جنتر منتر کی ایڈہاک حکومت!


کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک کی خفیہ ایجینسی ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ (RAW) کا آج کل سربراہ کون ہے؟ کب تبدیل ہو گا؟ کیسے تبدیل ہو گا؟ اس کی تعیناتی کون کرے گا؟ یا پھر ’را‘ کے سربراہ کو تعینات کیسے کیا جائے گا؟ سربراہ کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن کب کون کیسے جاری کرے گا؟ نہیں پتا! اچھا کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ اس وقت ’آئی بی‘ چیف کون ہے؟ کب تک رہے گا؟ آئندہ آنے والے آئی بی چیف کا انتخاب کب کیوں کیسے اور کون کرے گا؟

کتنی مدت کے لیے تعینات کیا جائے گا؟ کیوں تعینات کیا جائے گا؟ یہ بھی نہیں پتا! چلیں پھر آپ کو بھارتی پارلیمنٹ کے چیف وہپ کا نام تو پتا ہی ہو گا؟ کیا۔ کیا کہا؟ یہ بھی نہیں پتا؟ اچھا! تو انڈین ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ کا عہدہ تو بڑا اور اہم ہوتا ہے اس کا نام تو پتا ہی ہو گا؟ ارے! آپ کو تو بھارتی ملٹری انٹیلی جنس چیف کا نام بھی نہیں پتا! ظاہر ہے پتا بھی کیسے ہو گا، جب کسی بھی ملک کے حساس اداروں کے سربراہوں کے ناموں اور معاملات کی تشہیر کبھی بھی ٹویٹس، سوشل میڈیا یا مین اسٹریم میڈیا میں نہیں کی جاتی! خفیہ اور حساس اداروں کے معاملات چلانے اور تعیناتیوں کے طریقے بھی حساس اور خفیہ ہی ہوتے ہیں!

لیکن ہمارے حکومتی نمائندوں کی ٹویٹس اور غیر معمولی پرفارمنس کی بدولت سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا میں پاکستان کے آئی ایس آئی چیف سے لے کر قومی اسمبلی کے چیف وہپ اور دیگر اہم تعیناتیوں کے چرچے عام ہیں۔ حساس اداروں کے سربراہوں کی تعیناتی کے معاملات اور نام گزشتہ چند روز سے نہ صرف عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہیں بلکہ سوشل میڈیا کی میمز کی بھی زینت بنے ہوئے ہیں۔

عالمی میڈیا میں کہیں جنرل فیض حمید کو ’کابل سپر اسٹار‘ کے نام سے پکارا جا رہا ہے تو کہیں ’متنازعہ آئی ایس آئی چیف‘ لکھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب حکومت اور فوج کے درمیان گزشتہ نو دن سے ڈی جی آئی ایس آئی کے زیرالتوا معاملے پر اب اپوزیشن حلقوں اور حکومتی ناقدین کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا حکومت کے اہم معاملات پر فیصلے اور تقرریاں منطق، قانون، آئین اور اصولی بنیادوں کے بجائے جادو ٹونے، مؤکل اور جنات کے ذریعے طے کیے جا رہے ہیں؟

مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح الفاظ میں ’جنتر منتر کی سرکار‘ کا ذکر کیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ پاکستانی حکومت کا یہ امیج اور تاثر نہ صرف قومی سیاسی و سماجی حلقوں میں بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے کہ کیا پی ٹی آئی حکومتی معاملات اداروں کی مشاورت کے بجائے ’خاص مرئی طاقتوں‘ کے اشاروں پر چلا رہی ہے؟

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی حکومت خاص طور پر بنی گالا کے معاملات کو جنات، مؤکل اور جادو ٹونے سے جوڑا جا رہا ہے بلکہ اس قبل بھی اس طرح کی ٹویٹس اور پوسٹس گردش میں رہی ہیں لیکن اب سنجیدہ سیاسی حلقوں کی جانب سے بھی اس طرح کے بیانات سامنے آنا کوئی نیک شگون نہیں۔ اب سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان میں اہم معاملات پر اداروں کے بجائے مؤکل اور جنات سے مشاورت کی جاتی ہے؟ کیا جادو منتر کے ذریعے پاکستان کے اہم سیاسی معاملات اور سیکیورٹی امور کا فیصلہ کیا جائے گا؟ کب کس کو کہاں، کس تاریخ کو کتنے بجے کس دن تعینات کرنا ہے؟ کسی عہدے پر تقرری یا تعیناتی آئینی مدت ختم ہونے پر کی جائے گی یا پھر بغیر کسی منطق اور متفقہ رائے کے توسیع دے دی جائے گی؟

لگتا کچھ یوں ہے کہ پاکستان کے خارجہ امور سے لے کر داخلی مسائل اور معیشت تک تمام اہم معاملات یہ حکومت ایڈہاک بنیادوں پر بنا کسی آئین اور قانون کے آرڈینینس یا ’خاص مشاورت‘ کے ذریعے چلا رہی ہے۔ معیشت کے ذکر سے یاد آیا کہ واشنگٹن میں وزیرخزانہ کی حیثیت سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے والے شوکت ترین کی وزیر رہنے کی مدت بھی 17 اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے کیونکہ آئین کے مطابق کسی غیر منتخب شخص کو چھ ماہ کے لیے وفاقی وزیر بنایا جاسکتا ہے لیکن کابینہ میں رہنے کے لیے غیر منتخب شخص کو سینیٹر یا رکن قومی اسمبلی منتخب ہونا ضروری ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اب ان کی بطور مشیر تعیناتی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل حفیظ شیخ بھی غیر منتخب وزیر خزانہ تھے جنہیں سینیٹ الیکشن میں شکست کے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ کم و بیش یہ ہی حالات و معاملات دیگر وزارتوں کے بھی نظر آتے ہیں جہاں یا تو وزارت کے سربراہ کو پتا ہی نہیں کہ اس کی اپنی منسٹری کے معاملات کیا ہیں یا پھر پوری کی پوری وزارت ہی ایڈہاک بنیادوں پر چل رہی ہے۔

پاکستان میں عوامی اور سیاسی سطح پر ذاتی معاملات کو چلانے کے لیے روحانی رہنمائی لینا کوئی نئی بات نہیں۔ 1958 میں برسر اقتدار آنے والوں سے لے کر 2018 میں اقتدار سے جانے والوں تک سب کی روحانی رہنمائی کا کوئی نہ کوئی مرکز رہا۔ لیکن ریاستی معاملات کو روحانی قوتوں کی مدد سے چلانے کے تاثر کو جو دوام موجودہ حکومت دے رہی ہے وہ کسی طور ملکی سالمیت اور سلامتی کے لیے درست نہیں۔

ویسے تو موجودہ حکومت کو سیاسی طور پر بہت سی بیماریاں لاحق ہیں لیکن پی ٹی آئی حکومت خاص طور پر وزیراعظم عمران خان کے بارے میں گہرا ہوتا یہ تصور کہ ان کے اہم سیاسی معاملات اور فیصلوں پر روحانی قوتیں اثرانداز ہو رہی ہیں نا صرف حکومت بلکہ پاکستان کی سالمیت کے لیے بھی بہت خطرناک ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ریاستی امور سے متعلق اہم معاملات پر فیصلے نہ صرف جلد کریں بلکہ منطق، آئین اور قانون کے مطابق کریں تاکہ ’جنتر منتر کی سرکار‘ کے تاثر کو ختم کیا جا سکے۔

ساتھ ہی پاکستان کے اہم اداروں اور معاملات کو سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کی زینت بننے سے روکنے کی ضرورت ہے ورنہ عالمی میڈیا اور ملک دشمن عناصر پاکستان کے معتبر اور حساس اداروں کے بارے میں اس ہی طرح کی خبریں شائع کریں گے جیسی کہ گزشتہ نو روز سے کی جا رہی ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments