ اب ان کے سامنے بہت بڑے کام ہیں ، نئے وزیر اعظم اور وزیروں نے اپنے سیاسی منشور پر عمل کرنا ہے، مناسب انتظامی تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور اس کے بعد کونگسبرگ کے واقعہ پر بھی غور کرلیا جائے گا۔

اس کے برعکس وزیر اعظم یوناس گار ستورے نے گزشتہ رات ہی یہ پیغام دے دیا تھا کہ ان کی پہلی ترجیح اس خوں ریزی کی تحقیق اور اس کے مضمرات سے نمٹنا ہوگا۔ یوناس گار ستورے نے وزیر اعظم کے طور پر پہلی پریس کانفرنس کا آغاز ان الفاظ سے کیا: ’ پیارے ہموطنو یہ ایک اہم دن ہے لیکن حکومت پیش کرنے کے لئے یہ ایک خاص دن بھی ہے۔ کونگسبرگ میں ہونے والے افسوسناک حملے میں متعدد بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں‘۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جمعہ کو ہی نئی وزیر انصاف ایملی اینگر میہل کے ہمراہ کونگسبرگ جائیں گے تاکہ اس سانحہ کے متاثرین کو یقین دلا سکیں کہ حکومت معصوم جانوں کے ضیاع کو نہایت سنجیدہ و سنگین معاملہ سمجھتی ہے اور اس موقع پر مقامی آبادی اور وہاں کی انتظامیہ تنہا نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے دس برس پہلے ناروے میں ہونے والی دہشت گردی کا حوالہ بھی دیا جس میں درجنوں افراد مارے گئے تھے اور 2019 میں بیرم کے مقام پر ایک مسجد پر حملہ کا ذکر بھی کیا جس میں دو نمازیوں کی شجاعت کی وجہ سے حملہ آور کسی کو ہلاک کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا ۔ ناروے کی حکومت اور عوام نے اس واقعہ کو فراموش نہیں کیا اور بین الثقافتی معاشرہ میں ہم آہنگی اور بھائی چارے کی فضا برقرار رکھنے کے لئے یہ اعادہ کیا جاتا ہے کہ کسی عباد ت گاہ پر حملہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

بدقسمتی سے کونگسبرگ حملہ میں ملوث شخص مذہب تبدیل کرکے مسلمان ہوچکا تھا اور اس نے لوگوں پر حملہ کے لئے تیرکمان جیسے دیرنہ اور وحشیانہ ہتھیار کا استعمال کیا جس کی وجہ سے یہ واقعہ زیادہ سنگین اور پریشان کن سمجھا جارہا ہے۔ پولیس یا ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی نے کہا ہے کہ اس معاملہ میں دہشت گردی کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تاہم ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ پولیس ملزم سے پوچھ گچھ کے ذریعے تمام حقائق جاننا چاہتی ہے۔ تاہم یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ اس واقعہ میں مبینہ حملہ آور کے علاوہ کوئی دوسرا ملوث نہیں ہے اور اس نے یہ کارروائی اپنے طور پر کی ہے۔ اب قاتل کے وکیل نے میڈیا کو بتایا ہے کہ وہ پولیس سے تعاون کررہا ہے۔ اس نے تمام واقعات کو تسلیم کیا ہے اور ان کی تفصیل فراہم کی ہیں۔

اس دوران پولیس ایکشن اور حملہ آور کے پس منظر کے حوالے سے سامنے آنے والی معلومات کی وجہ سے متعدد سوالات بھی سامنے آئے ہیں۔ ان میں سب سے اہم سوال تو یہی ہے کہ پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسی کو کئی سال سے یہ خبر تھی کہ یہ شخص مسلمان ہوچکا ہے اور شدت پسندی کی طرف مائل ہے۔ حملہ آور کی ماں ڈنمارک کی شہری ہے لیکن وہ خود ناروے میں پیدا ہونے کے باوجود ڈینش شہری ہے۔ ناروے کا قریبی ہمسایہ ملک ہونے کے علاوہ اس نسبت سے ڈنمارک میں بھی اس سانحہ کو بہت اہمیت دی جارہی ہے اور وہاں کے لوگ اور حکام بھی اس کی وجوہ جاننے کے لئے بے چین ہیں۔ حملہ آور نے 2017 میں کئی ویڈیو سوشل میڈیا پر نشر کی تھیں۔ ان میں ایک ویڈیو میں وہ یہ کہتے سنا جاسکتا ہے: ’ میں پیغامبر ہوں۔ میں یہ انتباہ دے رہا ہوں۔ کیا واقعی آپ یہی چاہتے ہیں۔ اور اگر آپ اپنے اعمال کی تلافی چاہتے ہیں تو اس کا وقت آگیا ہے۔ گواہ رہنا میں مسلمان ہوں‘۔ ویڈیو سامنے آنے کے بعد اس شخص کے ایک پرانے دوست نے پولیس کو مطلع کیا تھا کہ یہ شخص ذہنی طور سے بیمار اور شدید تنہائی کا شکار ہے۔ اسے اندیشہ ہے کہ وہ کوئی انتہائی اقدام کرسکتا ہے۔ اب سوال کیا جارہا ہے کہ متعلقہ حکام اس قسم کی اطلاعات کے باوجود اس شخص کو خوں ریزی سے روکنے میں کیوں ناکام رہے؟

گزشتہ شام کونگسبرگ میں ہونے والی ہلاکت خیزی کے بارے میں یہ معلومات بھی شدید پریشانی کا سبب بنی ہیں کہ پولیس کو شام سوا چھے بجے کے قریب ایک سپر سٹور میں تیر کمان سے لیس حملہ آور کی اطلاع ملی اور پانچ منٹ بعد ہی پولیس کی پہلی گاڑی موقع پر پہنچ گئی ۔ خیال ہے کہ پولیس کا ملزم سے پہلی بار چھے بج کر بیس منٹ کے لگ بھگ آمنا سامنا ہؤا لیکن اسے گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ 6 بج کر 47 پر گرفتاری سے پہلے حملہ آور پانچ افراد کی جان لے چکا تھا جن میں چار خواتین اور ایک مرد شامل ہے اور سب کی عمریں پچاس سے ستر سال کے درمیان بتائی گئی ہیں۔ یعنی جس وقت یہ شخص تیر کمان کے ساتھ شہر میں گھوم کر لوگوں کو نشانہ بنا رہا تھا، پولیس بھی اس کے پیچھے تھی اور دو بار اس سے مڈ بھیڑ بھی ہوئی۔ اب سوال کیا جارہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پولیس معصوم شہریوں کا قتل روکنے میں ناکام رہی اور اس شخص کو بروقت نہیں پکڑا جاسکا۔

آنے والے دنوں میں یہ سب سوال زیادہ شدت سے سامنے آتے رہیں گے۔ پولیس اور متعلقہ حکام وعدہ کررہے ہیں کہ تمام معلومات اکٹھی ہونے اور گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد پوری صورت حال سامنے لائی جائے گی۔ اس دوران یہ جاننے کی کوشش بھی کی جائے گی کہ کیا حملہ آور ذہنی مریض ہے یا اس نے کسی شدت پسندانہ نظریہ و مقصد کی وجہ سے لوگوں کو قتل کیا ہے۔ پولیس یہ واضح کرچکی ہے کہ حملہ آور نے خاص طرح کے لوگوں کو چن کر نشانہ نہیں بنایا بلکہ جو اس کی زد میں آیا اس نے اسی پر ہی تیر چلا دیا۔

 پاکستان میں مغربی ممالک کے اسلاموفوبیا کی بہت مثالیں دی جاتی ہیں اور وزیر اعظم عمران خان اس سے نمٹنے کے لئے عالمگیر مہم کی قیادت بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن ناروے میں ایک ’مسلمان‘ کے ہاتھوں معصوم لوگوں کی افسوسناک ہلاکت کے باوجود اس کے عقیدہ کو نشانہ بنانے کی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔  البتہ عقیدہ کی بجائے وقوعہ اور حقائق کی بنیاد پر معاملہ کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments