ماضی کے تجربات کا سبق کیا ہے؟


گزشتہ دنوں میں نے ان ہی سطور میں اس بات کا جائزہ لیا تھا کہ امریکہ کا دنیا میں بطور سپر پاور ابھار صرف فوجی طاقت وجہ سے نہیں تھا۔ اس کے ہتھیاروں کے ذخیرے میں سب سے زیادہ طاقت ور ہتھیار معاشی اور ثقافتی تھے۔ امریکہ نے ان ہتھیاروں کا استعمال بڑی چابک دستی سے کیا۔ اس نے دنیا میں سوشلزم کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے ایک وسیع حکمت عملی اختیار کی۔ مالی وسائل خرچ کیے۔ فوجی اتحاد تشکیل دیے، اور فوجی اور ثقافتی محاذ کھولے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اپنی مد مقابل سپر پاور سوویت یونین کا مقابلہ کرنے، اور مغربی یورپ میں سوشلزم کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو روکنے کے لیے وسیع پیمانے پر مالی وسائل کا استعمال کیا تھا۔ اس طرح سرمایہ داری اور سوشلزم کا اصل مقابلہ یورپ میں تھا۔ لیکن یہ لڑائی زیادہ تر تیسری دنیا کے غریب ممالک میں لڑی گئی، جہاں نہ سرمایہ داری تھی، اور نہ سوشلزم کا بھوت سروں پر منڈلا رہا تھا۔ یہ انتہائی پسماندہ ممالک تھے، جن پر جاگیرداری اور قبائلی روایات کا غلبہ تھا۔

ویت نام اور افغانستان سمیت کئی غریب ممالک اس کی کلاسیکل مثال ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں عرض کیا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے خوفناک اثرات کے زیر اثر مغربی یورپ کے کئی ممالک معاشی تباہی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار تھے، جس کو مغربی دانشور سوشلزم کے فروغ کے لیے ایک زرخیز زمین قرار دیتے تھے۔ چنانچہ امریکہ نے سوشلزم کے اس ”مبینہ خطرے“ سے نمٹنے کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ انہوں نے ان ممالک میں معاشی اور سیاسی استحکام لانے کے لیے اربوں ڈالرز ان ممالک کی مدد کے لیے مختص کیے۔

مغربی یورپ کے 17 ممالک پر اربوں ڈالر خرچ کیے، اس فراغ دلانہ سخاوت کے نتیجے میں ان ممالک میں معاشی خوشحالی اور ترقی کا ابھار پیدا ہے۔ سیاسی بے چینی اور افراتفری کا ماحول کم ہوا، اور ایک طرح کا سیاسی استحکام پیدا ہوا۔ اس کے ساتھ ہی یہ ممالک معاشی اعتبار سے امریکہ پر انحصار کا راستہ اختیار کر کہ امریکہ کی تجارتی منڈی بن گئے، جہاں پر وسیع پیمانے پر امریکی مصنوعات کی کھپت شروع ہو گئی۔ یہ تعلق آگے چل کر انیس سو انچاس میں سویت یونین کے خلاف فوجی اتحاد کی شکل اختیار کر گیا، اور نارتھ ایٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن یعنی نیٹو کا قیام عمل میں آیا۔

یہ فوجی محاذ آگے چل کر سوشلزم کے خلاف پہلا عالمی مورچہ بن گیا، جو ایک فوجی اتحاد کے طور پر یہ آج بھی قائم ہے۔ سویت پیش قدمی کے خلاف امریکہ کا یہ تجربہ بڑی حد تک کامیاب رہا۔ چنانچہ انہوں نے سوشلزم کا راستہ روکنے کے لیے کہیں دوسرے فوجی اتحاد اور محاذ تشکیل دیے۔ اس طرح کے کئی ایک اتحادوں اور محاذوں کی فرنٹ لائن پر قیادت کی، اور کئی ایک کو پس منظر میں رہ کر منظم کیا، اور ان کو معاشی و تیکنیکی مدد فراہم کی۔

اس میں ایک بڑا محاذ سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن تھا۔ یہ بنیادی طور پر سوشلزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک اور عالمی کوشش تھی، جس کا مقصد سوویت یونین کے خلاف محاذ بنانا تھا۔ اس محاذ میں کھلی شرکت کے بجائے امریکہ پس منظر میں رہ کر تمام وسائل مہیا کرتا رہا۔ ابھی حال ہی میں امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے سینٹو سمیت اس طرح کے دیگر معاہدوں پر اپنے آرکائیو کو عوام کے لیے کھولا ہے۔ ان آرکائیو کے اندر یہ ساری تفصیل موجود ہے کہ محاذ کا واحد مقصد سویت پیش قدمی اور سوشلزم کا راستہ روکنا تھا۔

سینٹو بننے سے پہلے اس اتحاد کا نام بغداد پیکٹ تھا۔ یہ بغداد پیکٹ 1955 میں ہوا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد سویت یونین کے خلاف فوجی اور معاشی محاذ بنانا تھا۔ اس محاذ کی تشکیل میں بنیادی کردار برطانیہ کا تھا، اور اس میں جن دیگر ممالک کو شامل کیا گیا ان میں ترکی پاکستان اور ایران شامل تھے۔ اس محاذ کے ذریعے بنیادی طور پر اسلامی ممالک کو سویت یونین کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی گئی۔

سن انیس سو انسٹھ میں جب بغداد نے اس اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کیا، تو اس اتحاد کا نام بدل کر سینٹو یعنی سنٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن رکھا گیا۔ جیسا کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے آرکائیو میں واضح کیا گیا کہ بغداد پیکٹ کا بنیادی مقصد مشرق وسطی میں سوشلزم کی پیش قدمی کو روکنا تھا۔ اس معاہدے کے پس منظر کے بارے میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جو وضاحت کی ہے وہ یہ ہے کہ 1950 کے شروع میں امریکہ نے مشرق وسطیٰ کو سوشلزم سے بچانے کے لئے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔

اس وقت خطے کے حالات کی وجہ سے یہ ممکن نہیں تھا کہ اس علاقے میں کوئی ایک مشترکہ اتحاد قائم ہو سکے۔ اس خطے میں اس وقت ایک طرف تو عرب اسرائیل تصادم جاری تھا، اور دوسری طرف مصر کی قیادت میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد جاری تھی۔ ان حالات میں یہ مشکل تھا کہ مشرق وسطی کے آزاد ملکوں اور خطے کے نو آبادیاتی تسلط کے زیر اثر ممالک کو ایک جگہ پر لایا جائے۔ اس لیے امریکہ نے ان ممالک کی طرف توجہ مرکوز کی، جن کی سرحدیں سوویت یونین کے قریب تھی۔

سوویت یونین کے خلاف مشرق وسطیٰ کے اس معاہدے کا مرکزی خیال یہ تھا کہ ایک طرف ترکی جیسے نیٹو کے ممبر ممالک دوسری طرف پاکستان جیسے ممالک کے درمیان اتحاد پیدا کیا جائے۔ اس طرح امریکی ایما پر اور اس کی حوصلہ افزائی سے مختلف قسم کے ممالک کے درمیان باہمی معاہدے شروع ہوئے، جن میں ترکی اور پاکستان کے درمیان استحکام اور سکیورٹی کا شامل معاہدہ تھا۔ اسی طرح 1955 میں ترکی اور عراق کے درمیان باہمی معاہدہ ہوا۔ امریکہ نے اس پیکٹ کے اندر موجود ہر ایک ملک کے ساتھ الگ الگ معاہدوں پر دستخط کیے۔

لیکن وہ اتحاد میں باضابطہ شمولیت کے بجائے کے ایک مبصر کے طور پر شرکت کرتا رہا۔ لیکن آگے چل کر مشرق وسطیٰ میں جو سیاسی لینڈ سکیپ تبدیل ہوئی اس نے اس پیکٹ کو بری طرح متاثر کیا۔ انیس سو چھپن میں جمال عبدالناصر نے نہر سویز کا کنٹرول حاصل کر لیا، جس کے خلاف اسرائیل نے بہت سخت ردعمل دیا، اور اس کے نتیجے میں برطانیہ اور فرانس کی فوجوں نے مداخلت کی۔ اس فوجی کارروائی کے نتیجے میں اس خطے میں برطانیہ کا اثر و رسوخ کمزور ہو گیا۔ امریکہ نے لبنان پر حملہ کر دیا، جس کی وجہ سے بغداد پیکٹ اختلافات کا شکار ہونا شروع ہو گیا۔

اس سے پہلے آٹھ ستمبر انیس سو چوپن میں پاکستان سیٹو کا ممبر بن گیا۔ فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں ہونے والے اس اجلاس میں امریکا، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، تھائی لینڈ اور فلپائن نے شمولیت کا اعلان کیا۔ اس طرح پاکستان ایشیا کا واحد ملک بن گیا تھا، جو بیک وقت بغداد پیکٹ اور سینٹو کا ممبر تھا۔ یہ اپنے وقت کے دو بہت بڑے فوجی محاذ تھے، جن کی تشکیل کا مقصد سویت یونین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور تیزی سے پھیلتے ہوئے نظریات کا مقابلہ کرنا تھا۔

ان معاہدوں کی وجہ سے پاکستان کے بارے میں سویت یونین کی روایتی پالیسی میں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔ اس تبدیلی کا اظہار آگے چل کر مسئلہ کشمیر پر سیکورٹی کونسل کی قراردادوں پر سویت ویٹو کی شکل میں ہوا۔ ان معاہدوں میں پاکستان کی شمولیت پر بھارت نے بھی بہت سخت رد عمل دیا۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو نے کہا کہ ان معاہدوں میں شمولیت کی وجہ سے پاکستان عالمی سردجنگ کو برصغیر میں گھسیٹ لایا ہے۔ ان معاہدوں کی وجہ سے مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوئے اس کا تفصیلی جائزہ کسی آئندہ کالم میں لیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments