ماں جی کا ریڈیو، بچپن کا بی بی سی اور رحیم اللہ یوسفزئی کی آواز


ہمارے والد عالم بابا کے چچا گاؤں کے پہلے آدمی تھے، جو باقاعدہ تعلیم کے حصول کے لیے سفر پہ نکلے۔ یہ تعلیم دین کی تھی، یہ سفر دہلی کا تھا اور یہ بات تقسیمِ ہند سے بہت پہلے کی ہے۔

اسی نسبت سے وہ ڈیلی مُلا، یعنی دہلی والے مولوی صاحب کہلاتے تھے۔ اُن کا کچا مکان منفرد چیزوں کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ دِلی، آگرہ اور پٹنہ سے وہ کیسی کیسی نادر چیزیں لے کر آئے تھے۔ ان کے آب خورے اور چائے کی پیالیاں تک دیکھنے کے لیے لوگ آتے تھے۔ گاؤں کے حجروں میں ان چیزوں کے صرف قصے رہ گئے ہیں۔ سنتا ہوں تو دل مچل جاتا ہے۔

اُن کے بعد باقاعدہ تعلیم کا یہ سفر میرے بابا اور تایا نے کیا۔ ابتدائی تعلیم انہیں کسی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے کسی بابے سے حاصل کرنی ہوتی تھی۔ مانگ کر کھانا ہوتا تھا اور ٹپکتی چھت والی مسجد میں سونا ہوتا تھا۔ مارتون چکیسر کے پہاڑوں میں حدیث و فقہ اور فلسفہ ومنطق کے کچھ مضامین پڑھنے کے بعد تایا ہندوستان کے کسی شہر کی طرف نکل گئے اور بابا اکوڑہ خٹک سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچ گئے۔ پڑھائی نمٹا کر شادی کی اور سن 1971ء میں ماں جی کو ساتھ لے کر کراچی میں بس گئے۔

ماں جی کی شادی چودہ پندرہ برس کی عمر میں ہوئی۔ ڈیڑھ ڈیڑھ اور دو دو سال کے فرق سے نو بچے جنم دیے۔ اپنی باقی ہمجولیوں کی طرح سوائے قرآن مجید کے کچھ نہیں پڑھا تھا۔ بابا کو فارسی پر کیا ہی شاندار دسترس تھی۔ فردوسی، شیرازی ان کو چار قُل کی طرح ازبر تھے۔ اردو کتب کے مطالعے کو سرے سے مطالعہ ہی نہیں مانتے تھے۔ بھئی پڑھنا ہے تو فارسی لٹریچر پڑھو۔ بڑے بھائیوں کو گھر پہ ہی پندنامہ اور بوستانِ سعدی پڑھاتے تھے۔ جھاڑو ہانڈی کر کے ماں جی بھی باپ بیٹوں والی کلاس میں بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ عطار کے پاس بیٹھ بیٹھ کر وہ بھی خوشبو کا چھوٹا موٹا بیوپار کرنے لگ گئیں۔ بہت زیادہ تو نہیں، ایک حد تک ان کے شُدم اور بودم پختہ ہو گئے۔ قرآن کی ناظرہ تعلیم اور فارسی کی شُد بُد سے اور تو کچھ ہوا نہ ہوا، ان کی اردو کے شین قاف سدھر گئے۔

ایک وقت آیا کہ بابا کی آنکھیں دُکھنے کو آگئیں۔ زیادہ دیر کسی سطر پر آنکھ نہیں جما سکتے تھے۔ اخبار پابندی سے پڑھتے تھے، اُس سے بھی گئے۔ ماں جی کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا۔ صبح تڑکے بابا کی میز پر گرم چپاتی اور تیز پتی والی چائے رکھتیں تو دروازے سے اخبار اٹھا کر لے آتیں۔ ماں جی اخبار کی قرات کرتی تھیں اور بابا کان رکھ کے ناشتہ کرتے تھے۔ جہاں ادائیگی ذرا سُست ہو جاتی بابا سنجیدہ سی آواز میں درست املا بتا کر جملہ چُست کروا دیتے۔ اس مشق نے پڑھت کے ساتھ ساتھ ماں جی کی معلومات میں بھی خوب اضافہ کیا۔

نتیجہ یہ کہ قومی اتحاد کے ملک گیر مظاہروں سے لے کر انیس سو ننانوے کی بغاوت تک کی پوری سیاسی تاریخ ماں جی کو ازبر ہو گئی۔ کسی بھی دن تاریخ کا حوالہ دیں، وہ اُس کی مناسبت سے تب کا کوئی سیاسی واقعہ سنا دیں گی۔ بچوں کی تاریخِ پیدائش کے دائیں بائیں کیا کچھ ہوا، وہ سب ان کے ذہن پر اب بھی نقش ہے۔ گاؤں سے کراچی ہجرت کا قصہ یوں سناتی ہیں، ہم آئے تو پاک بھارت جنگ چھڑی ہوئی تھی اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو رہا تھا۔

میری پیدائش کا حادثہ یوں بیان کرتی ہیں، تم یکم نومبر کو جمعرات کی شام ساڑھے آٹھ بجے پیدا ہوئے تھے۔ تمہاری پیدائش سے ٹھیک ایک دن پہلے ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے سکیورٹی گارڈ نے قتل کردیا تھا۔ تم نے قدم لیا تو نوابزادہ نصراللہ خان بے نظیر کے ساتھ مل کر جنرل ضیاء کے خلاف تحریک چلا رہے تھے۔

ماں جی تب مسلم لیگی تھیں، اب شدید مسلم لیگی ہیں۔ بے نظیر انہیں پسند تھیں مگر اعتراف نہیں کر سکتی تھیں۔ تب دوسرے شریف گھرانوں کی طرح ہمارے ہاں بھی بے نظیر ملک دشمن اور فحش عورت کے طور پر جانی جاتی تھیں۔

ہمارے گھر کا ماحول سخت گیر تھا۔ تصویر، ٹی وی، گانا فلم سب حرام کے درجے میں تھا۔ ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب اور اشفاق احمد جیسے حضرات تک کا لٹریچر قابلِ دست اندازی تھا۔ انٹرٹینمنٹ کا کوئی براہ راست قسم کا ذریعہ نہیں تھا۔ میں نے بچپن میں پی ٹی وی کے سارے ڈرامے چوری چپکے گلزار بھائی کے گھر دیکھے۔ میں پاپوش نگر اپنے ماموں کے گھر شوق سے جاتا تھا۔ ماموں کی محبت اپنی جگہ، مگر ان کی پڑوس میں بخت زیبا نام کی ایک دھانسو قسم کی خاتون رہتی تھیں، جن کے ہاں انڈین فلمیں دیکھنے کو مل جاتی تھیں۔

گلزار بھائی حاجی نمازی آدمی تھے، ان کا ٹی وی تو قاری صداقت کی تلاوت، طارق عزیز شو، کرکٹ کی جھلکیوں اور دھواں جیسے ڈراموں سے آگے بڑھتا ہی نہیں تھا۔ ایسے پرہیزگار لوگ بھی کبھی ہم جیسوں کے ہاں بدکار سمجھے جاتے تھے۔

بڑے بھائی کرکٹ کے دھتی تھے، جو وہ دور کہیں کسی ڈھابے پر جا کر دیکھتے تھے۔ ڈھابے والے انہی کو کرکٹ دیکھنے دیتے تھے، جو ڈھابے پہ کھانا کھاتے تھے۔ مہتاب بھائی کی دُکان سے کرائے پہ عمران سیریز لینے جاتے تھے تو چور اکھیوں سے دائیں بائیں دیکھتے تھے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔

کاغذوں میں اس طرح لپیٹ سمیٹ کر کوئی بُوٹ لیگر واڈکا وہسکی نہیں دیتا، جس طرح مہتاب بھائی ہمارے بھائیوں کو عمران سیریز دیتے تھے۔ مہتاب بھائی کہتے تھے، سالو تم لوگ مرواؤ گے مجھے، تمہارا باپ کسی دن مجھے گنجا کر کے دھوپ میں بٹھا دے گا۔ لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا؟

دن تب بدلے، جب ماں جی نے جاپانی ریڈیو خرید لیا۔ یہ بہار کا روشن ہوتا ہوا پہلا امکان تھا۔ ہمارے پُرکھوں نے ریڈیو کو حرام کہا تھا، ہمارے گھر میں یہ جائز ہو رہا تھا۔ اسی لیے پہلے پہل اسے عزیزوں سے بھی چھپانا پڑتا تھا کہ بھنک پڑ گئی تو بہت لاحول بھیجیں گے۔

تین اوقات ایسے تھے، جن میں بچوں کو سانس روکے رکھنا ہوتا تھا۔ ایک، جب ماں جی صبح سویرے منہ اندھیرے قرآن کی تلاوت کرتی تھیں۔ دوسرا، جب ریڈیو پر کوئٹہ سے نشر ہونے والا مزاحیہ پشتو ڈرامہ سنتی تھیں۔ تیسرا، جب بی بی سی پر نیوز کاسٹر رحیم اللہ یوسفزئی کا نام لیا جاتا تھا۔

 رحیم اللہ صاحب کا نام آنے کا مطلب تھا کہ بچے آنکھوں کے سامنے سے گم ہو جائیں اور جو پہلے سے گم ہیں وہ گُم سُم ہو جائیں۔ جو بیٹھے ہیں وہ ٹک ٹک دیدم ہو جائیں اور جو لیٹے ہیں وہ دم نہ کشیدم ہو جائیں۔ آپ اگر سامنے بیٹھ کر چائے میں بسکٹ ڈبو رہے ہیں اور سگنل ڈراپ ہو گئے، تو سمجھو آپ کی رسید کٹ گئی۔ چلاتی ہوئی آواز میں سوال ہو سکتا ہے کہ اس وقت چائے میں بسکٹ ڈبونے کی کیا ضرورت تھی؟ ماں جی کا ایک ہاتھ ریڈیو پر ہوتا تھا دوسرا جوتے پر۔ بچہ کہیں بھی مخل ہوتا ہوا نظر آتا، ماں جی کا لیزر گائیڈڈ جوتا اڑتا ہوا آتا اور تڑاخ سے پچھواڑے پہ چپت ہو جاتا۔ بی بی سی کی خبر غلط ہو سکتی تھی، پیر پگارا کی پیشگوئی غلط ہو سکتی تھی، اماں کے جوتے کا نشانہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا تھا۔

ایک بار توجہ سے خبریں سن رہی تھیں کہ اچانک رحیم اللہ صاحب کی آواز اڑ گئی اور پنجابی لہجے میں آواز آئی، ہیلو ہیلو پولیس موبائل فلاں ڈمکاں ہیلو۔ اماں نے چونک کر کہا اب یہ کیا ہوا؟ بھائی نے کہا، شاید پولیس وین گلی سے گزر رہی ہے اس کا وائرلیس کنکشن آپ کے اینٹینے نے پکڑ لیا۔ غصے سے لال پیلی ہو کر بولیں، یہ الو کے پٹھے آرام سے تھانے میں نہیں بیٹھ سکتے؟

بھائی نے ہنس کر کہا، ارے ماں وہ پولیس ہے، ہماری حفاظت کے لیے ہی بیچاری گلیوں میں گھومتی ہے۔ ترنت بولیں، نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے خبرنامے کے وقت ہماری گلی میں آنے کی۔

محلے کی مسجد میں ایک بنگالی بابو کبھی کبھی اذان دیا کرتے تھے۔ ظالم کی کان پھاڑ آواز دماغ کی چولیں ہلا کر رکھ دیتی تھی۔ ایک دن رحیم اللہ یوسفزئی والی خبروں کے دوران ہی مسجد کے لاوڈ سپیکر کھلے اور بنگالی بابو کسی بچے کی گمشدگی کا اعلان کرنے لگے۔ ایک بار اعلان کرتا تو چلو کوئی بات تھی۔ شامتِ اعمال پورے تین بار اعلان کر کے لاوڈ سپیکر کی جان بخشی۔ اس دوران اماں سر پکڑ کے ہونٹ چباتی رہیں۔ اعلان سماپت ہوا تو اماں کے دل کے پھپھولے جل بھُن کے معاشرتی علوم ہو گئے۔ تنک کے بولیں، اچھا ہی ہوا جو بھٹو نے بنگالیوں کو الگ کر دیا۔

 آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک خاص عمر کے لوگ ساٹھ سے نوے تک کی دہائیوں کے گیت کیوں پسند کرتے ہیں؟ کیا ان سب کا مسئلہ ذوق کی تسکین ہے؟ کیا ان سب کا مسئلہ کلاسیکی موسیقی ہے؟ کیا ان سب کا مسئلہ اچھی شاعری ہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ دراصل گئے وقتوں کی آوازوں سے یادوں کا ایک محلہ کُھلتا ہے، جہاں ایک کھلونا ٹوٹنے پر اداس ہو جانے والا ایک معصوم سا دل رہتا ہے۔ دل نے جہاں پہلی بار محبت میں مبتلا ہو کر اپنی معصومیت کھوئی ہوتی ہے۔ چھوٹا سا یہ محلہ بڑا سا ایک زمانہ ہوتا ہے اور انسان جانتا ہے کہ یہ زمانہ پھر کبھی نہیں آئے گا۔

بی بی سی نے اپنے پروگرام سیربین کے خاتمے کا اعلان کیا تو لوگ اداس ہو گئے۔ بے شمار لوگوں نے کہا کہ سیربین دوبارہ شروع کیا جائے۔ یہ لوگ سیربین نہیں مانگ رہے تھے، بچپن کا ساون مانگ رہے تھے۔ بی بی سی نے سیربین نئے انداز میں شروع کیا تو انہی لوگوں نے کہا کہ ارے اِس سیربین میں اب وہ بات کہاں؟

حالانکہ یہ سیربین اپنے وقت سے ہم آہنگ ہے، پھر وہ بات کیوں نہیں ہے؟ دراصل یہ لوگ کچھ اور کہنا چاہ رہے ہیں۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ ٹھیک ہے یہ سیربین پہلے والے سے بھی اچھا ہو گا، مگر اس کی آواز ہماری یادوں کو انگلی سے پکڑ کر اُس گلی میں لے کر نہیں جاتی، جہاں بارش کے پانی میں کاغذ کی کشتیاں تیر رہی ہیں۔

رحیم اللہ یوسفزئی کی آواز میرے لیے زندگی کا ایسا ہی ایک حوالہ ہے۔ مجھے تو ریڈیو کے ڈراپ ہوتے ہوئے سگنل کی سرسراہٹ بھی سنائی دیدے تو ماں جی کی جواں سال تصویر ابھر کے سامنے آجاتی ہے۔ وہ تصویر، جو پرانے کیمرے کی کسی ریل میں محفوظ نہیں ہے۔

 رات سوتے وقت کا وہ منظر یاد آجاتا ہے، جب ماں جی کوئٹہ سے نشر ہونے والے ڈرامے کی روداد سناتی تھیں۔ ٹیٹھ قندھاری پشتو میں کرداروں کے ڈائیلاگ دہراتی تھیں اور لوٹ پوٹ ہو جاتی تھیں۔ مدرسے سے لوٹنے والے بڑے بچوں کو آتے ہی دور سے بتاتیں کہ دس اوور پہ دو آوٹ ہیں۔ سعید انور اور اعجاز احمد کھڑے ہیں۔ دعا کرو سعید انور کی ففٹی پوری ہونے میں ایک رن رہ گیا ہے۔

دو برس پہلے دریائے غذر کے کنارے علی احمد جان کے گھر میں کھانا کھا رہے تھے۔ علی جان کے جہاں دیدہ والد جلدی جلدی کمرے میں داخل ہوئے الماری کھولی، کچھ اٹھایا اور نکلنے لگے۔ میں نے آواز دی، کھانے پہ آجائیں حضور! برآمدے کی طرف تیزی سے نکلتے ہوئے ریڈیو دکھا کر بولے، خبروں کا ٹائم ہوگیا ہے۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں میری عمر سات سال ہو گئی اور کراچی میں دو کمرے کے ایک مکان میں پہنچ گیا۔ ماں جی کا ریڈیو بالکل ایسا ہی تھا۔ یہی کتھائی رنگ کا لیدر اس پر بھی چڑھا ہوتا تھا۔ خبروں کے وقت ماں جی اسی طرح دنیا جہاں سے بے فکر ہو کر کھانے کو نظر انداز کر دیتی تھیں۔

 ہم گپ شپ میں مگن ہوئے اور باہر ریڈیو آن ہو گیا۔ پہلے ہی منٹ میں سگنل ڈراپ ہو گئے اور سر سر سی آواز سنائی دینے لگی۔ ہمت جواب دے گئی، مجھے کھانا چھوڑنا ہی پڑا۔ باہر نکلا تو علی جان کے والد بازو سر کے نیچے دے کر تخت پر لیٹے تھے اور ریڈیو کان کے پاس رکھا ہوا تھا۔ یہ ہو بہو ماں جی کی تصویر تھی۔ ہو بہو ماں جی کی تصویر۔کبھی کبھی اسی طرح سر کے نیچے بازو ٹکاتی تھیں اور ریڈیو سنتی تھیں۔ میں دبے پاؤں گیا ایک کرسی پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ علی جان کو لگتا ہے کہ میں ان کے والد کے سرہانے بیٹھا تھا۔ جی ایسا بھی تھا، مگر میں تو بچپن کے محلے میں ماں جی کے سرہانے بیٹھا تھا۔

آج سے تقریبا ایک ماہ قبل رحیم اللہ یوسفزئی کا انتقال ہو گیا۔ میرے لیے یہ ایک اور طرح سے دکھ کی گھڑی تھی۔ میں نے ماں جی کو فون کیا۔ اماں، وہ جو آپ کا ریڈیو تھا، وہ پھر کہاں گیا؟ بولیں، مجھے پتہ ہے تم کیوں پوچھ رہے ہو، سمجھو ریڈیو وفات پا گیا ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments