منفی رجحانات پر مبنی سوچ و فکر


یہ ایک بنیادی نوعیت کا سوال ہے کہ ہم بطور معاشرہ مجموعی طور پر منفی بنیادوں پر کیوں سوچتے ہیں؟ کیونکہ اگر ہم اپنی علمی، فکری مباحث ہی کو دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ لوگ مختلف امور پر مثبت پہلووں کے مقابلے میں منفی پہلووں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ بالخصوص معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے ہماری گفتگو میں مایوسی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ کسی بھی امور پر تنقید کرنا ہر فرد کا بنیادی حق ہے او ریہ حق ہی جمہوریت کی مضبوطی یا معاشرے میں رواداری کے پہلو کو مضبوط کرنے کا سبب بنتا ہے۔

مگر ہم یہ تواتر کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ ہم انفرادی سطح پر تنقید اور تضحیک کے درمیان بنیادی نوعیت کے فرق کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری گفتگو میں تنقید سے زیادہ تضحیک کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور ہم عملی طور پر کوشش کرتے ہیں کہ مخالف نقطہ نظر پر مثبت انداز میں تنقید کرنے کی بجائے ان کی تضحیک کرنے کو زیادہ پسند کرتے ہیں یا اس میں اپنے لیے سکون یا خوشی کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ مسئلہ کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ اس میں مجموعی طور پر تمام فریق کسی نہ کسی شکل میں شامل ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم عملی طور پر بطور قوم مکالمہ کے کلچر سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم مکالمہ کے مقابلے میں اپنی سوچ و فکر کو ہی درست سمجھ کر دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں او ریہ ہی ہمارا علمی و فکری بیانیہ بھی بن گیا ہے۔ اختلاف کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے اور ہمارے جیسے معاشرے کو کسی ایک مخصوص نقطہ نظر سے جبر کی بنیاد پر جوڑ کر نہیں رکھا جاسکتا۔

لیکن یہاں اختلافات کو بنیاد بنا کر خود کو بھی الجھانا اور سیاسی، سماجی، مذہبی، لسانی، علاقائی بنیادوں پر تقسیم کو پیدا کرنا ہمارے معمول کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ مخالف نقطہ نظر کے لوگوں کے بارے میں تعصبات، نفرت سمیت مختلف نوعیت کے سیاسی اور مذہبی فتوے بازی کے کھیل نے معاشرے کے حقیقی حسن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

کسی بھی پہلو یا چیز کے بارے میں جائزہ لیتے ہوئے ہم ایک ہی وقت میں مثبت اور منفی پہلووں کو سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم رائے دیتے ہوئے یا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کیونکر محض منفی آنکھ سے چیزوں کو دیکھنے کے عادی بن گئے ہیں۔ ہمارے یہاں منفی خبر بڑی اور مثبت خبر چھوٹی خبر بن کر رہ گئی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب ہم ریٹنگ کی دنیا کا حصہ بن گئے ہیں تو منفی خبریں ہی پاپولر سیاست کا حصہ بن کر مثبت پہلووں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔

ہم اگر اپنی علمی و فکری مجالس کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے، برباد ہو گیا ہے، ہم بہت ہی کمزور ہو گئے ہیں، معاشرہ مکمل طور پر بگاڑ کا شکار ہو گیا ہے، یہاں کسی کو کوئی بنیادی حق حاصل نہیں، ہم کرپٹ لوگ ہیں، انصاف کا نظام عملاً مفلوج ہو گیا ہے، ریاستی و حکومتی ادارے تباہ ہو گئے ہیں، ترقی ہم سے دور ہے یا پاکستان کا کچھ نہیں ہو سکتا ۔ یہ مباحث سن کر ایسے لگتا ہے کہ ہم بطور معاشرہ مفلوج ہو گئے ہیں یا ہم ناکام ریاست میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

بعض اوقات تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں باہر سے کسی دشمن کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں داخلی سطح پر ایسے لوگ موجود ہیں جو معاشرے کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں جو عالمی دنیا میں خود ہماری بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ بات کافی حد تک بجا ہے کہ یہاں بہت سے سنگین نوعیت کے مسائل ہیں مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہاں کچھ ایسا نہیں ہو رہا جو ہمارے معاشرے کی مثبت عکاسی کرسکے۔ ماشا االلہ ایسے ایسے لوگ اس طرح کے مباحث کرتے ہیں جو بہت زیادہ پڑھے لکھے، وسائل رکھنے والے اور خوشحالی طبقہ کے طور پر ہوتے ہیں مگر ان کی گفتگو سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم سب برباد ہو گئے ہیں۔

بعض اوقات ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ماتم کرنا ہمارا قومی فیشن بن گیا ہے او رجب ان کے سامنے کوئی بھی مختلف قسم کے مثبت پہلووں کو اجاگر کرے تو پھر ان کو طاقت کے مراکز کا ایجنٹ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مسائل دنیا میں موجود ہیں اور وہاں کا اہل دانش یا ریاستی و حکومتی نظام ان مسائل کا حل تلاش کر کے آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے بہت سے لوگوں کو صرف ساری خرابی پاکستان میں ہی نظر آتی ہے۔ بلکہ دیگر ممالک کا سیاسی گند او رجو کچھ باہر کی قوتیں ہمیں کمزور کرنا چاہتی ہیں اس میں بھی ہمیں قصور ان سے زیادہ اپنا لگتا ہے۔

میڈیا کی ریٹنگ نے بھی لوگوں کو منفی باتوں میں بہت زیادہ الجھا دیا ہے اور بدقسمتی سے مثبت بات کے مقابلے میں منفی بات میڈیا میں زیادہ اہمیت رکھتی ہے تاکہ لوگوں کو متوجہ کر کے ریٹنگ کے عمل کو زیادہ طاقت دی جائے۔ اسی طرح میڈیا میں مجموعی طور پر تنقید تو بہت ہوتی ہے مگر ان مسائل کے حل کی طرف سنجیدہ کوششوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا میں جو مختلف امور پر منفی کھیل نمایاں ہے اس نے بھی لوگوں کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔

ایسے لگتا ہے کہ ہم نے کسی بھی شعبہ میں ترقی یا پیش رفت نہیں کی سوائے بربادی کے۔ یہ ہی مزاج ہمیں سیاسی محاذ پر بھی نظر آتا ہے۔ جہاں محض الزام تراشی، کردار کشی، جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا اور مختلف نوعیت کے سرٹیفیکیٹ کو جاری کر کے مختلف کرداروں کو منفی انداز میں پیش کرنا ہی ہماری سیاست کا وتیرہ بن گیا ہے۔

یہ بات غور طلب ہے کہ ہم اپنا اور ملک کا سافٹ امیج کیوں نہیں پیش کر رہے اور کیا واقعی ایسا کوئی امیج نہیں جو اس ملک کی اور ملک میں موجود لوگوں کی مثبت عکاسی کرسکے؟ اصل میں مسئلہ ہماری اجتماعی سوچ اور فکر کا ہے اور ہم مثبت باتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ منفی انداز میں سوچنے کے عادی بنتے جا رہے ہیں۔ اس میں قصور کسی ایک فر دیا ادارے کا نہیں بلکہ سارے ہی معاشرتی، سیاسی، سماجی اور ریاستی فریق ہی ذمہ دار ہیں جو معاشرے کی تشکیل نو اور رائے عامہ کو مثبت انداز میں تشکیل دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہمارا رسمی یا غیر رسمی تعلیمی نظام ذہن سازی کو بنانے میں ناکام ہوا ہے۔ ہم شواہد اور حقائق کے مقابلے میں زیادہ جذباتیت کے انداز میں سوچتے ہیں او ریہ عمل بلاوجہ کی معاشرے میں ردعمل کی سیاست کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔

فرد یا معاشرے کے کسی فریق یا ادارہ کے اندر اگر مجموعی طور پر مایوسی اور ناکامی کی کیفیت ہوتی ہے تو وہ اس کو خود تک محدود نہیں کرتا بلکہ وہ اس مایوسی کو ایک بڑی مایوسی بنا کر دوسروں میں بھی منتقل کرتا ہے۔ اس لیے اگر مایوسی کے کاروبار کو ہم نے جان بوجھ کر یا لاشعوری طور پر پھیلانا ہے تو اس سے معاشرے کی مثبت تشکیل نو ممکن نہیں ہوگی۔ یہ ٹھیک ہے کہ مثبت سوچ کوئی ٹیکہ نہیں کہ وہ اگر کسی کو لگادیا جائے تو پھر اس کے بعد وہ بس مثبت ہی سوچے گا۔

یہ ایک عمل ہے جس نے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور اس میں آگے بڑھنے کی جستجو، لگن، شوق اور محنت ہی ہمیں مایوسی سے نکال کر مستقبل اور امید یا ترقی کے عمل میں لے کر جاتی ہے۔ اس لیے خدارا بطور معاشرہ کے فرد کے ہمیں محض مایوسی کو بنیاد بنا کر اپنا بیانیہ پیش کرنے کی بجائے تعمیری انداز میں بھی اپنی سوچ اور فکر کو آگے بڑھانا چاہیے۔ ہمارا انداز یا عمل معاشرے کی تعمیر نو پر ہی ہونا چاہیے نہ کہ ہم انتشار کی سیاست کا حصہ بنیں۔

اس میں ایک بڑا کردار رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کا ہے کہ وہ لوگوں کی ذہن سازی کریں جن میں والدین، استاد، عالم دین، ، صحافی، سیاست دان، علمی و فکری ماہرین شامل ہیں۔ ہمیں فرسودہ طور طریقوں یا روایتی طریقوں کے مقابلے میں جدید انداز میں لوگوں میں سیاسی، سماجی شعور دینا ہو گا او ریہ احساس پیدا کرنا ہو گا کہ ہم نے ہی اس ملک میں رہنا ہے اور اس سے جڑے مسائل کا حل بھی ہماری اپنی ہی جدوجہد سے جڑا عمل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments