چودھری شجاعت: ایک ناکام ترین مذاکرات کار اور مصالحت کار



اللہ جانے گجرات کے چودھریوں کو کس نے جہاندیدہ اور سیانے سیاستدانوں میں شمار کرنے کی راہ اختیار کی تھی کہ ہم نے تو جب بھی انہیں کسی معاملے میں ہاتھ ڈالتے دیکھا تو اس کا نتیجہ ہمیشہ برا ہی نکلا اور ملک و قوم کی یا تو خوب جگ ہنسائی ہوئی یا پھر کوئی نہ کوئی بڑا سانحہ رونما ہوا اور اس کے اثرات بھی ایسے خطرناک ہوئے کہ دیکھنے اور سننے والے لرز کر رہ گئے۔ اگر کسی کو یاد ہو تو ابھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی پول کھول چکے کہ وہ سابق آمر کی بات ماننے کو بالکل بھی تیار نہ تھے لیکن یہ ان کے دوست اور دیرینہ ملنے والے گجرات کے تجربہ کار سیاستدان چودھری شجاعت تھے جن کی منت سماجت کہ ملک و قوم کو ایک بار پھر ان کی قربانی کی ضرورت ہے، کی وجہ سے ڈاکٹر قدیر نے سارا الزام اپنے سر لے لیا تھا اور اس دوران چودھری شجاعت نے کچھ یقین دہانیاں بھی کروائی تھیں کہ اس اعترافی بیان کے بعد ان کے ساتھ کوئی غیر مناسب سلوک نہ ہو گا اور نہ ہی کسی قسم کی پابندیاں وغیرہ لگیں گی لیکن جیسے سرکاری ٹی وی پر ڈاکٹر قدیر نے اعترافی بیان دیا تو انہیں فی الفور گھر میں ہی یہ کہہ کر نظر بند کر دیا گیا کہ ان کی نہ صرف جان کو خطرہ ہے بلکہ غیرملکی ایجنسیاں انہیں اغوا کر کے لے جا سکتی ہیں اور پاکستان کے خلاف زبردستی بیان دلوا کر ملک کے لیے مسائل کھڑے کر سکتی ہیں۔

بلاشبہ اس معاملے میں معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے بھی اہم ترین کردار ادا کیا تھا اور ڈاکٹر قدیر کو قائل کرنے کے لیے ان کی دوستی سے بھی فائدہ اٹھایا گیا تھا اور انہوں نے بھی چودھری شجاعت کی طرح محسن پاکستان کو سب کچھ اپنے سر لینے کو کہا اور بعد میں جب وعدوں کے بالکل برعکس ہوا اور محسن پاکستان چیختے چلاتے لگے تو نہ چودھری شجاعت اور نہ ہی ایس ایم ظفر ان کے پاس پھٹکے تھے، دونوں ایک آمر کے ساتھ آخر تک رہے لیکن اپنے دوست کو پھنسا کر بھول گئے،

دوسری کہانی چودھری شجاعت کی لال مسجد کے حوالے سے سامنے آئی تھی، اس وقت بھی موصوف مصالحت کا نعرہ لگا کر میدان میں اترے لیکن آمر نے آپریشن شروع کروا کر ناقابل تلافی نقصان کر کے چھوڑا اور چوہدریز گلے کرتے نظر آئے کہ اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز ان سے ہاتھ کر گئے اور بجائے مذاکرات کے بعد معاملات کو حل کرنے کا کوئی فیصلہ کرنے کے آبپارہ قلفی کھانے چل پڑے تھے،

تیسری کہانی چودھری شجاعت کی چیف جسٹس افتخار چودھری کے ساتھ آمر کے اختلافات کے دوران بطور مصالحت کار ناکامی کی داستان لیے سامنے آئی کہ جیسے ہی چودھری شجاعت چیف جسٹس افتخار چودھری سے ملاقات کے بعد باہر نکلے تو ایجنسیوں کے لوگوں نے چیف جسٹس کی رہائش گاہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور پھر آمر نے نہ صرف ظلم کی انتہا کی بلکہ میڈیا کا گلہ بھی گھونٹ دیا کہ اس کے سامنے کوئی احتجاجی کلمہ تک نہ ادا کرسکے۔

کہا جاتا ہے کہ اکبر بگٹی بھی چودھری شجاعت سے چودھری ظہور الہی سے دیرینہ تعلقات کی وجہ سے بطور مصالحت کار رابطہ کاری کے لیے تیار تھے اور انہوں نے اس ضمن میں مشاہد حسین سید، ارشاد احمد حقانی اور ایاز امیر کے ساتھ ساتھ ان کا بھی نام لیا تھا اور پھر جو اکبر بگٹی کے ساتھ ہوا وہ بھی سب جانتے ہیں۔ ( یہاں بتاتا چلوں کہ اکبر بگٹی کے گرم گرما ایشو کے دوران خاکسار جناب ارشاد احمد حقانی کے ساتھ مکمل رابطے میں تھا اور ان سے خاکسار نے گزارش بھی کی تھی کہ وہ اکبر بگٹی کی بات مان لیں اور تصویر کا دوسرا رخ ڈیرہ بگٹی جا کر دیکھیں اور عوام کو بھی دکھائیں لیکن چونکہ جناب ارشاد احمد حقانی ان دنوں گھر میں گرنے کی وجہ سے کولہے پر چوٹ کی وجہ سے سخت تکلیف میں تھے اور بیڈ ریسٹ پر تھے اس لیے وہ نقل و حرکت سے قاصر تھے اور انہوں نے بگٹی مرحوم سے اس وقت معذرت کرلی تھی)

یاد رہے کہ جب بلیک واٹر سے وابستہ ریمنڈ ڈیوس نے پاکستانی نوجوانوں کو اپنی وحشت کی بھینٹ چڑھایا اور وہ پکڑا گیا تو اسے نکالنے کے لیے ہزار جتن کیے گئے لیکن جب امریکیوں اور ان کے مقامی کاسہ لیسوں کو کوئی راہ سجھائی نہ دی تو یہ چودھری شجاعت حسین ہی تھے جنہوں نے جان کیری کو میڈیا کے ذریعے ”قصاص دیت“ کے اسلامی اور شرعی قانون کی صلاح دی تھی (میڈیا کے ذریعے دی جانے والے تجویز امریکیوں کو براہ راست بھی مل گئی ہوگی) اور پھر پاکستانیوں کا قاتل ریمنڈ ڈیوس اسی قانونی راستے کو اختیار کر کے پتلی گلی پکڑ کر پاکستان سے بڑے آرام سے نکل گیا تھا۔

اب جب خاکسار نواز شریف کو زندہ سلامت سعودیہ اور پھر برطانیہ میں چلتے پھرتے اور کافی پیتے دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ اگر آمر مشرف اور نواز شریف کے درمیان مذاکرات کاری یا مصالحت کاری گجرات کے بڑے چودھری صاحب کر رہے ہوتے تو؟
خیر مٹی پاؤ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments