روک سکو تو روک لو


گوشت دس روپے کلو، ٹماٹر پانچ روپے کلو، چینی مفت ہے جبکہ آٹا کی بوری گھر پہنچ جاتی ہے، ہر آدمی کے پاس نوکری ہے جب کہ زیادہ تنخواہ پر کام کی چار چار آفر ہر کوئی جیب میں لئے گھوم رہا ہے۔ تیل اتنا سستا ہے کہ ہیلی کاپٹر پچاس روپے فی لیٹر میں پڑتا ہے۔ لوگ ٹریفک سے بچنے کے لئے چندہ کر کے ہیلی کاپٹر کر لیتے ہیں۔ بینکوں نے زیادہ پیسے جمع کرانے پر جرمانے شروع کر دئے ہیں۔ جو زیادہ پیسے جمع کرائے گا اس کو اتنا ہی جرمانہ پڑے گا۔ مگر لوگ کہاں باز آتے ہیں

معاشی ترقی قابو سے باہر ہے حکومت کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اتنے پیسوں کا کیا کریں اس لئے امریکہ، برطانیہ اور روس جیسے غریب ممالک کو جو امداد دی جا رہی تھی اس کو دوگنا کرنے پر غور ہو رہا ہے۔ امداد لینے والے ممالک میں جرمنی کے ایک پڑوسی ملک کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ ایک روپے کے تین سو ڈالر آتے ہیں پاکستانیوں نے تو ڈالر میں پیسے لینے ہی بند کر دئے ہیں کہتے ہیں روپوں میں ادائیگی کی جائے امریکہ والے کہتے ہیں ہم غریب ملک روپے کہاں سے لائیں۔ اس ناہنجار ملک پر معاشی پابندیوں کی تجویز زیر غور ہے۔ اسی لئے ہمارے وزیر اعظم نے ان کے صدر کو ابھی تک فون نہیں کیا

امن و امان کی صورتحال یہ ہے کہ پولیس والوں نے بے کاری سے تنگ آ کر استعفی دینے شروع کر دئے حکومت نے پڑے مشکل سے تنخواہ چار گنا کر کے روکا ہے۔ قانون کے خوف کا یہ عالم ہے کہ ایک صاحب پارک میں اپنے جوتوں کا تھیلا بھول گئے واپس آئے تو وہاں جوتوں کے دو تھیلے پڑے تھے۔ خواتین کے احترام کے معاملہ پر دنیا بھر کی خواتین ہماری مثال دیتی ہے۔

سائنسی ترقی (روحانیت) کی وجہ سے ملک اتنا آگے چلا گیا ہے کہ سائنس پیچھے رہ گئی، روحانیت یونیورسٹی کے ایک سائنسدان نے ایسا تعویز لکھا کہ ایک دشمن ملک کے لیڈر کی پالتو بھینس ہوا میں اڑنے لگی، بڑی مشکل سے معافی تلافی ہوئی۔ تعلیمی ترقی کا یہ حال ہے کہ دنیا کی پہلی پچاس یونیورسٹیوں میں صرف ہماری جامعات کا نام آتا ہے لیکن پاکستان میں پڑھنا بے حد دشوار ہے کیوں کہ روپے کی قیمت دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور مغربی ممالک کے ارب پتی لوگوں کے بچے ہی ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

عالمی دنیا میں ہماری لیڈرشپ کی دھاک بیٹھی ہوئی آدھی سے زیادہ دنیا کو تو ویسے بھی ہم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، جغرافیہ، معیشت، روحانیت اور تاریخ میں ہمارے معلومات کی وجہ سے دنیا ہم سے بے حد مرعوب ہے ہر جھگڑے میں ہماری رائے حتمی تصور کی جاتی ہے اور جو نہیں مانتا اس کی قیادت کو یوں تبدیل کیا جاتا ہے جیسے کہ فیلڈ بدلی جاتی ہے۔

پاکستانی عوام کے سمجھ ہی نہیں آتا ہے کہ وہ اتنا پیسے کیسے خرچ کریں آج کل رشتہ داروں کے یہاں رافیل طیاروں میں جانے کا رواج زور پکڑ رہا ہے جو بھارت سے سستے داموں کرائے پر مل جاتے ہیں۔ دیہی اور شہری علاقوں میں ہاتھی پالنے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ ہر جگہ فقیروں کے جھنڈ نظر آتے ہیں جو مولا کے نام پر لے جا بابا کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں، گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہیں گاڑی میں رقم چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔

پاکستان کے عوام کو تو گھر تک بنانے کے لئے مناسب جگہ ہی نہیں مل رہی اس لئے اگلے مرحلے میں بھارت پر قبضہ کرنے کی تجویز ہے۔ کچھ لوگ تو گھوڑوں پر تیار ہیں کہ بس جاکر لال ٹوپی پہن کر لال قلعے پر ہرا جھنڈا لہرا دیں مگر ابھی ان کو این او سی نہیں ملا۔ معاملہ یہ ہے کہ وہاں بھی لوگ زیادہ ہیں تو کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک پربھی غور ہو رہا ہے۔ اس سے ایک تو ان کی جاہل عوام کو روحانیت سے بھرپور نظام میں رہنے کا موقع ملے گا بلکہ ان کا نظام زندگی بھی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن نے سڈنی اور میلبورن میں سوسائٹی بنانے کا اعلان بھی کر دیا ہے جب کہ پلاٹ کی فائلوں کی خرید و فروخت پہلے ہی شروع ہو گئی ہے۔ ناگوری ملک شاپ نے سڈنی میں اپنی دکان کا افتتاح کر دیا ہے جس پر بڑا بڑا لکھا ہے کہ خالص دودھ اور دہی کا واحد مرکز، ملاوٹ ثابت کرنے والے کو ایک ہزار روپے انعام دیا جائے گا، نقد بڑے شوق سے ادھار اگلے چوک سے، ہماری کوئی اور برانچ نہیں وغیرہ وغیرہ۔

میں خود آج فیس بک خریدنے جا رہا تھا پتہ چلا غفار بھائی نے پہلے ہی سودا کر لیا۔ دل کھٹا ہو گیا سوچ رہا ہوں گوگل اور ایمزون بھی بیچ دوں فیس بک کے بغیر مزا نہیں آئے گا۔ ویسے بھی اب کیوں نہ اب کسی بڑے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کی جائے۔ آپ میں سے کوئی مجھے جاوید نہاری والوں سے ملوا سکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments