ہوڑہ ایکسپریس۔ زنانہ ڈبہ میں خنجر بردار


اوپر کمرے میں بیٹھے کھڑکی کھول سامنے سڑک پار بنے سیلابی پانی کا ذخیرہ کرنے والے تالاب میں گرتی بوندوں اور ارد گرد لگے اور دور تک نظر آتے آبی حیات کی نشوونما کے لئے اگائی گئی جھاڑیاں، اکتوبر میں خزاں کی وجہ سے سوکھتے رنگوں کی بہار لئے، ہوا میں اٹھکیلیاں بھرتے تیرتے گرتے، پتوں کا نظارہ کر رہا تھا کہ پرانے گیت سناتے آئی پیڈ سے کانن دیوی کی آواز نے توجہ کھینچ لی۔ ”دنیا یہ دنیا طوفان میل۔ طوفان میل“ ۔

اک آوے اک جاوے۔ طوفان میل۔ ہاں طوفان میل تھی، پنجاب میل تھی، پھر کالکا ایکسپریس تھی اور ہاں ہوڑہ ایکسپریس بھی تو تھی۔ ہوڑہ کا نام تو ہمارے بچپن کی یادوں کا حصہ بن چکا۔ ہوڑہ لاہور نام تھا یا ہوڑہ پنجاب ایکسپریس۔ کلکتہ ( ریلوے سٹیشن ہوڑہ تھا ) اور لاہور کے درمیان چلنے والی اس ہوڑہ ایکسپریس میں چھ سال کی عمر تک پہنچتے جانے کتنی مرتبہ سفر کیا تھا۔ اور ”کتنی یادیں چلی آتی ہیں نحیف و نزار“ والا معاملہ ہے۔ ہوڑہ ایکسپریس۔ لاہور سے کلکتہ۔ کلکتہ سے لاہور۔ تین دن اور دو راتوں کا سفر۔

ابا جان کلکتہ میں کاروبار کرتے تھے۔ والدہ نے پہلے چنیوٹ پھر ہمارے ننھیالی قصبہ پنڈی بھٹیاں اور پھر بچوں کی اچھی تعلیم اور بہت بہتر اخلاقی تربیت کے لئے قادیان مستقل ٹھکانہ کیا۔ لہذا ماں باپ دونوں کا آنا جانا لگا رہتا۔ لاہور سٹیشن پر قلی سے گٹ مٹ ہوتی اور وہ یارڈ میں کھڑی ٹرین میں ہی جا بٹھا آتا۔ لمبے رخ لگے تختے قسم کی آمنے سامنے بچھی نشستوں پہ کمپارٹمنٹ کے آخری کونے میں مناسب جگہ اور حسب ضرورت برتھ پر قبضہ ہوتا۔

نشستوں کے درمیان اسی اونچائی کے مطابق خریدا گیا جستی چادر کا صندوق رکھ اوپر بستر بچھا ان تین دنوں اور دو راتوں پر محیط کوئی اڑھائی ہزار کلو میٹر کے سفر کو آرام دہ بنانے کہ ممکن حد تک سامان کیے جاتے۔ ٹرین سہ پہر کو چلتی اور بڑے سٹیشنوں پہ رکتی گاڑی رکتے ہی پینے کے پانی کی بالٹیاں لئے ہندو پانی مسلم پانی کی آوازیں آتیں اور مسافر کے برتن میں ڈالا جاتا یا پھر بھاگ کے دو تین جگہ پڑے ہندو پانی مسلم پانی کے بورڈ لگے مٹکوں سے پانی نکال بھرا جاتا۔

کھانے چائے کے سٹال پر بھی واضح لکھا ہوتا۔ ہندو بہت کم مسلم سٹال سے لیتے لیکن مسلمان ہندو دکانوں سے خرید لیتے۔ پیپل کے بڑے پتوں سے تنکے سے پروئی کٹوریاں بطور پلیٹ ملتیں۔ میز پہ رکھ دی جاتیں اور وہاں سے اٹھا لی جاتیں کہ مسلم انگلی ہندو انگلی سے چھو نہ جائے۔ (ویسے عام زندگی میں اکثر محلوں گھروں ہمسایوں تعلق داروں میں ایسی پابندیاں سوائے کٹر مذہبی گھرانوں کے کم ہی تھیں اور ایک دوسرے سے دوستیاں آنا جانا کھانا پینا، سوائے گوشت وغیرہ، اور غمی خوشی، تقریبات میں شرکت ہوتی۔)

بنارس میں مقدس دریائے گنگا کے پل سے گزرتی ریل بالکل آہستہ ہو جاتی اور پیسے، ٹکے، آنے، چونیاں دونیاں قسم کے سکوں کے دریا میں دان کے لئے پھینکے جاتے وقت پل سے ٹکراتے چھنچھناہٹ پیدا ہوتی جلترنگ کی آواز ایک عجیب فسوں پیدا کرتی۔ چودھویں کے روشن چاند میں ایک مرتبہ گزرا یہ جادوئی دلکش منظر چندا کی چاندنی سے میرے مستقل عشق کی ابتدا تھا۔

رستے میں مختلف سٹیشنوں کی مختلف دلچسپیوں اور شہرت کی داستانیں مسافر سناتے۔ لکھنؤ سٹیشن پر ہاتھ میں روٹی پکڑے کھڑکی سے باہر جھانکتے اوپر سے لٹک کر نیچے آتے بندر کا یہ روٹی کھینچ لے جانا اس ”باندر“ کی شکل بھی یاد دلاتا ہے۔ یو پی شروع ہوتے ہی اکثر سٹیشنوں پر ہنومان مہاراج کا راج نظر آتا اور اکثر اپنا خراج ہاتھ سے چھین لے جاتے۔ ایک دفعہ لکھنؤ جنکشن سے کانپور کے لئے گاڑی بدلتے پلیٹ فارم تبدیل کرنے کے لئے پہلی مرتبہ انڈر پاس سے گزرنا عرصہ تک ایک منفرد عجوبہ لگتا رہا۔

سمبڑیال کے کھوئے خوشاب اور ڈیرہ کے ڈھوڈا اور سانگلہ کے سموسوں کی طرح بریلی آتے ہی چھوٹی سی کاغذ سے منہ بند کی گئی مٹی کی گگریا (یا ہانڈی ) میں ملائی ربڑی لازماً خریدی جاتی۔ ہردوئی کے لڈو اور آسنسول کی برفی، سفر کے آخری گھنٹوں کی سوغات تھی۔

ایک واقعہ کوئی پچاسی سال قبل کا بڑی ہمشیرہ کا سنایا ہوا۔

ہوڑہ ایکسپریس فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔ دوسری رات کا پچھلا پہر زنانہ ڈبہ میں حسب عادت لاہور سے ڈبے کے آخری کونے کی سیٹیں لے درمیان میں صندوق رکھ اوپر بستر بچھا سوئے ہوئے بچوں کے ساتھ میری ماں بھی نیند میں تھی۔ ایک سٹیشن سے گاڑی کی روانگی کی سیٹی کے بعد تیز ہوتی ٹرین میں ایک ہیولا سا کمپارٹمنٹ کا دروازہ کھول اندر آ ساتھ ہی بنے بیت الخلاء میں جاتا محسوس ہوا۔ مگر وہم سمجھ آنکھیں موندی ہی تھیں کہ کچھ آوازیں سنائی دیں۔

دیکھا تو ایک خاتون بیت الخلاء جانے کے لئے کھڑی دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے۔ اور کہہ رہی ہے کہ اندر شاید ہے بھی نہیں کہ دیر سے کھڑی ہوں اور دروازہ بھی لاک ہے اب ایک دو اور مدد کو آ گئیں۔ والدہ بتاتی ہیں۔ اچانک ان کے ذہن میں وہ ہیولا اندر آتا ابھرا۔ اور ذہن نے جھٹکا کھایا۔ فوراً گئیں۔ خواتین کو کہا کہ اب بجائے اندر کھولنے کی کوشش کے اسے کنڈے سے پکڑ اس طرح اپنی طرف کھینچیں کہ اندر سے کھل نہ سکے۔ خود ڈبہ کے داخلی دروازہ کی کھڑکی پوری کھول باہر ممکن حد تک جھانکتے ( کھڑکیوں کے درمیان فاصلہ بہت کم ہوتا تھا ) بیت الخلاء کی درزوں والی جالی سے اندر جھانکا تو کانپ کر رہ گئیں۔

ان کا وہم وہم نہیں تھا۔ بیت الخلاء کی دیوار کے ساتھ ایک ہٹا کٹا شخص صرف لنگوٹ پہنے ہاتھ میں بڑا سا خنجر پکڑے تیار کھڑا تھا۔ فی الفور سر اندر کرتے آہستہ آواز میں دو تین عورتوں کو دروازے کے ہینڈل میں دوپٹہ ڈال اپنی طرف کھینچے رکھنے کو کہا اور خود بھاگ خطرے کی زنجیر کھینچنا شروع کی ( خاصا زور لگتا تھا تھا ) گاڑی آہستہ ہونا شروع ہوئی ساتھ ہی اندر سے خنجر بردار نے دروازہ کھولنا چاہا مگر باہر سے اپنی طرف کھینچتی خواتین کی وجہ سے ناکام رہا۔

باہر متعلقہ حکام اور ریلوے پولیس آ چکی تھی۔ اور تھوڑی دیر بعد پولیس دروازہ کھلوا اس شخص کو گرفتار کر لے جا چکی تھی۔ اگلے سٹیشن پر پولیس افسر اور سٹیشن افسران والدہ کا شکریہ اور حاضر دماغی اور بہادری کی تعریف کرتے بتا رہے تھے۔ کہ پولیس کوئی سال بھر سے اس مجرم کو قابو کرنے کی کوشش میں لگی مگر ناکام تھی۔ ان دو سٹیشنوں کے درمیان فاصلہ اور وقت کم تھا۔ یہ شخص گاڑی چلتے ہی زنانہ ڈبہ میں گھس بیت الخلاء میں داخل ہو جاتا۔ سوئی ہوئی خواتین کو پتہ بھی نہ چلتا اور وہ اگلا سٹیشن آنے سے کچھ دیر پہلے باہر نکل خنجر سے ڈرا دھمکا زیور پیسہ لوٹ گاڑی رکنے سے پہلے ہی چلتی ٹرین سے پچھلی طرف اتر جاتا۔

اتنا وقت گزر گیا انٹرنیٹ پر ان ٹرینوں کی تفصیل پڑھ حیرت ہوتی ہے۔ زندگی رہی تو لکھوں گا۔ سب سے اہم پڑاؤ کلکتہ بمبئی اور پشاور تھے کہ پنجاب میل اور طوفان میل بمبئی اور پشاور کے درمیان چلتی اپنے نام سے گانے اور فلمیں مس طوفان میل اور پنجاب میل بنوا ان کے پوسٹر اور گانے آج بھی سنواتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments